خواجہ عبدالمنتقم
ہر سال کی طرح اس سال بھی 10 دسمبر کو رسماً یوم انسانی حقوق منایا گیا۔ اسی دن انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ 10دسمبر، 1948 کو بشکل تجویز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش ہوا تھا۔ 48اراکین نے اس کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 8ارکان نے رائے دہی میں حصہ نہیں لیا۔ یہ اعلامیہ بھاری اکثریت سے منظور ہوا اور تمام دنیا آج اسے عالمی منشور حقوق انسانی یا عالمی اعلان برائے حقوق انسانی یا انسانی حقوق کے عالمی اعلان کے نام سے جانتی ہے۔اس سال یوم انسانی حقوق کا موضوع(theme) تھا :ہمارے حقوق،ہمارا مستقبل اور فی الوقت صورت حال۔یہ موضوع اس بات کا مظہر ہے کہ انسانی حقوق عطا کیے جانے کی غرض لوگوں کو بااختیار بنانا، ان کے ساتھ برابری کا برتاؤ کرنا اور ان کے ساتھ کسی بھی طرح کاامتیاز نہ برتنا اورانسانی حقوق کا تحفظ مقصود ہے۔
اکثریہ کہا جاتا ہے کہ انسانی حقوق بنی نوع انسان کو ہرسطح پر، خواہ وہ انفرادی ہو، اجتماعی ہو یا عالمی، مربوط کیے ہوئے ہیں ورنہ انسانی زندگی کا تحفظ تو کیا اس کا وجود بھی خطرے میں پڑجاتا۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا ملک مہذب ممالک کی صف میں نہیں کھڑا ہوسکتا لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب باتیں ہیں اور باتوں کا کیا؟ زمینی حقیقت کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہی ہے۔
اعلامیے کی دفعہ1 میںیہ التزام ہے کہ تمام انسانوں کوایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ سلوک کرنا چاہیے۔ کیا روس، یوکرین، فلسطین اور اندرون اسرائیل انسانوں کے ساتھ برادرانہ اور غیر جانبدارانہ برتاؤ کیا جا رہا ہے؟ہر گز نہیں۔
دفعہ 3 میں یہ کہا گیا ہے کہ ہر شخص کو زندگی، آزادی اور اپنی ذات کے تحفظ کا حق حاصل ہے مگر فلسطین میں صرف تیغوں کا سایہ ہے۔
دفعہ 5میں یہ بات کہی گئی ہے کہ کسی شخص کو تشدد اور ظلم کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا اور کسی شخص کے ساتھ غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک نہیں کیا جائے گا۔ کیامشرق وسطیٰ میںوقوع ہونے والے واقعات یقینی طور پر انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی نہیں؟بے گناہ لوگوں،جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، کے ساتھ ظالمانہ سلوک، لوگوں کو بجلی پانی کے بغیر بھوکا پیاسا رہنے،علاج کی سہولیات میسر نہ ہونے اور نقل مکانی کے لیے مجبور کرنا، انسانی حقوق کی دیدہ دانستہ خلاف ورزی نہیں تو اور کیاہے؟
ایک جانب متوفیوں کو دفن کے لیے دو گز زمین بھی میسر نہ ہونا تو دوسری جانب انسانی حقوق کے عظیم علمبردار امریکہ میں انسان تو انسان کتوں تک کو انسانوں کی طرح نہ صرف ان کی زندگی میں بلکہ ان کے مرنے کے بعد بھی پوری پوری عزت دی جاتی ہے۔ انہیں باقاعدہ قبرستانوں میں دفن کیا جاتا ہے۔ ان قبرستانوں کو DogCemetries یا Dog Memorial Grave Yards کہا جاتا ہے۔ ایک غریب فلسطینی ہی ہیں جن کے جسد خاکی کو خاک بھی نصیب نہیں۔ ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ ادھر سیاسی رہنماؤں کی ضد اور پر تشدد و ظالمانہ رویے کے سبب کتنے ہی بے گناہ لوگ قید میں اور کتنوں کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔
دفعہ 13 کی رو سے ہر شخص کو اپنے ملک کی حدود میں نقل وحرکت اور رہائش کی آزادی کا حق حاصل ہے اوردفعہ 14 کے تحت ہر شخص کو ظلم و تشدد سے بچنے کے لیے دوسرے ممالک میں پناہ لینے کا حق حاصل ہے۔ کیا غزہ اور لبنان میں ظلم و تشدد سے بچنے کے لیے لوگوں کو بوقت ہجرت تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا؟کیا مشرق وسطیٰ اور یوکرین و روس میں بے گناہ لوگ نہیں مارے گئے؟ کیا ان مماملک میں کثیر تعداد میں عمارتیں زمیں بوس نہیں کردی گئیں؟
دفعہ 16 کے مطابق پوری عمر کے مردوں اور عورتوں کو نسل، قومیت یا مذہب کی کسی تحدید کے بغیر، باہم شادی کرنے اور خاندان کی بنیاد رکھنے کا حق حاصل ہے۔ شادی، دوران شادی اور اس کی تنسیخ کے سلسلے میں وہ مساوی حقوق رکھتے ہیںاور شادی کے خواہش مند جوڑوں کی شادی ان کی مکمل رضامندی سے کی جائے گی۔ کیا ہمارے ملک میں ’لوجہاد‘ جیسے نعرے کے سبب کچھ محبت کرنے والے شادی شدہ و غیر شادی شدہ جوڑوں کو موت کے گھاٹ نہیں اتار دیا گیا ؟کیاممنوعہ جانوروں کی قربانی کے مبینہ مرتکب بے گناہ لوگوں کو سر عام قتل نہیں کیا گیا جسے اب لنچنگ کے نام سے جانا جاتا ہے، کیا جلسے جلوسوں میں پتھربازی نہیں ہوئی؟ کیا ہمارے پڑوسی ملک میں اقلیتوں کو مالی و جانی نقصان نہیں ہوا اور عبادت گاہوں کو منہدم نہیں کیا گیا؟
دفعہ 17 کی رو سے ہر شخص کو تنہا یا دوسروں کے ساتھ مل کر جائیداد رکھنے کا حق حاصل ہے اورکسی کو من مانے طور پر اس کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جائے گا مگر اترپردیش میں ایک مخصوص فرقے سے تعلق رکھنے والے شخص کے کسی اکثریتی فرقے کی ہاؤسنگ سوسائٹی میں فلیٹ خریدنے پر ہنگامہ برپا نہیں ہوا؟
اب تو انسانی حقوق کا دائرہ اس قدر وسیع ہوچکا ہے کہ عزت سے جینا اور عزت سے مرنا دونوں ہی انسانی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں۔ کسی کو تشدد کا نشانہ بناکر انسانیت سوز حرکات کے ذریعہ اس کی جان لینا تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ہی لیکن مرنے کے بعد بھی کسی کی لاش یا میت یا اس کی قبر کی یا اس جگہ کی جہاں اسے دفن کیا گیا ہے یا نذرآتش کیا گیا ہے یا جہاں کسی قسم کی آخری رسوم ادا کی گئی ہیں، بے حرمتی بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ لہٰذا بہت سے لوگوں کا یہ کہنا کہ انسانی حقوق انسان کی موت کے ساتھ ختم ہوجاتے ہیں، بجا نہ ہوگا۔ جس طرح انسانی حقوق کی اہمیت انسانی زندگی کے خاتمہ کے بعد بھی، اگرچہ محدود حد تک، باقی رہتی ہے بالکل اسی طرح انسانی حقوق تو انسانی زندگی کے اس دنیا میں رونما ہونے سے قبل ہی(یعنی کسی کی پیدائش سے قبل ہی) وجود میں آجاتے ہیں۔ مثلاً ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے اگر اس بچے کی صحت پر منفی اثر پڑتا ہے جس نے ابھی جنم نہیں لیا ہے تو اس کی بابت یہ کہا جائے گا کہ اس کا حفاظت نفسی کا بنیادی حق اس کی صحت کو ہونے والے ضرر کی حد تک متاثر ہوا ہے۔
انسانی حقوق براہِ راست تو صرف انسانوں کو ہی حاصل ہیں لیکن انسانوں کے توسط سے یہ حقوق جانوروں اور پرندوں کو بھی حاصل ہوگئے ہیں اور یہاں تک کہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے بھی ان کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ اگر ماحولیاتی تحفظ کے منفی کوئی کام کیا جاتا ہے اور اس کا عوام پر برا اثر پڑتا ہے تو کوئی بھی شخص آئین کی دفعہ 32 یا 226 کے تحت بالترتیب سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ سے رجوع کرسکتا ہے۔ اسی طرح اگر جانوروں یا پرندوں کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کیا جاتا ہے تو اس کے خلاف دیگر قوانین کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔ دیگر ممالک میں بھی ان کے اپنے اپنے آئین اور قوانین کی مماثل دفعات کے مطابق ضروری کارروائی کی جاسکتی ہے۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]