گلوبل ہیپی نیس انڈیکس رپورٹ: نئی نسل کی خوشیاں کہاں غائب ہو رہی ہیں؟

0

 عبدالماجد نظامی

(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)

حال میں گلوبل ہیپی نیس انڈیکس کی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نئی نسل بڑی ناخوش نظر آ رہی ہے۔ انہیں اپنے مستقبل سے سخت مایوسی ہے اور زندگی کے مسائل کی فکر نے انہیں غم و اندوہ کے سمندر میں دھکیل دیا ہے۔ وہ ان موجوں سے نکلنے کا ہنر سیکھنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ دنیا کے142ملکوں کی فہرست میں ہمارے ملک عزیز کا نمبر126ہے۔ ظاہر ہے کہ عالمی قیادت کا خواب دیکھنے والے ملک کے لیے یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے کیونکہ یہ نئی نسل ہی ایسی ہوتی ہے جن کے کاندھوں پر بہتر مستقبل کی عمارت قائم کرنے کا منصوبہ بنایا جاتا ہے۔ اگر یہی نسل ہی مایوس ہوجائے گی اور ان میں شاندار مستقبل کو قائم کرنے کا حوصلہ ختم ہوجائے گا تو پھر یہ ہمارے ملک کے لیے کوئی اچھی خبر تو بالکل نہیں ہوسکتی ہے۔ اب اگر ان کی ناخوشی کے اسباب پر غور کیا جائے تو اس کے لیے الگ الگ اور متفرق وجوہات کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ زیادہ تر واضح اسباب جو آج کے دور میں دیے جاتے ہیں، ان میں جاب اور ملازمت کے مواقع کی کمی، سوشل میڈیا کی وجہ سے سماج اور معاشرہ کے بیجا مطالبے اور ان کے اعتبار سے خود کو تیار نہ پانا، یا پھر والدین کی جانب سے اپنے بچوں سے زیادہ توقعات قائم کر لینا، ہر روز بدلتی دنیا میں خود کو ثابت نہ کر پانے کا خوف اور کئی بار اپنی پسند یا سماجی معیاروں کے مطابق طے شدہ تعلیمی اداروں یا کمپنیوں میں نہ جا پانا ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے نئی نسل سخت دباؤ محسوس کر رہی ہے۔ اکثر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ کوچنگ سینٹروں میں زیر تعلیم بچے خود کشی کر لیتے ہیں اور اپنے خود کشی نوٹ میں اپنے والدین کو یہ لکھ کر اس دنیا کو الوداع کہتے ہیں کہ ہمارے والدین نے ہم سے جو توقعات اور امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں، ہم ان کی تکمیل کی ہمت اپنے اندر نہیں پا رہے ہیں۔

گویا ہمارا تعلیمی نظام، اقتصادی ماڈل اور سماجی تانا بانا اس انداز میں تیار کیا گیا ہے کہ وہ زندگی میں خوشیوں کے لمحات دینے میں قاصر نظر آتے ہیں۔ ایک دور وہ تھا جب ارسطو نے کہا تھا کہ دولت اور اعلیٰ قدریں بہتر زندگی کی ضامن ہوتی ہیں اور ان سے انسان اپنی زندگی میں مسرت و شادمانی محسوس کر تا ہے۔ لیکن اسلامی نقطہئ نظر سے اگر دیکھا جائے تو انسان کی زندگی میں خوشی حاصل کرنے کے نہایت اہم اور مؤثر نسخے بتائے گئے ہیں۔ اس کی سب سے بہتر مثال تو اس حدیث پاکؐ سے دی جا سکتی ہے جس میں ہمارے نبی کریمؐ نے فرمایا کہ مالداری یہ نہیں ہے کہ آپ کے پاس مال و دولت کا انبار ہو بلکہ اصل خوشی کا راز اس امر میں پوشیدہ ہے کہ آپ دل سے غنی اور مال دار ہوں۔ اس کی مزید وضاحت اس حدیث پاکؐ سے ہوتی ہے جس میں اس بات کی رہنمائی کی گئی ہے کہ دنیا کے معاملہ میں اپنے سے نیچے اور کمزور طبقوں کو دیکھو جنہیں زندگی کے وسائل تم سے کم مہیا کیے گئے ہیں جبکہ دینی و روحانی معاملوں میں اپنے سے اوپر طبقوں کو دیکھو۔ یہ ایک بہت ہی مؤثر نسخہ ہے۔ اگر انسان اپنے سے غریب اور نادار لوگوں کو دیکھتا ہے تو اس سے یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ رب نے مجھے فلاں سے بہتر بنایا ہے لہٰذا اس سے شکر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جب انسان روحانی اور دینی معاملوں میں اپنے سے اوپر والوں کو دیکھتا ہے تو اس میں اپنی کمی و کوتاہی کا احساس ہے اور وہ خود کو روحانی اعتبار سے بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔اس طرح جوں جوں روحانیت میں اضافہ ہوتا ہے انسان خود کو خدا کے فیصلہ سے رضامند ہونے کا عادی بنالیتا ہے۔ اس میں یہ احساس بھی پیدا ہوتا ہے کہ دنیا تمناؤں کے پورا ہونے کی جگہ نہیں ہے تو جو امیدیں پوری نہیں ہوئی ہیں ان پر مایوس نہیں ہوتا ہے بلکہ قضاء و قدر کا فیصلہ سمجھ کر قانع ہوجاتا ہے اور اسی لیے دکھی نہیں ہوتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اتنی شاندار اسلامی رہنمائی موجود ہے تو پھر مسلم ممالک کا نام اس گلوبل ہیپی نیس انڈیکس میں سب سے خراب کیوں ہے؟ کیوں افغانستان، سوڈان، لبنان، لیبیا اور عراق وغیرہ کی حالت سب سے خراب بتائی گئی ہے؟

یہ بھی پڑھیں: شہریت ترمیمی قانون سوالات کے گھیرے میں : پروفیسر عتیق احمد فاروقی

اس کا واضح جواب یہ ہے کہ ان ملکوں میں موجود مسلم قیادت نے نہ تو اسلامی رہنمائی سے فائدہ اٹھایا اور نہ ہی دنیا کے کامیاب اور ترقی یافتہ ملکوں کے تجربوں سے کوئی استفادہ کیا جس کا سنگین نتیجہ مسلم عوام ان ممالک میں جھیل رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی رہنمائی اور باقی اقوام عالم کے تجربات سے فائدہ اٹھاکر اپنی اور اپنی قوم کی اقتصادی، سماجی اور علمی حالت کو بہتر بنایا جائے، جب تک اس سمت میں سنجیدہ کوشش نہیں کی جائے گی تب تک مایوسی کے بادل نہیں ہٹیں گے۔ یہ گلوبل ہیپی نیس انڈیکس ایک اشارہ ہے کہ ہم اپنی غلطیاں دور کریں اور بہتر دنیا کی تشکیل میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS