اْردو کے مخلص دوست گیانی ذیل سنگھ

0
عارف عزیز (بھوپال)
ہندوستان کے سابق صدر جمہوریہ گیانی ذیل سنگھ اقلیتی سکھ فرقہ کے پہلے اور آخری نمائندے تھے، جس نے قصر صدارت کو رونق بخشی، بنیادی طور پر وہ ایک کسان تھے جو ترقی کرکے ملک کے سب سے بڑے عہدہ پر فائز ہوئے اور سب سے بڑھ کر ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ اردو کے ایک سچے دوست تھے۔ اردو شاعری کا بڑا اچھا ذوق رکھتے تھے، موقع کے لحاظ سے کوئی تڑکتابھڑکتا ہوا شعر سناکر اکثر داد و تحسین لوٹ لیا کرتے تھے۔ جب وہ صدر جمہوریہ نہیں تھے تب اردو زبان کے حق میں آواز اٹھایا کرتے تھے۔ مرکزی وزیر داخلہ کی حیثیت سے انہوں نے بہار کی طرح پورے ملک کی دوسری سرکاری زبان اردو کو بنانے کی وکالت کی اور یہ کہہ کر بھی اردو نوازی کا مظاہرہ کیا کہ ’’گرونانک جی کا کلام ٹھیک سے سمجھنے کیلئے اچھی اردوزبان جاننی ضروری ہے۔ کیونکہ اِس میں اردو و فارسی کے الفاظ زیادہ ہیں۔‘‘
صدر جمہوریہ بننے کے بعد بھی گیانی جی کے قول و فعل میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ پہلے کی طرح جوش و خروش اور محبت و لگن کے ساتھ اردو کی تائید کرتے رہے، ’غالب ایوارڈ‘ کی تقسیم کے موقع پر انہوں نے جو تقریر کی تھی اْس میں اْن کے دلی جذبات کا عکس نمایاں تھا، بحیثیت صدر جمہوریہ گیانی جی نے یہ اعلان کرکے سب کو دنگ کر دیا تھا کہ ’اْردو کو کوئی نہیں مٹا سکتا، اس کو مٹانے والے خود مٹ جائیں گے۔‘ ملک کے سربراہ کی زبان اردو کیلئے ڈنکے کی چوٹ پہ اعلان معمولی بات نہیں تھی۔
اسی طرح انہوں نے ہندی اردو ادب ایوارڈ کمیٹی کی جانب سے دیئے گئے انعامات کے سلسلہ میں لکھنؤ میں اپنی تقریر کے دوران اردو کو اترپردیش کی دوسری سرکاری زبان بنانے کی وکالت کرکے اْس وقت کے وزیر اعلیٰ نرائن دت تیواری کو کافی شش و پنج میں مبتلا کر دیا تھا۔ انہوں نے از راہِ مذاق مشورہ دیا کہ وزیر اعلیٰ کی کوٹھی پر جاکر اْردو والے دھرنا دیں اور اْس وقت تک وہاں سے نہ ہٹیں جب تک کہ اردو کو سرکاری زبان بنانے کی مانگ پوری نہ ہوجائے (مگر یہ نہ کہا جائے کہ راشٹرپتی جی نے ایسا کہا ہے) اردو کیلئے جو گیانی جی کی مادری زبان تھی اور جس کے رسم الخط کو وہ نہایت آسانی سے پڑھ اور سمجھ لیتے تھے، اس سے بڑھ کر ایک صدر جمہوریہ اور کیا کہہ سکتا ہے کیونکہ وہ ایک دستوری سربراہ تھے۔ اپنی طرف سے کوئی بات منوانے کے لئے جبر کرنا اْن کے دائرہ کار سے باہر تھا۔ گیانی جی سے پہلے صدر جمہوریہ کے عہدہ پر فائز ہونے والے ڈاکٹر راجیندر پرساد، ڈاکٹر ذاکر حسین اور فخر الدین علی احمد کی بھی مادری زبان اردو تھی ،لیکن اپنی زبان کے حق میں کوئی عملی قدم اٹھانے سے یہ صدور بھی معذور رہے۔
حالانکہ ڈاکٹر ذاکر حسین جب شیخ الجامعہ تھے تو اترپردیش سے ریل کی ایک بوگی بھر کے دستخطوں کے پلندے لے کر راشٹرپتی بھون پہنچے اور اْس وقت کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجیندر پرساد کے سامنے اْن کا ڈھیر لگا دیا تھا، یہ بیس پچیس لاکھ دستخط دہائی دے رہے تھے کہ اردو ہماری زبان ہے۔ بچوں کو اس کی تعلیم سے محروم کرکے ہماری زبان کا گلا گھوٹا جارہا ہے، جس کے ساتھ انصاف کرنے کی ہم گزارش کرتے ہیں۔ بابو راجیندرپرساد نے جو خود اردو و فارسی داں تھے، کاغذات کے اس انبار کو اٹھوا کر راشٹرپتی بھون کے کسی تاریک گوشے میں رکھوا دیا، جن کے بعد ان کو کبھی روشنی دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ بعد میں قسمت نے ایسا پلٹا کھایا کہ ذاکر حسین خود صدر بن کر راشٹرپتی بھون پہنچ گئے۔ لیکن اردو کیلئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھا سکے۔ اسی طرح فخر الدین علی احمد صدر جمہوریہ بنے تو اپنی زبان کیلئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ اْن کے دل میں پیدا ہوا، لکھنؤ میں اردو اکادمیوں کی کانفرنس کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے وزیر اعلیٰ اور اسمبلی اسپیکر سے سوال کیا تھا کہ ’آپ جواب دیں، آئین کی کس دفعہ کی رْو سے اترپردیش اسمبلی پر اْردو کے دروازے بند کر دئے گئے ہیں۔‘ دونوں کے مرجھائے ہوئے چہرے نظر انداز کرکے صدر نے سرکاری عملہ کو للکارا تھا، ’کان کھول کر سن لو! حکومت کی پالیسی اردو کو ترقی دینے کی ہے کیونکہ اردو ملک کی ایک دستوری زبان ہے، جس کے خلاف زیادتی کا سخت احتساب ہوگا۔‘ لیکن موت کے بے رحمی ہاتھوں نے انہیں اردو کے لئے مزید کچھ کرنے کی مہلت نہیں دی۔
گیانی ذیل سنگھ بھی اردوکے پرستار تھے، اردو شعر و شاعری کا ذوق رکھتے تھے، لیکن اردو کا دم بھرنے والا یہ صدر بھی اردو کے تحفظ و ترقی کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھا سکا، اگر وہ صرف یہ کر دیتے تو بڑا کام ہوتا کہ اردو کی تعلیم کا انتظام پرائمری درجات سے کالج کی سطح تک ہوجائے، اردو کے لئے ٹیچر اور کتابیں مہیا ہوجائیں، تاہم گیانی جی کا دم غنیمت تھا، انہوں نے پریس سنسربل روک کر، دربارہ صاحب میں قومی کارروائی پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرکے اور صدر و وزیر اعظم کے رشتوں پر بے لاگ گفتگو کرکے اپنے وقار میں اضافہ کر لیا تھا لیکن کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ جس زبان کو وہ زندگی بھر بولتے، لکھتے اور پڑھتے رہے اس کے حق میں مؤثر قدم نہ اٹھا سکے۔
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS