شاعر اپنے دور کا مورخ ہوتا ہے کاتب حدیث دل ہوتا ہے۔ اس کا قلم جہاں درد دل کا اظہار کرتاہے، وہیں زمانے کے نشیب وفراز گردوغبارکا غماز ہوتا ہے۔ اپنے دل کی کیفیات اور زمانے کے کرب آلام کو اپنے فن کے ذریعہ پیش کرتا ہے، اپنی شاعری میں اپنے نثر میں خیالات نظریات اور جذبات کااظہار کرتا ہے۔ کلاسیکی شاعری کی اہم شخصیت اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ غلام ربانی کی شاعری اور شخصیت انہی خصوصیات کی حامل ہے۔
ان کی نظموں میں غم دوراں بھی ہے اور حدیت دل بھی ہے۔ تاباں صاحب کا دور جدوجہد آزادی کا دور تھا وہ دور تھا جب ایک طرف آزادی کی لڑائی فیصلہ کن میں بھی تو دوسری طرف وطن عزیز کو تقسیم کرنے کے لیے پاکستان بنانے کی خواہش مند اور دیگر نفاق پسند طاقتیں ملک کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی کوششوں میں کامیاب ہوتی دیکھائی دے رہی تھیں، ہر انسان ہر ہندوستانی کنفیوز تھا کہ تقسیم وطن کس کے حق میں ہے اور اس کی تقسیم کیسے ہوگی اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ یہی دور تھا جب تاباں صاحب ترقی پسند تحریک کے پرچم بردار بنے ہوئے تھے، اپنے نغموں اپنے گیتوں ، غزلوں سے محنت کشوں ، مزدوروں کی آواز ہوتے تھے۔ وہ ماہر قانون ہونے کے باوجود وکالت کو زیادہ دنوں تک بطور پیشہ اختیار نہیں کرسکے ۔ان کے اندر کا بے چین ادیب، مخلص، سچا انسان قانونی شگافیوں کو زیادہ دنوں تک اپنا ذریعہ معاش نہیں بناسکے، وہ قلم کار تھے ، شاعر تھے۔ ماحول سے متاثر ہو کر انہوںنے جنگ آزادی میں شمولیت کی۔
عوامی جلسوں اور جلوسوں میں ایک طرف انگریزوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے تو دوسری طرف اردو زبان کی خدمت کررہے تھے، ادب کی آبیاری کررہے تھے، اپنے ذوق کی تسکین کررہے تھے،تاباں نے عملی زندگی میں اپنے نظریات پر ہی عمل کیا۔ ان کے قول ، فکراور طرز زندگی میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ سادہ زندگی بسر کرنے والے غلام ربانی تاباں نے ایک قلندر کی طرح زندگی بسر کی۔ تمام وسائل اور مواقع ہونے کے باوجود زندگی کی شروعات ایک کلرک کی طرح کی تو دوسری طرف، قومی یکجہتی کو درپیش خطرات سے عوام الناس کو آگاہ کررہے ہیں کہ وہ ملک کی تقسیم کو لے کر اٹھنے والی فرقہ وارانہ صدائوں پر توجہ نہ دیں، آپسی اتحاد وسماجی میل ملاپ کے ماحول کو پراگنددہ نہ کریں۔
تاباں صاحب اپنے دور کے بااثر مجاہد آزادی تھے، اپنے پر اثر خطابات او تحریروں کی وجہ سے انگریزوں نے ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی۔ الگ سمت ، آہنگ کے شاعری تاباں صاحب انقلابی مزاج رکھتے تھے، کارل مارکس اور دیگر ترقی پسندا اور کمیونسٹ دانشوروں ومفکروں سے متاثر رہے۔
غلام رغلام ربانی تاباں کی ولادت 15؍ فروری1914ء کو قائم گنج، ضلع فرخ آباد(یوپی) میں ایک مہذب خانوادے میں ہوئی۔ آپ کے دادا مرحوم کا نام محبوب عالم خان اور والد کا جانِ عالم خان تھا۔ تاباںؔ کی ابتدائی تعلیم قائم گنج کے کانوینٹ میںہوئی۔ بعد ازاں ثانوی اول کی تعلیم جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہوئی۔ آگراسچن ہائی اسکول فرخ آباد سے1931ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ چلے گئے اور وہاں سے 1933ء میں انٹر میڈیٹ پاس کرنے کے بعد سینٹ جارج کا لج آگرہ میں داخل ہوئے۔ اور یہیں سے بی۔ اے اور پھر ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا اور1940میں فتح گڑھ میں وکالت شروع کی۔ مگر اس پیشہ میں ان کا دل نہ لگا۔
ایک حساس دل اور سوچنے والے نوجوان تاباں ذہنی طور پر جنگ آزادی سے وابستہ ہوگئے۔ خوب تقاریر کیں اور اخبارات میں مضامین لکھے۔ان کے اندر کا شاعر اور مجاہد اس دور میں پروان چڑھا۔
جگر مرادآبادی کی صحبتوں نے ان کے ادبی ذوق اور شاعری کو پروان چڑھایا۔ اس دور میں تاباں صاحب ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوگئے۔ اور اس زمانے کی شہرآفاق شخصیات سے ملاقات ہونے لگیں جن میں سجاد ظہیر بطور خاص تھے۔ اس وابستگی سے ان کی سیاسی اور سماجی زندگی اور سرگرم ہوگئی اور جلدہی دہلی منتقل ہوگئے۔ جامعہ ملیہ کے تعلیمی اور ادبی ماحول نے ان کی شاعری کو جلا بخشی اور ترقی پسند تحریک کی تنظیم کو فروغ دیا اور کئی شہروں میں شاخیں قائم کیں۔
وہ ایسی شخصیت نہیں ہے جو سیاسی ضروریات اور تقاضوں سے متاثر ہوکر ترقی پسندوں سے وابستہ ہوئے تھے وہ بنیادی اور فطری طور پر مزدوروں او رکسانوں کے ہمدرد او رہم نوائع، مزاج کی قلندری ان کی پوری شخصیت میں نمایاں تھی اور یہی مزاج ان کی ذاتی زندگی اور شخصیت میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہی وہ فطری رجحان ہے جو ان کے فن میں شدت کے ساتھ موجود ہے۔ دہلی میں قیام کی وجہ سے ان کی شخصیت میں یہاں کے سماجی روّیے صاف دکھائی دیتے ہیں دہلی کے فسادات میں قیام امن کی کوششوں میں تاباں صاحب سرکردہ شخصیات کے شانہ بشانہ دکھائی دیتے ہیں دہلی کی گلیاں اس ذی حِس انسان ہر فساد میں مرحم لگانے والوں کے ساتھ ساتھ بلکہ آگے آگے قائدانہ رول ادا کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ ان کے اند رکا حساس شاعران کو گوشہ نشینی اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ تاباں کو میدان کار زار اور میدان عمل میں لاتا ہے، یہی وہ مزاج ہے جو فسادات کو روکنے میں ناکامی پر حکومتوں کو آئینہ دکھاتا ہے ۔
اہم تصنیفات:۔
1- سازِ لرزاں (۱۹۵۰ء)
2- حدیثِ دل (۱۹۶۰ء)
3- ذوقِ سفر (۱۹۷۰ء)
4- ہوا کے دوش پر (۱۹۷۴ء)
5- نواے آوارہ (۱۹۷۶ء)
تالیفات:
1- شکستِ زنداں
2- غمِ دوراں
تراجم:
1- جدّوجہد آزادی
2- جدّوجہدِ آزادی میں مرکزی مجلسِ قانون ساز کا رول
3- معاشی قوم پرستی کی ابتدا وارتقا
4- ہندوستان کی معاشی تاریخ (حصّۂ اوّل و دوم)
5- گزیٹیر آف انڈیا
غلام ربانی تاباں کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ان کی ایک نظم “انتقام” کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ اس نظم میں صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے وہ کہتے ھیں:
“میں کس سے انتقام لوں
یہ سچ ہے بیکسوں کے خوں سے سرخ ہو گئی زمیں
مصیبتوں کی داستاں میں سن چکا ہوں ہم نشیں
میں سن چکا ہوں کس طرح بزرگ و ناتوان بھی
بلکتے شیرخوار بھی، فسردہ نوجوان بھی
اجل کے گھاٹ ایک ایک کرکے سب اتر گئے
گھروں کی شاہزادیاں، حریمِ ناز کی مکیں
(جو عفتیں گنوا چکیں، جو عصمتیں لٹا چکیں)
بھٹک رہی ہیں در بدر
برہنہ پا، برہنہ سر
میں سن چکا ہوں ہم نشیں یہ داستانِ دل خراش
مگر کسے میں دوشں دوں
میں کس سے انتقام لوں
تباہیوں کی گود میں پلے ہوئے کسان سے۔؟
کہ جنگِ انقلاب کے سپاہی، نوجوان سے۔؟
غریب و ناتوان سے۔؟
نہیں، نہیں !!
یہ سب مرے عزیز ہیں، یہ سب مجھے عزیز ہیں
میں کس سے انتقام لوں
بتا کسے میں دوشں دوں
تاباں صاحب کے چار مجموعے کافی مقبول ہوئے۔ ان میں ساز لرزاں ، حدیث دل، ذوق سحر اور نوائے آوارہ ۔ نوائے آوارہ پر ساہتیہ اکادمی نے 1971میں انعام سے بھی نوازا تھا۔
آپ شاعری ک علاوہ تحریر اور تقریر میں دلچسپی رکھتے تھے، ان کی ریڈیو میں نشر ہونے والی تقریروں کا مجموعہ ’ ہوا کے دوش پر شائع ہوچکا ہے۔ تاباں صاحب نے ہندی اور انگریزی میں مضامین لکھے ان کا انگریزی مضامین پر مشتمل ایک مجموعہ شائع ہوچکا ہے۔
1971میںان کو نوائے آوارہ پر ایوارڈ سے نوازہ گیا ۔ 1973میں سویت یونین کے ایک باوقار ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ زبان وادب کی خدمت کے لیے حکومت ہند نے پدم شری جیسے باوقار ایوارڈ سے بھی نوازہ مگر ایک حساس شاعر اور انسان تاباں صاحب نے 1977-78 میں ہونے والے مرادآباد اور علی گڑھ فسادات پر بطور احتجاج پدم شری واپس لوٹا دیا۔ باوقار تنظیم ترقی پسند تحریک کے صدر کے عہدے پر متمکن رہ رہے تاباں صاحب کو 1981میں دہلی کی اردو اکادمی نے غالب ایوارڈ دیا، 1982میں اترپردیش اردو اکادمی نے بھی ان کی ادبی خدمات کو تسلیم کیا۔ 1971میں نوائے آوارہ اور 1972میں رونق سفر پر اعزاز دیے گئے۔
غلام ربانی تاباں مدھم لہجہ کے کم گو اور سنجیدہ فکر اور انقلابی مزاج کے شاعر تھے۔ وہ کسانوں ، محنت کشوں، غریبوں کے سچی ہمدر اور ہم نوا تھے۔ وہ عوام اور اپنے مداحوں کو ترغیب عمل وجہد دیتے تھے۔
موت برحق سہی پر زیست کا حاصل تو نہیں
کارواں طلب وشوق کی منزل تو نہیں
کتنی الجھی ہوئی راہوں سے گزرنا ہے ابھی
زندگانی مہم سرہمیں کرنا ہے ابھی
قصر ظلمت کو ابھی زیر وزبر کرنا ہے
خون مہتاب سے تعمیر سحر کرنا ہے
اس سیہ خانے میں ایک شمع جلا لیں اے دوست
rvr