زین شمسی
جب بھی قوم کی بیداری کا معاملہ آتا ہے، قوم کے دانشوران یہاں تک کہ علما بھی تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اسے قوم کی سب سے اہم ضرورت بتاتے ہیں، لیکن کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم تعلیم کی حصولیابی کی بات تو کرتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ہم تعلیم حاصل کریں تو کیسے کریں ؟کہاں کریں؟یہ سوال اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ بھارت میں تعلیم کی تقسیم اس دن سے شروع ہو گئی تھی جب سے تعلیم کا پرائیوٹائزیشن ہونا شروع ہوگیا۔ تعلیم دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک سرکاری، دوسری پرائیویٹ۔ دونوں جگہ پر داخلہ لینے والے لوگ بھی اقتصادی طور پر، معاشرتی طور پر اور سماجی طور پر بٹے ہوئے ہیں۔ اگر پیسہ ہے تو پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھائی کو ترجیح دی جائے گی اور پیسہ نہیں ہے تو پھر سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں بچوں کا ایڈمیشن ہوگا۔ اب یہیں پر میرا سوال ہے کہ کیا ہمارے قوم کے بچے پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے اہل ہیں؟ کیا ان کے والدین کے پاس اتنے پیسے ہیں کہ وہ ورلڈ کلاس اسکولوں میں داخلہ لے سکیں؟ کیا قوم کے بچوں کے پاس اتنی استطاعت ہے کہ وہ سینٹرل یونیورسٹیوں کے داخلہ جاتی امتحانوں کے معرکے کو سر کر لیں؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو قوم کو ترقی کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا اور اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر اس طرح کے دانشورانہ قول کاکیا جواز ہے کہ قوم کی ترقی تعلیم پر منحصر ہے۔
سرکاری اسکولوں کی حالت اتنی ناگفتہ بہ ہے کہ دہلی میں کجریوال نے صرف اسکولوں کاانفرااسٹرکچر ٹھیک کر دیا تو عالمی پیمانہ پر اس خبر نے تہلکہ مچا دیا۔ سرکاری اسکولوں میں نہ ہی اساتذہ کی بحالی کو ترجیح دی گئی اور نہ ہی اسکولوں کے در و دیوار کو ٹھیک کرنے کی کوئی کوشش کی گئی۔ اسکولوں میں پڑھائی کی جگہ مڈ ڈے میل کا انتظام انتہائی خوش اسلوبی سے کیا گیا۔ بچے اسکولوں میں کتاب اور کاپیوں کی جگہ لنچ کے لیے تھالی کٹورے ساتھ لے جانے لگے۔ اساتذہ بھی بچوں کے ساتھ کھچڑیوں کی تقسیم میں مصروف عمل رہے۔ مڈ ڈے میل جیسی سرکاری اسکیموں کے نفاذ میں جس طرح اسکولوں کے اسٹاف سنجیدہ نظر آتے ہیں، اس کے لیے آنے والے فنڈ میں جس طرح کی دلچسپی ہوتی ہے، اسے دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ اب اسکولوں میں تعلیم نہیں کھانا ملتا ہے۔ یہ وہی ضلع اسکول ہوتے تھے، جس میں ایڈمیشن پا چکے بچے آئی اے ایس اور آئی پی ایس کا خواب دیکھ لیتے تھے۔ آج ضلع اسکولوں کے میدان یاتو سبزی منڈی بنے ہوئے ہیں یا گائے یا بھینسوں کی چارہ گاہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں اور یہ سب تبدیلی اتنی آہستہ سے اوراتنی آسانی سے کی گئی کہ لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلا کہ یہ کیسے ہوگیا۔ اسکولوں کے اساتذہ کو پولیو ڈراپ پلانے، الیکشن کرانے، مختلف طریقے کے سروے کرانے اورکورونا کی روک تھام کے لیے بیداری پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے میں ایسے بچے جو دلت ہیں، غریب ہیں، مسلمان ہیں، ان کی پڑھائی کا کیا ہوگا، کیا اس کے خلاف کوئی بیداری پیدا کی گئی۔ اب یہی وبا کالجوں میں داخل ہو گئی۔ آج کالجوں میںبھی لیکچرار اور پروفیسروں سے کلرکوں کا کام لیا جانے لگا۔ انہیں بھی پنچایت الیکشنوں میں بھیجا جانے لگا۔ ان کو بھی سماجی کاموں مثلاً تعلیمی بیداری مہم اور سرکاری اسکیموںکے نفاذ میں مصروف کر دیا گیا۔ایڈمیشن، ویری فکیشن، رجسٹریشن کے کاموں میں الجھا دیا گیا۔ کلاس ریگولر نہ ہونے کی وجہ سے بچے کلاس چھوڑ کر جانے لگے اور یہاں مڈ ڈے میل کی جگہ اسکالرشپ کا تحفہ دے دیا گیا۔ بیشتر بچے کالج میں داخلہ اسی لیے لیتے ہیں کہ انہیں ماہانہ کچھ پیسے مل جائیں گے۔ سرپرستوں کی بھی یہی خواہش رہ گئی ہے کہ ہمارے بچوں کا بینک اکائونٹ کیسے کھلے۔ امتحانات میں نقل عروج پر ہے۔ کاپی جانچ میں پاس کرنا لازمی ہے۔ گویا پڑھائی ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ کالج میں پڑھنے والے لوگ کمزور طبقے کے ہیں اور انتظامیہ سنبھالنے والے لوگ اعلیٰ ذات اور اعلیٰ طبقے کے تو انہیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ کالج ترقی کرے۔
اب پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر بچے پڑھیں تو کہاں پڑھیں؟ کیا وہ پرائیویٹ اسکولوں کی موٹی فیس جمع کرنے کے لائق ہیں۔ اگر کسی طرح وہ ایسا کر بھی دیتے ہیں تو پرائیویٹ اسکولوں کے کلچر میں وہ اپنے آپ کو ڈھال پائیں گے۔ حجاب پر پابندی، وندے ماترم، سرسوتی وندنا، جیسس کرائسٹ پرے، یہ سب وہ کس ذہنی کیفیت کے ساتھ کرپائیں گے۔
سرکار نئی ایجوکیشن پالیسی کو اپنے ہاتھ میں لیے کھڑی ہے۔ دسویں کے امتحانات ختم کر دیے گئے ہیں۔ بچے کالج پہنچتے پہنچتے 26سال کے ہوجائیں گے۔ تعلیمی نظام اس طرح بنایا گیا ہے کہ کسی بھی سبجیکٹ کا کوئی ماہر نہیں بن پائے گا۔ گویا ریسرچ کا معیار پست ہو نا طے ہے۔ گویا یہ ساری کارکردگی ہندوستان سے ہائر ایجوکیشن کو ختم کرنے کی ہے۔ نظام تعلیم اور معیار تعلیم پستی کی جانب رواں ہے۔ اب یو جی سی نے جو سرکولر جاری کیا ہے، اس میں صاف کہا گیا ہے کہ اسکول کے بعد انڈر گریجویٹ تعلیم کے لیے ملک گیر پیمانے پرCUET( کامن یونیورسٹی انٹرنس ٹسٹ) کو نافذ کیا جائے گا۔ یعنی ایک کامن ٹسٹ ہوگا، اس میں رینکنگ کے حساب سے بچوں کی یونیورسٹیاں طے کی جائیں گی۔ جس بچے کا رینک جس یونیورسٹی کے معیار کا ہوگا، وہ وہیں ایڈمیشن لے سکے گا۔ یو جی سی کا کہنا ہے کہ اس سے بچوں کو کئی کالجوں یا یونیورسٹیوں میں داخلہ کے لیے بھاگنا نہیں پڑے گا،لیکن کیا اس کے منفی اثرات نہیں پڑیں گے؟ ضرور پڑیں گے اور خاص کر یہ اقلیتوں کے خلاف لیا گیا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے سے ان یونیورسٹیوں میں جہاں اقلیتوں کے لیے ریزرویشن یا ایسے کالج جو افلییٹیڈ ہیں یا پھر ایسی ڈیم یونیورسٹیاں جو اپنا داخلہ جاتی امتحان لیتی ہیں اور کمزور طبقہ کے لوگوں کو ریزرویشن دیتی ہیں اور ایسے کمزور بچے بڑی یونیورسٹیوں میں پہنچ جاتے ہیں، کیا ان کے لیے یہ سب رکاوٹ نہیں ہے۔ ایسے میں ہم اب یہ کہنا چھوڑ دیں کہ تعلیم حاصل کریں، اب یہ سوچیں کہ کیسے کریں؟
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]
تعلیم حاصل کریں، مگر کیسے کریں؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS