سیانے کہتے ہیںکہ دنیا میں سب سے خطرناک نشہ قوت و اقتدار کا ہے۔ یہ اپنی اصل میں تو دوآتشہ ہوتا ہی ہے مطلق ہونے کے بعد سہ آتشہ ہوجاتا ہے۔یہ نشہ جب اپنے عروج پر ہوتا ہے تو اس کے آگے عقل و نظرا ور علم و ہنر سب خس و خاشاک ٹھہرتے ہیں۔یہ اپنے جلو میں حضرت انسان ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی قباچاک کرنے کا سامان بھی لیے چلتا ہے۔ تاریخ کی کتابیں اس کی کارفرمائیوں سے بھری پڑی ہیں لیکن افسوس تو یہ ہے کہ صاحبان اقتدار اس سے سبق لینے کو تیار نہیں ہیں۔آج ہندوستان جنت نشان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اسی نشہ اقتدار کی قہرسامانی ہے۔کہیں چھاپے ہیں تو کہیں گرفتاری ہے، کہیں قانون نافذ کرنے کے نام پر کھلی غنڈہ گردی ہورہی ہے تو کہیں دہلیز پر انصاف فراہم کرنے کیلئے پوری کی پوری عمارت مسمار کردی جارہی ہے۔پورا ملک عدل، انصاف اور مساوات کی قتل گاہ بنا ہوا ہے۔دنیا چیخ رہی ہے لیکن حکومت نشہ اقتدارمیں دھت اپنے ہتھیاروں کو تیز سے تیزتر کرنے میں مصروف ہے۔خبر ہے کہ اب انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے دائرہ کار کو مزید وسعت دے دی گئی ہے۔ قانون نافذ کرنے والا یہ ادارہ اوراس کے افسران صرف اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرکے ہراس شخص کو حراست میں لے سکتے ہیں، پوچھ گچھ کرسکتے ہیںاور گرفتار بھی کرسکتے ہیں جو کسی بھی طرح سے کسی نمایاں خصوصیت کا حامل ہو۔
انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ یا ای ڈی وزارت خزانہ کے ماتحت کام کرنے والی مرکزی حکومت کی وہ طاقتورایجنسی ہے جو ملک میں منی لانڈرنگ کے معاملات کی تحقیقات کرتی ہے۔یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ فی الحال یہ ایجنسی حزب اختلاف کے رہنمائوں کو اپنے سینگوں پر اچھالنے میں مصروف ہے۔شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک حکومت پر تنقید کرنے والی کوئی بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے جس کے رہنما اس ایجنسی کی گرفت میں نہ ہوں۔
حکومت کے تازہ فرمان کے مطابق اس کی تفتیش و تحقیق کے دائرہ کارمیں فوج کے افسران اور عدلیہ کے معزز جج حضرات کو بھی شامل کردیا گیا ہے۔ اور اس کیلئے Politically Exposed Persons- PEPیعنی سیاسی طور پر نمایاں افرادکی نئی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔ اس نئے قانون کے بعد انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی طاقت میں اضافہ ہوگیا ہے اور اب وہ فوجی افسران اور جج حضرات کی مالی دین کی بھی چھان بین کرنے کا مجاز ہے۔
حکومت کے گزٹ نوٹیفکیشن کے مطابق وہ تمام لوگ جو غیرسرکاری تنظیموں(این جی اوز) کیلئے کام کررہے ہوں، سیاسی جماعتوں کے رہنما،اعلیٰ حکام ،جج اور فوجی اہلکار وں(سابق اور موجودہ دونوں) اس نئی اصطلاح میں شامل ہیں۔بینکوں کو یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ وہ پانچ سال تک غیر سرکاری تنظیموں(این جی اوز) کے لین دین کا ریکارڈ رکھیں۔ یادرہے کہ یہ زمرہ منی لانڈرنگ کی روک تھام کیلئے 2002میں بنائے گئے پری وینشن آف منی لانڈرنگ ایکٹ (پی ایم ایل اے )میں شامل نہیں تھا۔اب یہ نئی شق سیاسی طور پر اہم سمجھے جانے والے تمام لیڈروں، اعلیٰ سرکاری عہدیدار حتیٰ کہ ریاستوں کے سربراہ یعنی وزرائے اعلیٰ تک کا احاطہ کرتی ہے۔یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ پی ای پی میں کون ساعہدیداریا لیڈر شامل ہے اس کی مکمل وضاحت کے بجائے اس کی تشریح کا اختیار بھی تفتیشی ایجنسی کو دیاگیا ہے۔اب یہ ای ڈی افسران کی صوابدیدپر ہے کہ وہ جسے چاہیں پی ای پی کے زمرے میں لاکر اسے شامل تفتیش کرلیں۔
اب یہ تو حکومت ہی بتاپائے گی کہ ای ڈی کو نئے قوانین کا ہتھیار سونپ کر کن اجالوں کی بانگ دے رہی ہے۔ لیکن اس کھلی حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ای ڈی کا مشق ستم حزب اختلاف ہی رہے گا۔ حکومت اپنی غضب ناک نگاہیں جس جانب اٹھائے گی ادھر ہی ای ڈی بزن بولے گی اور راتوں رات کسی وزیر ، مشیر ، ایماندار و دیانت دار افسرا ور عادل و منصف جج کو گرفتار کرکے داخل زنداں کردے گی۔
ایک ایسے ملک میںجہاں آئین اپنی مکمل تعبیر و تشریح کے ساتھ انصاف اور حقوق کی فراہمی کیلئے روبہ عمل ہو، وہاں ایوان کی منظوری کے بغیر کسی حکومت کا کسی ایجنسی کو بے لگام طاقت اور بے احتساب اختیار سونپنا آئین، جمہوریت، شہری حقوق، آزادی اور مساوات کے خلاف ہی سمجھاجائے گا اور یہ نشہ اقتدار کی کار فرمائی ہے جو شہریوں کیلئے قہر سامانی بھی بن سکتی ہے۔ لیکن یہ یادر رکھنا چاہیے کہ نشہ کتناہی طاقتور کیوں نہ ہو، اسے کوئی نہ کوئی ترشی اتار ہی دیتی ہے۔
[email protected]
صاحب نظراں! نشہ قوت ہے خطرناک
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS