سراج الدین فلاحی
قومی شماریاتی دفتر یعنی NSO نے مالیاتی سال 2021-22 کے پہلے کوارٹر کی GDP کا ڈیٹا جاری کر دیا ہے۔ NSO نے ملک کی GDP میں 20.1 فیصد کا نہ صرف ایک بڑا اضافہ بتایا ہے بلکہ اسے آزاد ہندوستان کی تاریخ کا ایک ریکارڈ گروتھ بھی کہاہے۔ موجودہ معاشی نظام میں GDP میں اضافہ کامطلب ترقی اور سماجی خوشحالی سمجھا جاتا ہے اس لیے حکومتیں اور بڑی صنعتیں ملک کے عوام کو معیشت کے پیچیدہ ڈیٹا میں الجھا کر ایسی تصویر پیش کرتی ہیں کہ لوگ سمجھنے لگتے ہیں کہ ملک کی جی ڈی پی میں اگر اضافہ ہو رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہم لوگ بھی خوشحال ہو جائیں گے چہ جائیکہ اس شرح نمو سے ان پر کوئی بھی مثبت نتائج برآمد نہیں ہو رہے ہیں۔ کیا GDP میں اضافہ ملکی خوشحالی کو ظاہر کرتا ہے؟ کیا واقعی یہ اتنی بڑی گروتھ ہے کہ اسے آزاد ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا گروتھ کہا جا سکتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس گروتھ کا مطلب کیا ہے؟ آئیے اس پوری کہانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک مالیاتی سال کے دوران پیدا کی گئی اشیا اور خدمات کی کل ویلیو کو جی ڈی پی کہتے ہیں۔ ہندوستان میں چونکہ مالیاتی سال یکم اپریل سے 30 جون تک ہوتا ہے اس لیے GDP کا مذکورہ بالا ڈیٹا بھی اسی پیریڈ تک کا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ پچھلے مالیاتی سال کے پہلے کوارٹر میں ہمارے ملک کی GDP میں ایک بھاری گراوٹ درج کی گئی تھی اور یہ گھٹ کر منفی 24.4 فیصد پر آ گئی تھی۔ اس سال اسی پیریڈ کے لیےLow base effect کے سبب 20.1 فیصد کی بڑھوتری درج کی گئی ہے جس پر سرکار تالیاں بجا رہی ہے۔ اس کا مطلب کیا ہوا اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ فرض کرتے ہیں 2019 کے پہلے کوارٹر میں ہمارے ملک کی جی ڈی پی ایک لاکھ روپے کی تھی یعنی اس سال ملک میں جو اشیا اور خدمات پیدا کی گئیں ان کی کل ویلیو ایک لاکھ روپے تھی۔ 2020 کے پہلے کوارٹر میں GDP چونکہ 24.4 فیصد گر گئی تھی اس لیے یہ 2019 کے بالمقابل گھٹ کر 75.60 ہزار پر آ گئی۔ اب اس مالیاتی سال کے پہلے کوارٹر میں اس میں 20.1 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے تو اس کا فیصد نکالنے پر یہ 90 ہزار کے لگ بھگ ہو جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 2019 میں جو GDP ایک لاکھ روپے کی تھی وہ اس کوارٹر میں 20 فیصد کے اضافے کے باوجود 90 ہزار رہ گئی ہے۔ دیکھنے میں ایسا لگ رہا ہے کہ معیشت 20 فیصد بڑھ گئی لیکن جب آپ اس کا موازنہ 2019 سے کریں گے تو دیکھیں گے کہ یہ 10ہزار گھٹ گئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم جہاں 2019 میں تھے ابھی وہاں تک بھی نہیں پہنچ سکے ہیں۔ چنانچہ 2020 میں جو Base تھا وہ اتنا کم ہو گیا تھا اس لیے ابھی یہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ معیشت ہمیشہ انسان کی زندگی کا ایک اہم جز رہی ہے بلکہ آج کل یہ انسان کی زندگیوں میں سب سے زیادہ اثر انداز ہوئی ہے۔ آج کل جی ڈی پی میں اضافہ کو معاشرتی فلاح و بہبود، خوشحالی اور ترقی کا پیمانہ سمجھا جاتا ہے، چونکہ خوشحالی اور ترقی سے مراد فی کس اشیا اور خدمات کی دستیابی ہے اس لیے جی ڈی پی میں اضافے کو عوام کی خوشحالی سمجھا جاتا ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ اکونومسٹ، سیاست دان اور منصوبہ ساز مختلف طرح کے پیچیدہ معاشی اعداد وشمار کے گورکھ دھندوں میں اپنے عوام کو الجھا کر میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے یہ باور کراتے ہیں کہ دیکھو جی جی ڈی پی میں تو اضافہ ہو رہا ہے اس لیے اب تم لوگ خوشیاں مناؤ کیونکہ یہی تو معاشرے کی خوشحالی اور ترقی ہے۔ بے چارے عوام اس چیخ و پکار میں اس قدر محو ہو جاتے ہیں کہ وہ سمجھ ہی نہیں پاتے ہیں کہ اس میں کتنا اور کیسے اضافہ ہوا؟ اس اضافے کے اصول و ضوابط کیا ہیں؟ اور اس سے فائدہ کس کا ہوا؟ وہ تو بس یہی سمجھتے ہیں جی ڈی پی میں اضافہ کا مطلب اشیا اور خدمات میں اضافہ ہے، اشیا اور خدمات میں اضافہ کا مطلب ملکی ترقی اور خوشحالی ہے۔ چنانچہ GDP میں اضافہ دکھا کر عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے اور ان کو ووٹ بینک کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔
سیاسی نظریہ کے نتیجے میں GDP کو ہمیشہ ایک کسوٹی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور ملک کی کل پیداوار کو اس کی آبادی پر تقسیم کرکے ملک کی معاشی حالت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے اس بات کا پتہ نہیں چل سکتا کہ ملک میں ہر فرد کی بنیادی ضروریات پوری ہو رہی ہیں یا نہیں۔ اس لیے ملکی خوشحالی کی پیمائش کا یہ ایک انتہائی غلط اور گمراہ کن طریقہ ہے۔
سیاسی نظریہ کے نتیجے میں GDP کو ہمیشہ ایک کسوٹی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور ملک کی کل پیداوار کو اس کی آبادی پر تقسیم کر کے ملک کی معاشی حالت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے اس بات کا پتہ نہیں چل سکتا کہ ملک میں ہر فرد کی بنیادی ضروریات پوری ہو رہی ہیں یا نہیں۔ اس لیے ملکی خوشحالی کی پیمائش کا یہ ایک انتہائی غلط اور گمراہ کن طریقہ ہے۔ دھیان رہے کسی بھی ملک کی معاشی فلاح و بہبود اس ملک کے صرف امیروں یا دولت مندوں پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ اس کا انحصار امیروں کے ساتھ ساتھ مڈل کلاس اور بطور خاص غریبوں پر بھی ہوتا ہے۔ جدید معیشت کا اصول ہے کہ GDP اور معاشی خوشحالی میں مثبت تعلق ہے یعنی GDP کے بڑھنے پر معاشی و معاشرتی خوشحالی آتی ہے اور جی ڈی پی کی شرح میں کمی کی وجہ سے معاشی اور معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ GDP میں اضافہ کے باوجود کسی بھی ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ خط افلاس سے نیچے زندگی گزار سکتا ہے اور گزار رہا ہے۔ فرض کرتے ہیں GDP میں زبردست اضافہ ہو رہا ہے لیکن اگر GDP کی تقسیم اس حد تک غیر مساوی ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے جس کے سبب دولت مند مزید امیر اور غریب اور زیادہ مفلس ہوتا جا رہا ہے تو اس سے سماجی خوشحالی تو دور ملک بدامنی کا شکار ہو جاتا ہے۔ آج کل اکثر یہ چیز دیکھنے کو ملتی ہے کہ ملک کی جی ڈی پی بڑھ رہی ہوتی ہے لیکن امیروں اور غریبوں کے درمیان خلیج میں بھی زبردست اضافہ ہو رہا ہوتا ہے کیونکہ دولت اور مادی اشیا کی حصولیابی صرف کارپوریٹ گھرانوں اور امیروں کے لیے آسان ہے جنہوں نے ملک کے سارے وسائل پر قبضہ کر رکھا ہوتا ہے جبکہ غریب عوام جو محنت کش ہوتے ہیں اس لیے تو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہوتی۔
چنانچہ GDP کو ملکی معیشت کی پیمائش کے لیے ایک کسوٹی کے طور پر اختیار اور استعمال کرنا ایک انتہائی غلط اور گمراہ کن طریقہ ہے کیونکہ اس طریقے میں ملک کی کل پیداوار کو پوری آبادی پر تقسیم کر کے ملک کی معیشت کا اندازہ لگایا جاتا ہے بغیر اس بات کا پتہ لگائے کہ ملک کے ہر فرد کی بنیادی ضروریات پوری ہو رہی ہیں یا نہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملک کا ایک فیصد کریمی لیئر ملک کی پیداوار اور مال و دولت پر قبضہ کر کے اسے اپنی دسترس میں کرلیتا ہے اور حکومت کی مشینریوں یا سرکاری گودی میڈیا کے ذریعے اس بات کا زور و شور سے ڈھول پیٹا جاتا ہے کہ ملک ترقی اور خوشحالی کی طرف بڑھ رہا ہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ تصور کیجیے جہاں ملکی آبادی کا ایک بڑا طبقہ غریبی ریکھا سے نیچے زندگی گزار رہا ہو اور رات کو بھوکے پیٹ سوتا ہو اس ملک میں GDP میں اضافہ کا کیا مطلب؟
[email protected]