کچھ دنوں پہلے خردہ اورہول سیل افراط زر کی رپورٹیں آئی تھیں ،جن میں مہنگائی بڑھنے کی بات کہی گئی تھی ۔یقینا مہنگائی بڑھنے سے ہرکوئی پریشان تھا ۔ادھر مالیاتی خسارہ بھی بڑھا ہے ۔ ملک کے اخراجات بڑھ کر کل آمدنی سے زیادہ ہوگئے ہیں ۔ اپریل اور اکتوبر کے درمیان ملک کو 7.51 لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے ، کیونکہ قومی شماریاتی دفتر (این ایس او) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں مالی سال کیلئے ملک کے مالیاتی خسارہ کاہدف 16.13 لاکھ کروڑ روپے رکھا گیا تھا، جس میں سے صرف 46.5 فیصد ہی 9 ماہ میں پورے ہوسکے۔ اس طرح این ایس او کے مطابق اپریل اور اکتوبر کے درمیان ملک کا مالیاتی خسارہ 7.51 لاکھ کروڑ روپے تھا، جو گزشتہ سال اسی مدت میں 8.04 لاکھ کروڑ روپے تھا۔ان سب سے زیادہ یہ رپورٹ لوگوں اورسرکارکیلئے اور بھی تشویش کا باعث ہوسکتی ہے کیو نکہ رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میںملک کی اقتصادی ترقی کی شرح (جی ڈی پی )کم ہو کر 5.4 فیصد پر آ گئی ہے، جو2 سالوں میں اس کی کم ترین سطح ہے، جب کہ پچھلی کم از کم سطح مالی سال 2022-23 کی اکتوبر-دسمبر کی سہ ماہی میں 4.3 فیصد تھی۔ جی ڈی پی کی شرح میں پچھلے سال کے مقابلہ میں کافی گراوٹ آئی ہے ۔
پچھلے سال اسی مدت کے دوران اس کی شرح 8.1فیصد تھی اور اگر اسی سال کی پہلی سہ ماہی اپریل تا جون کی بات کریں، تو اس میں جی ڈی پی کی شرح 6.7 فیصد تھی۔جی ایس ٹی کلیکشن کو چھوڑدیا جائے ، جس میں ہر مہینہ ریکارڈ اضافہ ہورہا ہے ، توہرسیکٹر میں جھٹکے پہ جھٹکے لگ رہے ہیں اوریہ کسی پہلو سے سکون واطمینان والی بات نہیں ہے ۔کیو نکہ اس کا اثر یہ پڑے گا کہ عام آدمی پر اگر مہنگائی کی مارپڑے گی اوباورچی خانہ کا بجٹ بگڑے گا، تو ملک کے خوشحال طبقہ پر ٹیکس کی مار ، نقصان کی تلافی اوراپنی آمدنی بڑھانے کیلئے سرکار زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی وصولی کیلئے مزید اقدامات کرسکتی ہے ۔یہ وصولی انکم ٹیکس اوربالواسطہ ٹیکس یعنی جی ایس ٹی بڑھاکر کی جاسکتی ہے ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستان گزشتہ کئی برسوں سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت رہا ہے اوراس معاملہ میں اس نے کئی ملکوں کو پیچھے چھوڑدیا ہے ،ملک کی معاشی ترقی کی تعریف متعدد عالمی ایجنسیاں اورادارے کررہے تھے، لیکن مسلسل مہنگائی بڑھنے سے لوگوں کی قوت خرید کم ہورہی ہے اوراس کی وجہ سے اشیاکی کھپت یا مانگ کم ہورہی ہے ۔ دوسری طرف فصلوں پرخراب موسم کی مار پڑرہی ہے ، جس کی وجہ سے سبزیاں اور خوردنی اشیا کی قیمتیں بڑھتی جارہی ہیں ۔مینوفیکچرنگ سیکٹر کی رپورٹ بھی دوسری سہ ماہی میں اچھی نہیں ہے ۔پہلی سہ ماہی میں تیزی سے ترقی کرنے والے مینوفیکچرنگ سیکٹر دوسری سہ ماہی میںصرف 2.2 فیصد کی شرح نمو حاصل کرسکا۔کانکنی کے شعبہ کی کارکردگی تو نہایت ہی خراب رہی ، جہاں شرح نمو صفر سے بھی نیچے منفی 0.1فیصد ہوگئی ۔خراب حالات کیلئے ایکسپورٹ میں کمی اورامپورٹ میں اضافہ بھی بہت حد تک ذمہ دار ہے ۔ماہرین اقتصادیا ت پہلے سے کہہ رہے تھے کہ کھپت میں کمی اورخراب موسم کا اثر جی ڈی پی پڑے گا اوروہ نظر بھی آرہاہے ۔کل ملاکر دیکھاجائے ، تو ہرسیکٹر میں مایوسی نظر آرہی ہے ، جو ملک کیلئے صحیح نہیں ہے ۔ان سب کی تاویل کرنے کے بجائے اصلاح اوربہتری کیلئے سنجیدگی سے اقدامات کرنے کی سخت ضرورت ہے، ورنہ اگلی سہ ماہی میں حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں ۔سرکار کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتاہے اور لوگوں کی پریشانی بھی بڑھ سکتی ہے ۔مہنگائی میں اضافہ اورجی ڈی پی میں گراوٹ سبھی کیلئے تشویش کی بات ہے ، کیونکہ ان کے منفی اثرات بہت دور تک پڑتے ہیں ۔ کورونا کی وجہ سے ملک کے حالات ضرور خراب ہوئے تھے ، لیکن اس کے بعد معیشت نے جو رفتارپکڑی تھی ، ہر کوئی سمجھ رہاتھا کہ ملک بہتری کی طرف جارہاہے ، لیکن اچانک حالات کیوں خراب ہوئے ، یہ سبھی کیلئے تشویش کی بات ہے ۔
مہنگائی ، جی ڈی پی اور مالیاتی خسارہ کسی بھی ملک کیلئے کافی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، معیشت بہت حد تک ان پر منحصر رہتی ہے ۔ اگر ان کی رپورٹیں منفی آتی ہیں ، تو پھر پریشانی بڑھے گی اورحالات خراب ہوں گے ۔ اس لئے ان پر سنجیدگی سے غوروفکر کرنے اورموثر پالیسی بنانے کی ضرورت ہے ۔