فلسطینیوں کے صبر کا امتحان ختم نہیں ہو پا رہا ہے۔ 7 اکتوبر، 2023 کے حملوں کے بعد حماس کو سبق سکھانے کے نام پر غزہ کے اسکول اور اسپتال بھی مسمار کر دیے گئے۔ مسجدوں اور ایمبولینسوں پر بھی بمباری کی گئی۔ غزہ کے ان عام لوگوں اور صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا جن کا 7 اکتوبر کے حملوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں جیتنے کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ امید بندھائی تھی کہ وہ غزہ میں امن قائم کریں گے لیکن ان کے ’غزہ پلان‘ اور فلسطینیوں کوغزہ بدر کرکے مصر اور اردن بھیجنے کے منصوبے سے غزہ میں قیام امن کی امید معدوم ہونے لگی ہے بلکہ اندیشہ اس بات کا ہے کہ کہیں کوئی چنگاری مشرق وسطیٰ کو تباہ کرنے کی وجہ نہ بن جائے۔ اس اندیشے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ اسرائیل کے لیے مسلسل فراخ دلی کا اظہار کر رہے ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کی طرف سے مشتعل کرنے والی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ رمضان المبارک میں جنگ بندی کی کوشش کی جاتی ہے۔ روزہ رکھنے والوں کو راحت دینے کی کوشش کی جاتی ہے اور ایسی کوشش بلا تفریق مذہب و ملت کی جاتی ہے مگر اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے یہ فرمان جاری کیا ہے کہ ’اسرائیل غزہ میں ہر قسم کی اشیائے ضروریہ کا داخلہ معطل کر رہا ہے۔‘دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فرمان کے ساتھ حماس سے غزہ میں عبوری جنگ بندی میں توسیع پر آمادگی ظاہر کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ بیان کے مطابق، ’اسرائیل اپنے یرغمالی شہریوں کی رہائی کے بغیر سیزفائر قبول نہیں کرے گا اور اگر حماس نے اپنا انکاری رویہ برقرار رکھا تو اس کے دیگر نتائج بھی برآمد ہوں گے۔‘یہ بات ناقابل فہم نہیں کہ کن نتائج کی بات کی جا رہی ہے۔ متوقع حالات کو سمجھتے ہوئے ہی اسرائیل کے فیصلے کی تعریف خطے کے ان ممالک نے بھی نہیں کی ہے جو اب تک براہ راست یا بالواسطہ طور پر اس کی مدد کرتے رہے ہیں۔
ضروری اشیاء کا داخلہ معطل کرنے کے اسرائیلی فیصلے کی مذمت مصر، سعودی عرب، اردن اور قطر نے کی ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ مصر کا کہنا ہے کہ اسرائیل جنگ بندی معاہدے کی ’صریح خلاف ورزی‘ کر رہا ہے۔ مصری وزارت خارجہ کی طرف سے اسرائیل کے ’بھوک کو فلسطینیوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے‘ کی بات کہی گئی ہے۔سعودی عرب نے اسرائیلی فیصلے کو ’بلیک میل‘ اور’اجتماعی سزا‘ بتاتے ہوئے اسرائیل کی ’ان سنگین خلاف ورزیوں کو روکنے‘ کے لیے عالمی برادری پر زور دیا ہے۔ قطر نے اسرائیلی فیصلے کو ’جنگ بندی معاہدے کی واضح خلاف ورزی‘ قرار دیا ہے۔ اس نے اسے ’بین الاقوامی قوانین‘ کی بھی خلاف ورزی مانا ہے۔ اسرائیل کے لیے تشویش کی بات یہ ہوگی کہ مصر اور قطر نے بھی اس کی مذمت کی ہے جبکہ ان دونوں ملکوں کی کوششوں سے حماس اور اسرائیل کے مابین فائر بندی ممکن ہو سکی تھی لیکن اب دونوں ملکوں کو بھی یہ لگ رہا ہے کہ ضروری اشیا کا غزہ میں داخلہ معطل کرنے کا اسرائیلی فیصلہ صحیح نہیں ہے۔ غالباً یہ اندازہ بھی انہیں ہے کہ اس فیصلے کے نتائج کیا ہوںگے۔ اسی لیے اسرائیلی فیصلے کی مذمت کرتے وقت ان دونوں ملکوں اور دیگر عرب ملکوں نے اس بات کی پروا نہیں کی ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ اسرائیل پر کافی مہربان ہیں اور ان کی مہربانی عالمی برادری کی بھی سمجھ میں آنے لگی ہے۔ امریکہ کے وزیرخارجہ مارکو روبیو نے اسرائیل کو تقریباً 4 ارب ڈالر کی فوجی امداد کے معاہدے پر دستخط کرنے کی اطلاع دی ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ ’سابق صدر جو بائیڈن کی طرف سے اسرائیل پر عائد ہتھیاروں کی جزوی پابندی ختم کر دی گئی ہے۔‘ روبیو کے مطابق، ’امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اسرائیل کو تقریباً 12 ارب ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دی ہے۔‘سوال یہ ہے کہ امریکہ، اسرائیل کو فوجی مدد دے کر اور ہتھیاروں کی فروخت کو منظوری دے کر کیا مشرق وسطیٰ میں اسی طرح کا امن قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہے جیسا امن اس نے ارض فلسطین پر قائم رکھنے کی اب تک کوشش کی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا امریکہ کو اپنی اسرائیل پالیسی میں یوروپی ممالک کا اسی طرح ساتھ ملے گا جیسا ساتھ اسے اب تک ملتا رہا ہے؟ یہ بات طے سی ہے کہ آنے والے دن مشرق وسطیٰ کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ ان میں اس کے حالات کی دِشا اور دَشا طے ہوگی۔