عبدالغفارصدیقی
غزہ کی موجودہ جنگ کودس ماہ مکمل ہوچکے ہیں۔مگر اپنے نتیجے سے اتنی ہی دور ہے جتنی 7 اکتوبر2023کو تھی ۔اس دوران جنگ میں بہت سے نشیب و فراز آئے ۔دوبار جنگ بندی بھی ہوئی ،کئی بارجنگ بندی کی امیدیں بھی بندھیں، لیکن جنگ نہ صرف ہنوز جاری ہے بلکہ اس میں مزید تیزی آگئی ہے ۔ اسرائیل جنگ کو نہ صرف طول دے رہا ہے بلکہ اس کو مزید ممالک تک پھیلا بھی رہا ہے ۔تہران اور بیروت پر اس کے حملے یہی اشارہ کررہے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد پورا عالم اسلام سکتہ میں ہے ۔ان کے لیے یہ لمحہ دس ماہ کے دوران انتہائی تکلیف دہ ہے ۔عظیم مجاہد کی شہادت پر ہر آنکھ پرنم ہے ۔ہر دل مضطرب ہے ،ہر لب پر بارگاہ الٰہی میں التجائیں ہیں ۔’’ پروردگار اہل غزہ کی شہادتوں کو قبول فرما،ان کی تکلیفیں دور فرما ،قبلہ اول کو حقیقی آزادی نصیب فرما۔‘‘مگر ابھی قدرت کو شاید کچھ اور امتحانات و آزمائش لینا مقصود ہیں ۔یہ اللہ کی سنت ہے ۔ارشاد باری ہے۔’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے ‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟حالاں کہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچّے کون ہیں اور جھوٹے کون‘‘(سورہ عنکبوت آیت ۲۔۳)
یہ امتحان صرف اہل غزہ یا اہل فلسطین کا ہی نہیںہے بلکہ ہر اس شخص کا ہے جو اللہ اور حضرت محمد ﷺ پر ایمان کا مدعی ہے ۔ جس کے نزدیک اسلام دین برحق ہے اور جس کا یقین ہے کہ اظہار دین ایک فریضہ ہے ۔اس امتحان میں صرف کسی ایک مسلک کے مسلمان شریک نہیں ہیں بلکہ ہر مکتبہ فکر کے مسلمان اس میں خواہی نہ خواہی شریک ہیں۔جو لوگ میدان جنگ میں ہیں اور اسی سرزمین سے متعلق ہیں جس کی آزادی کے نام پر جنگ کی جارہی ہے ان کا ہر طرح امتحان ہورہا ہے ۔ان کی جان اور ان کے مال بھی دائوں پر ہیں اور ان کی عزت و آبرو بھی دائو پر ہیں۔ان کا امتحان یہ بھی ہے کہ کیا وہ برضاو رغبت اور جذبہ شہادت سے مخمور ہوکر اس میں شریک ہیں ،یا مال غنیمت اور کشور کشائی ان کے پیش نظر ہے ۔ان میں سے کتنے ہیں جن کے دل میں آرزوئے شہادت کے گل مسکرارہے ہیں ،وہ کون جاں فروش ہیں جن کو ہر اسرائیلی بم دھماکہ کے عقب میں جنت دکھائی دے رہی ہے ؟ اورکتنے ایسے ہیں جو اپنی جان و مال کی تحفظ و بقا کی خاطر مجاہدین کی جاسوسی کررہے ہیں ؟وہ کون لوگ ہیں جن کی زبان پر یہ گلہ ہے کہ ’’ مزاحمتی تحریکات نے خواہ مخواہ ہمیں ہلاکت میں ڈال دیا ہے ۔‘‘
ایک طرف مسلم حکمران عرصہ امتحان میں ہیں ۔انھیں اللہ نے اسباب آسائش اور آلات جنگ فراہم کیے ہیں ۔وہ چاہیں تو اپنے مظلوم بھائیوں کی حمایت میں آکر نہ صرف جنگ بند کراسکتے ہیں بلکہ اسلام اور شعائر اسلام کو آزاد کراسکتے ہیں ۔ان اسباب کی موجودگی کے باوجوداگر ان کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں ،اگر ان کی جانب سے ظالموں کو کوئی خوف نہیں تو انھیں اللہ کے فیصلہ کا انتظار کرنا چاہئے ۔مسلم ممالک کی عوام کا بھی امتحان ہے کہ آخر وہ اپنے ظالم حکمرانوں کوخواب غفلت سے کب بیدار کریںگے ؟وہ وقت کب آئے گا جب عوام اپنی حمیت کا اظہار کرے گی ؟اگر غزہ کے دولاکھ مسلمان اپنی جانوں کا نذرانہ دے سکتے ہیں ،اگر مجاہدین اپنے خاندان کو شہید کرواسکتے ہیں ،تو مسلم ممالک کے عوام اپنی خواب گاہوں سے کیوں نہیں نکل سکتے ؟امتحان ان کا بھی ہے جو ایسے جمہوری ممالک میں رہ رہے ہیں جہاں سیکولر حکومت ہے ۔چاہے وہ مغربی ممالک ہوں یا ایشیائی ممالک ۔ اس ضمن میں مغربی ممالک کی عوام نے بیدار مغزی کا ثبوت دیا ہے ۔وہاں نہ صرف مسلمان بلکہ انصاف پسند غیر مسلموں نے عوامی احتجاج میں حصہ لیا ہے ۔
یاد رکھیے اللہ ہمارا ممتحن ہے اس کی نظرامتحان حال میں بیٹھے ہر فرد پر ہے۔ وہ دلوں کے وساوس سے باخبر ہے ۔اس لیے ہم میں سے ہر شخص کو اس امتحان میں کامیابی کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے ۔ہر دل میں شہادت کی تمنا انگڑائی لینی چاہئے ،ہر شخص کی دعائوں میں موجودہ جنگ میں مجاہدین کی کامیابی کے لیے گریہ و زاری ہونی چاہئے ،جب ہم دسترخوان پر ہوں تو غزہ کے مظلومین جنھیں دس ماہ سے پیٹ بھر کھانا نصیب نہیں یاد آنے چاہیے ۔
اسرائیل کے ساتھ اہل ایمان کی یہ جنگ صرف فلسطین کی آزادی یا بیت المقدس کی بازیابی کے لیے نہیں ہے ،اگر صرف یہی مقصد جنگ ہوتا تو مغرب کو فلسطین کی شکل میں ایک اور مسلم ملک کیوں ناگوار ہوتا ۔دراصل یہ جنگ اسلام اور صلیبی مذاہب کے غلبہ و تسلط اور فریقین کے مستقبل کے بقا کی جنگ ہے ۔یہ جنگ صرف اہل غزہ کی نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی زندگی اور موت کی جنگ ہے ۔اس جنگ کے نتائج آنے والے سو سال کا منظر نامہ طے کریں گے ۔ورنہ کیا وجہ ہے کہ انسانی حقوق کی بات کرنے والے مغربی حکمران غزہ کی نسل کشی پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ اس میں شریک ہیں ۔ان کے اسرائیل سے ایسے کون سے مالی مفادات وابستہ ہیں جو وہ اس کو بچانے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں ۔اسرائیل کی حمایت کرنے والے بیشتر ممالک کا مذہب عیسائیت ہے اور عیسائیت و یہودیت میں بھی بعد المشرقین ہے ،ماضی میں ان کی آپس میں جنگیں بھی ہوچکی ہیں ۔اس کے باوجود وہ کیوں اسرائیل کا تحفظ کررہے ہیں ؟مغربی ممالک کے مفادات تومسلم ممالک سے وابستہ ہیں ۔ان کو عربوں سے سستا تیل فراہم ہوتا ہے ،وہ عربوں کی دولت کا استعمال کرتے ہیں ،ان کی حفاظت کے نام پر ان کو فوج اور ہتھیار فروخت کرتے ہیں ۔اس کے باوجود وہ عربوں کو منہ لگانے کے بجائے مختصر سے اسرائیل کے پشت پناہ کیوں ہیں ؟غزہ جنگ میں جو ممالک کسی نہ کسی طرح اہل اسلام کے پشت پناہ ہیں ان میں ایران ،لبنان اور یمن سر فہرست ہیں۔ قطر اور ترکی کو بھی حامی ممالک کی فہرست میں جگہ دی جاسکتی ہے ۔یوروپ کی پوری کوشش ہے کہ وہ ایران کے بارے میں سنی مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرے ۔ لیکن ایران نے جس طرح اپنے ملک کی سالمیت و بقا کو دائوں پر لگایا ہے اس سے یہ بات ظاہر ہے کہ وہ اس جنگ میں اہل غزہ کے ساتھ ہیں ۔ہوسکتا ہے اس کے اپنے بھی کچھ ذاتی مفادات ہوں ۔لیکن اگر کوئی ملک اپنے ذاتی مفادات کی خاطر بھی اہل غزہ کی حمایت کررہا ہے اور اس کی بنا پر خود کومغربی ممالک کے نشانے پر رکھ رہا ہے تو اس کی قدر کی جانی چاہیے ،جس طرح چین اور روس مشرق وسطیٰ سے امریکی تسلط کو ختم کرنے اور اپنی نوآبادیات قائم کرنے کے لیے ایران کے دروازے سے امدادو معاونت کررہے ہیں ۔
اس امتحان میں ہماری کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ہم جنگ کو کسی مسلک کی عینک سے نہ دیکھیں ،بلکہ اہل فلسطین کی قربانیوں کی قدر کریں ۔ہمیں نہیں معلوم کہ یہ جنگ کب ختم ہوگی اور اس کا کیا انجام ہوگا۔مگر ہم میں سے ہر شخص کی یہ تمنا ضرور رہنی چاہیے کہ اس جنگ میں حق وانصاف کا بول بالا ہواور اس امر کے امکانات تلاش کرنے چاہیے کہ ہم کس طرح اہل غزہ کی مدد کریں۔ہندوستان ان ممالک میں ہے جو مسئلہ فلسطین کے دوریاستی حل کے قائل ہیں ،موجودہ جنگ میں ایک سے زائد بار بھارتی حکومت نے اہل غزہ کے لیے ووٹ کیا ہے اور جنگ بندی کے لیے خود کو پیش کیا ہے ۔ہمیں اپنی حکومت کا شکر گزار ہونا چائیے اور ملکی قوانین کے تحت اہل فلسطین کے حق آزادی کے لیے آواز اٹھانی چاہیے ۔
[email protected]