غزہ جنگ: ’امریکی انسانیت‘کی بدترین مثال

0

جنگ ایک مسئلہ ہے اور ایک مسئلے سے دوسرا مسئلہ ختم نہیں کیا جاتا ہے، مسئلے کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات کی میز پر ہی آنا پڑتا ہے۔ اسرائیل نے ایک سے زیادہ جنگ کی، فلسطینیوں نے بڑی جدوجہد کی لیکن مسئلۂ فلسطین کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا تو انہیں مذاکرات کی میز پر آنا پڑا تھا۔ فلسطینیوں کی طرف سے پی ایل اوکے لیڈر یاسر عرفات نے اور اسرائیلیوں کی طرف سے اسرائیل کے وزیر اعظم اسحاق رابن نے اوسلو معاہدہ کر کے مذاکرات کی اہمیت کا احساس دلایا تھا۔ مسئلۂ فلسطین کی تاریخ میں یہ پہلا اور آخری موقع تھا جب یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ مسئلۂ فلسطین کا دوریاستی حل نکل جائے گا۔ نہ اسرائیلیوں کو خوف میں جینا پڑے گا اور نہ ہی فلسطینیوں کو اپنے لیے ایک آزاد اور خود مختار ملک کے لیے ترسنا پڑے گا۔ دونوں اچھے پڑوسی کی طرح بقائے باہم کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے خوشحال بن سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے، اگر ایسا ہو جاتا، پھر گریٹر اسرائیل کے خواب کا کیا ہوتا؟ امریکہ جیسے ممالک جو مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے وجود کو اپنے دائرۂ اثر سے الگ کر کے نہیں دیکھتے ہیں، ان کی مشرق وسطیٰ پالیسی کا کیا ہوتا؟ امریکہ کو مسئلۂ فلسطین کو اگر واقعی حل کرنا ہوتا تو کیا یہ اس کے لیے کوئی زیادہ بڑی بات تھی؟ امریکہ کی طاقت کے سامنے اسرائیل کی طاقت کیا ہے؟ امریکہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی اگر واقعی غیر جانب دارانہ ہوتی، اسرائیل اس کے لیے اگر اسی حد تک اہم ہوتا جیسے ایک اتحادی ملک دوسرے اتحادی ملک کے لیے اہم ہوتا ہے تو امریکہ اس طرح اس کے ساتھ کھڑا نہیں رہتا؟ غزہ میں سارے مذموم حملوں کے باوجود وہ اسرائیل کی حمایت کرتا ہوا نظر نہیں آتا، اپنی ساکھ کی بھی کچھ پروا کرتا لیکن امریکہ سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک اسی کی حد تک محدود نہیں ہیں، روس، چین اور دیگر ملکوں کی طرف بھی متوجہ ہونے لگے ہیں، اس لیے غزہ کی تباہی کے بہانے روس،چین اور دیگر ملکوں کی طاقت کا بھرم توڑنے کی اس کی کوشش ناقابل فہم نہیں ہے۔ غزہ جنگ کی وجہ سے بیشتر عرب حکمرانوں کی ساکھ ان کے عوام کی نظر میں کمزور ہو رہی ہے، عوام کی سمجھ میں یہ بات آنے لگی ہے کہ ان کے حکمراں بیانات دینے کی حد تک بھی جرأت کا مظاہرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اس سے اقتدار پر ان کی گرفت ویسی نہیں رہ جائے گی جیسی تھی۔ اس سے امریکہ کی پوزیشن اس خطے میں زیادہ مضبوط ہوگی۔
ٹرمپ نے سعودی شاہ کے لیے جیسے یہ بات کہی تھی کہ امریکہ کی مدد کے بغیر وہ دو ہفتے بھی اقتدار میں نہیں رہ سکتے، امریکہ کا کوئی صدر مشرق وسطیٰ کے دیگر ملکوں کے حکمرانوں کے لیے ایسی ہی بات اگر کہہ دے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔امریکہ ایک طرف انسانیت کی باتیں کر رہا ہے، دوسری طرف غزہ جنگ ختم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ وہی ہے۔ ایک طرف امریکہ جنگ ختم نہیں کرنے دے رہا ہے تو دوسری طرف اس کے وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کہتے ہیں، ’امریکہ جنگ کے خاتمے کا وقت طے نہیں کر سکتا۔ یہ درست ہے کہ ہم اسرائیل سے مسلسل بات کر رہے ہیں۔ حتمی فیصلہ اسرائیل ہی کرے گا۔‘ سوال یہ ہے کہ جب امریکہ جنگ ختم نہیں ہونے دے رہا، پھر اسرائیل سے وہ کیا باتیں کر رہا ہے اور اس کی باتوں پر عالمی برادری کو کس حد تک یقین کرنا چاہیے؟ امریکی لیڈروں کے بیانات سے یہی لگتا ہے کہ غزہ جنگ کے حوالے سے امریکہ کی جو اصل پالیسی ہے، اس کا اظہار وہ نہیں کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے لیڈروں کے بیانات بالکل واضح نہیں ہیں۔ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے، ’میرے خیال میں اسرائیل کے ارادے غلط نہیں ہیں۔ وہ غزہ میں شہریوں کو کم سے کم نقصان پہنچانے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔ حالانکہ نتائج ہمیشہ ہماری توقعات کے مطابق نہیں آتے۔‘کتنی دلچسپ بات ہے کہ اسرائیلی فضائیہ کی اسکولوں، اسپتالوں، ایمبولینسو، مہاجر کیمپوں پر بمباری کے باوجود انٹونی بلنکن کو اسرائیل کے ارادے غلط نظر نہیں آ رہے ہیں۔ غزہ جنگ کے بعد ’امریکی انسانیت‘ جیسی کوئی اصطلاح رائج کر دی جائے تو کسے حیرت ہوگی؟ یہ وہی امریکہ ہے جس کے لیے غزہ میں حماس کے خاتمے تک جنگ ضروری ہے چاہے کتنے بھی بے قصور لوگ مار ڈالے جائیں لیکن یوکرین میں انسانیت اسے خطرے میں نظر آتی ہے اور جنگ انسانیت کے خلاف نظر آتی ہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS