ایم اے کنول جعفری
حماس اور اسرائیل کے درمیان 15 جنوری 2025کو جنگ بندی معاہدے کا اعلان ہوا اور 19جنوری سے یرغمالیوں کی رہائی شروع ہوئی۔اس عمل سے فلسطین اور اسرائیل میں جشن کا ماحول ہے۔غزہ پٹی کی تباہی کے بعداسرائیل اور اس کے حمایتی جنگ بندی کو اسرائیل کی کامیابی اور فلسطین،لبنان اور ایران اسے اسرائیل پر حماس کی فتح کے طور پر دیکھ ر ہے ہیں۔ اسرائیل کے کئی رہنما حماس کے خاتمے کا ہدف حاصل کیے بغیرجنگ بندی کو اسرائیل کی شکست تسلیم کر رہے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیلی ایئر ڈیفنس سسٹم ’آئرن ڈوم‘کا زبردست خوف اور رتبہ رکھنے والے اسرائیل پر حملہ کرکے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔ اس میں تقریباً 1200 افراد قتل اور 250 لوگ یرغمال بنائے گئے تھے۔ جوابی کارروائی میں صہیونی افواج نے غزہ پرظلم و ستم اور جبروتشدد کے ایسے پہاڑ توڑے،جس کی مثال نہیں ملتی۔ اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے تنظیم کو مکمل طور پر ختم کرنے تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ حماس کو ختم کرنے کی آڑ میں غزہ پٹی پر بم اور راکٹوں سے زبردست ہوائی اور ٹینکوں سے زمینی حملے کرکے رہائش گاہوں، اسپتالوں، اسکولوں، مدارس اور عبادت گاہوں کو نشانہ بناتے ہوئے زیادہ عمارتوں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیاگیا۔اقوام متحدہ کے مطابق تباہ شدہ عمارتوں میں غزہ میں90 فیصد سے زیادہ رہائش گاہیں ہیں۔ان میں 1,60,000 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوگئے، جب کہ 2,76,000 عمارتوںکو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔ مقامی صحت کے حکام کے مطابق جنگ میں 47,000 ہزار سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہو ئے۔ان میں آدھے سے زیادہ تعداد خواتین و اطفال کی ہے۔ حالاں کہ اسرائیل نے جنگ میں 17,000 سے زیادہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا،لیکن کوئی ثبوت مہیا نہیں کرایا۔ غزہ کی 22لاکھ آبادی میں زیادہ تر رفح،خان یونس، دیرالبلاح اور غزہ شہر میں مقیم تھے۔غزہ میں7,75,000لوگ رہائش پذیر تھے۔
اَب تقریباً پوری آبادی بے گھر ہے۔ اقوام متحدہ کے تجارتی اورترقیاتی ادارے’یو این سی ٹی اے ڈی‘ کے مطابق جنگ میں تقریباً18.5اَرب ڈالر کے نقصانات ہوئے، جو 2022میں غزہ کی مجموعی قومی پیداوار(جی ڈی پی) سے تقریباً7گنا زیادہ ہے۔ادارے نے اکتوبر میں ہی وضاحت کر دی تھی کہ غزہ کی معیشت کو2022کی سطح پر لانے کے لیے 350 برس کا عرصہ درکار ہے۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ غزہ میں36 میں سے 18اسپتال باقی ہیں،جو جزوی طور پر کام کر رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) نے انتباہ دیا ہے کہ غزہ میںپانی اور صفائی کے انتظامات ناقص ہوچکے ہیں۔ پناہ گاہوں کے آس پاس کچرے، تباہ شدہ سولر پینلز اور گولہ بارود کے کیمیکلز مٹی اور پانی کی فراہمی کو آلودہ کر رہے ہیں۔جنگی تباہی سے50ملین ٹن سے زیادہ ملبہ جمع ہے۔ ملبے میں10ہزار فلسطینیوں کی لاشیں دبی ہونے کے امکان ہیں۔جنگ بندی کے بعد 200سے زیادہ لاشیں برآمد ہوچکی ہیں۔فلسطینی حکام کے مطابق اسرائیلی فوج نے متعدد مشینوں کو تباہ اور 100سے زیادہ ملازمین کو شہید کردیا۔ بھاری مشینری نہیں ہونے سے لاشیں نکالنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔یو این ای پی کا ماننا ہے کہ ملبے کے ڈھیر اور دھماکہ خیز مواد صاف کرنے میں21برس لگ سکتے ہیں۔ اس پر1.2اَرب ڈالر لاگت آئے گی۔
حماس نے19جنوری کو3اسرائیلی خواتین دورون اسٹین بریچر، ایملی دیماری اوررمی گونین کو تحائف دے کر رہا کیا تو اسرائیل نے90فلسطینیوں کو چھوڑا۔ اس کے بعد حماس نے4اسرائیلی فوجی خواتین کرینہ ایریو، ڈینی ئلا گلبووا،نامالیوی اور لیری الباغ کو رہا کرکے سماجی تنظیم ’ ریڈ کراس‘ کو سونپا۔جنہیں ’اسرائیل ڈیفنس فورس‘ کے حوالے کیا گیا۔ یہ یرغمالی7اکتوبر کو ناہل اوز ایئرپورٹ سے اغوا کی گئی فوجی خواتین میں شامل تھیں۔ اسرائیل نے 200 فلسطینیوں کو آزاد کیا۔رہا اسرائیلی خواتین کے چہرے کھلے تھے۔خواتین کو رہائی کے دوران لوگوں کی بھیڑ کے سامنے پریڈ کراتے ہوئے جس انداز میںغزہ شہر کے اسٹیج تک لاکر ’ریڈ کراس‘ کے حوالے کیاگیا،اس سے لگتا ہے کہ غزہ کے ملبے میں تبدیل ہونے کے باوجود حماس کے حوصلے پست نہیں ہیں۔وہ ابھی بھی دشمن کو ٹکر دینے کے لیے تیار ہے۔ حالاں کہ انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر اتماربن گوئیر کی سربراہی والی ’اونزما یہودیت پارٹی‘ جنگ بندی کے حق میں نہیں۔ اسی بنا پر گوئیرا ور دیگر رکن وزرا نے وزیراعظم نیتن یاہو حکومت سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ معاہدہ 3مراحل پر مشتمل ہے۔ پہلے مرحلے کے تحت42 یا 60 روزہ جنگ بندی ہے۔ اس میں اسرائیل کے 33 یرغمالیوں کی غزہ سے واپسی ہوگی اور فلسطین کے1900 قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔عالمی خبر رساں ادارے رائٹرکا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں جن یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا،اُن میں بچے،خواتین،فوجی خواتین،50برس سے زیادہ عمر کے مرد،زخمی اور بیمار افراد شامل ہیں۔جنگ بندی کے16ویں روز اسرائیل اور حماس امن منصوبے کے دوسرے اور تیسرے مرحلے کے لیے بات چیت شروع کریں گے۔ حالاں کہ ابھی دوسرے اور تیسرے مرحلے کے لیے کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے،لیکن اُمید کی جا رہی ہے کہ دوسرے مرحلے میں زندہ مرد فوجیوں اور شہریوں کے علاوہ یرغمالیوں کی لاشیں بھی اسرائیل کے حوالے کی جائیں گی۔ جنگ بندی کے تیسرے مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو کے متعلق گفتگو کی جائے گی۔اس میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے باقی تمام زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی شامل ہے۔ اس کے بعد آئندہ ہفتوں میں مزید یرغمالیوں کی رہائی کا عمل روک دیا جائے گا۔معاہدے کے مطابق اسرائیلی فورسز کو غزہ میں بفر زون میں آنا ہوگا اور بے گھر ہونے والے فلسطینی اپنے گھروں کو واپس جا سکیں گے۔ ابتدائی جنگ بندی معاہدے کے تحت تباہ شدہ علاقے میں امدادی سرگرمیاں بھی بڑھائی جائیں گی۔جنگ بندی سے متعلق دوسرے مرحلے میں مذاکرات کا آغاز دو ہفتوں میں کیا جائے گا۔ابھی اس سوال کا جواب آنا باقی ہے کہ 6ہفتوں کے بعدجنگ ایک مرتبہ پھر شروع ہوگی یا نہیں؟اور باقی کم و بیش 100یرغمالیوں کی غزہ سے رہائی کس طرح ممکن ہو سکے گی۔
حماس یا تحریک مزاحمت اسلامیہ فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم ہے۔اسے یاسرعرفات کی تنظیم ’ پی ایل او‘ کی مخالفت میں1987میں شیخ احمد یاسین نے تشکیل دیا تھا۔ حماس1993کے اوسلو امن معاہدے کی مخالف اور اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرنے والی تنظیم ہے۔فلسطینی علاقوں میں اسے انتہا پسندی کی علامت ماناجاتا ہے۔اس کا مقصد مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے اسرائیل کا مکمل انخلاء اور فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔2006میں فلسطینی پارلیمانی انتخابات میں اپنی جیت کے بعد حماس کا غزہ پر قبضہ ہوا۔ اسے قطر اور ایران کا تعاون حاصل ہے۔ایرانی راکٹس سوڈان اور مصر کے ذریعہ اسمگل ہوکر غزہ پہنچتے تھے۔ 2019میں سوڈان سے عمر البشیرکے اقتدار کے بعد یہ کام مشکل ہو گیا۔ بیرونی تعاون کے ساتھ حماس اپنے زیادہ تر میزائل غزہ پٹی میں بنارہا ہے۔ حماس کے فوجی کمانڈر محمد دیف کا کہنا تھا کہ یہ حملہ مغربی کنارے،یروشلم میں فلسطینیوں اور اسرائیلی جیلوں میں بند فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے بڑھتے مظالم کی بنا پر کیا گیا۔لیکن،کیا آدھی ادھوری اور اپنے یہاں بنائے ہتھیاروں کی طاقت پر حماس اپنا ہدف حاصل کر سکتاہے؟ کیا صرف جوش وجنون کی بدولت امریکہ، برطانیہ، فرانس اور آسٹریلیا جیسے ممالک کی حمایت اور نئی تکنیک پر مشتمل ایٹمی ہتھیار والے اسرائیل جیسے طاقتور ملک سے لڑائی جیتی جا سکتی ہے؟ حماس کے حملے سے آخر فلسطین اور فلسطینی عوام کو کیا ملا؟ 47,283 لاشیں، 1,11,472 زخمی، بھوک اور پیاس سے تڑپتے بچے،موسم کی مارجھیلتے بے گھر لوگ،کھلا آسمان، زمیں بوس عمارتیں اور ملبے کے ڈھیر!!!
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]