غزہ جنگ : کچھ نیا ہونے والا ہے؟

0

7اکتوبر کے حماس کے حملوں کے بعد یہ اندیشہ ظاہر کیا جانا غیر فطری نہیں تھا کہ اسرائیل اس کا جواب دے گا، البتہ اس وقت ایسا کم لگا تھا کہ ان حملوں کو ایک بڑی جنگ لڑنے کے لیے جواز بنائے گا۔ دراصل اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو گھریلو سیاست میں الجھے ہوئے تھے، لوگ ان کی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کر رہے تھے۔ اس وقت حماس کی طرف سے اگر حملے نہیں ہوتے تو اسرائیل کی سیاست میں کچھ اور ہی نظارہ دیکھنے کو ملتا مگر حماس کے حملوں نے یاہو کو اقتدار میں رہنے کا نہ صرف جواز فراہم کر دیا بلکہ خود کو مستحکم سے مستحکم تر بنانے کے لیے حالات بھی پیدا کر دیے۔ اب اگر غزہ جنگ ختم ہوجاتی ہے، حالات معمول پر آجاتے ہیں تو گھریلو سیاست میں یاہو کو کئی مسئلوں سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے، اقتدار سے بے دخل ہونا پڑ سکتا ہے۔ اس پر بھی کچھ کہنا مشکل ہے کہ ویسی صورت میں ان کے سیاسی کریئر کا کیا ہوگا؟ ادھر جب تک غزہ جنگ جاری ہے، اہل غزہ کی جانوں کا اتلاف بھی جاری ہے، ان کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ کیا اسی لیے جب تک جنگ جاری رکھی جا سکتی ہے، رکھی جا رہی ہے تاکہ یاہو صحیح وقت پر جنگ ختم کرنے کا فیصلہ لے سکیں۔ ادھر اہل غزہ اس پوزیشن میں آجائیں کہ وہ ٹرمپ کا ’غزہ پلان‘ ماننے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اس پلان کے تحت غزہ سے انہیں نکال کر مصر اور اردن میں بسایا جانا ہے اور غزہ کو ایک ساحلی تفریح گاہ بنانا ہے۔

’غزہ پلان‘ کو ماننے سے مصر اور اردن پہلے ہی انکار کرچکے ہیں۔ دیگر عرب ملکوں نے بھی اس پلان میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی ہے مگر سچ یہ بھی ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ اگر اپنی بات منوانے پر بضد ہوجائیں گے تو کوئی ملک امریکہ کی منشا کے خلاف جانے کی جرأت نہیں دکھا سکے گا۔ یوں بھی جو ممالک اسرائیل سے رشتہ امریکہ کی خوشنودی کے لیے استوار کرنا چاہتے ہیں، اہل غزہ پر ظلم و ستم دیکھ کر بھی امریکہ کے خیال سے بڑی حد تک چپی سادھے ہوئے ہیں، یہ امید ان سے کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ امریکہ کی منشا کے خلاف چلے جائیں گے۔ دنیا کے دیگر بڑے ممالک مشرق وسطیٰ میں اپنا دائرۂ اثر تو بڑھانا چاہتے ہیں مگراس کے لیے کوئی جوکھم لینا نہیں چاہتے ہیں۔ وہ عرب ملکوں سے بھی تعلقات مستحکم رکھنا چاہتے ہیں، اسرائیل سے بھی، اس لیے وہ بیان دینے سے آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں۔ بیان بھی بڑا نپا تلا دیتے ہیں۔ اس طرح کا بیان نہیں دیتے کہ کسی ایک طرف زیادہ جھکے ہوئے نظر آئیں جبکہ بیان بازیوں سے حالات بدلتے نہیں، زیادہ گنجلک ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے غزہ جنگ ختم کرانے کے لیے دیکھا یہ جانا چاہیے کہ کیا امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ اس کے لیے راضی ہو رہے ہیں، کیونکہ وہ اگر جنگ ختم کرانے کے لیے تیار ہوگئے تو پھر یہ امید رکھی جانی چاہیے کہ غزہ جنگ ختم ہوجائے گی اور اگر وہ تیار نہیں ہوں گے تو جنگ جاری رہے گی جیسے ابھی جاری ہے اور اس سوال کی اہمیت برقرار رہے گی کہ آخر غزہ جنگ کب ختم ہوگی؟

حماس کو غالباً اس بات کا احساس ہے کہ امریکہ کے چاہے بغیر غزہ جنگ ختم نہیں ہوگی۔ اسی لیے اس کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ غزہ میںزندہ بچ جانے والے آخری امریکی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کو رہا کر دے گی۔ حماس کی طرف سے یہ اعلان جنگ بندی کے لیے دوحہ میں امریکی حکام اور حماس کے مابین براہ راست بات چیت کی پیش رفت کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ بات کہی گئی ہے کہ ایڈن الیگزینڈر 13 مئی، 2025 تک رہا کیے جا سکتے ہیں۔ ان کے رہا کیے جانے کے اعلان پر یاہو نے بیان دیا ہے لیکن ان کی رہائی کے بعد یہ اندازہ لگانا آسان ہوگا کہ غزہ جنگ جاری رہے گی یا جز وقتی جنگ بندی ہوگی یا مستقل جنگ بندی ہوگی اور اگر مستقل جنگ بندی ہوگی تو کن شرائط پر ہوگی، کیونکہ حماس نے اچانک تو ایڈن الیگزینڈر کو رہا کرنے کا فیصلہ نہیںکیا ہوگا۔ اسے اگر یہی کرنا ہوتا تو بہت پہلے کرسکتی تھی، اس وقت کر سکتی تھی جب ٹرمپ کھل کر یہ کہہ رہے تھے کہ تمام یرغمالیوں کو چھوڑ دو، ورنہ برے انجام بھگتنے کے لیے تیار رہو۔ حماس نے اس وقت بھی ایڈن الیگزینڈر کو یرغمال بنائے رکھا تو اب کیوں چھوڑنے کے لیے تیار ہوگئی؟ ایڈن الیگزینڈر کو رہا کیے جانے کی خبر سے یہی لگتا ہے کہ امریکہ کچھ ماننے کے لیے تیار ہوا ہے اور غزہ جنگ کے سلسلے میں کچھ نیا ہونے والا ہے۔ ایسا کچھ جو اہل غزہ کے لیے راحت افزا ہو اور خطے کے عرب ممالک کے سربراہوں کے لیے اطمینان بخش ۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS