علی خان محمودآباد
بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ غزہ میں قتل و غارت کا کوئی مقصد نہیں ہے لیکن لوگ بھول جاتے ہیں کہ ملکوں کی پالیسیوں کی اپنی منطق ہوتی ہے چہ جائے وہ کتنی بھی غلط ہو۔ اسرائیلی عوام میں تعصب اور تشدد اور فلسطینیوں کو حقارت کی نظروں سے دیکھنا عام ہو گیا ہے لیکن آپ خود سوچئے کہ غزہ میں رہنے والے 22 لاکھ لوگوںکو بے گھر کرکے کیا حاصل ہوگا؟ اولاً تو زمین پر قبضہ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکومت کی منشا یہ ہے کہ اور بھی فلسطینی نوجوان ہتھیار اٹھائیں اور تشدد کا سلسلہ جاری رہے۔ در حقیقت وہ حماس کو ختم نہیں کرنا چاہتے ہیں بلکہ اسرائیل کا پوشیدہ ہدف یہ ہے کہ غریب، بے وطن اور بھوکے فلسطینی اور بھی کثیر تعداد میں ہتھیار اٹھائیں۔ ادھر 15 مارچ کو شام کی خانہ جنگی کو 13 سال ہو جائیں گے۔ وہاں بھی شامیوں کو بدنام کرنے کے لیے کئی طاغوتی طاقتوں نے حریت اور آزادی کی لڑائی کو مذہبی لڑائی میں تبدیل کر دیا۔ جبہتہ النصر اور داعش کہاں سے نمودار ہوئیں اور کہاں گئیں؟ جیسے حماس منتخب ہو کر غزہ میں بر سر اقتدار آئی تھی ویسے ہی اخوان المسلمین مصر میں منتخب ہوئے اور حکومت قائم کی لیکن مغربی ممالک، اسرائیل اور بعض عربوں کے لیے یہ حکومت نا قابل قبول تھی، لہٰذا وہ گرا دی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں بیشتر حکومتیں مغربی طاقتوں کی منشا اور مرضی کے مطابق بنتی ہیں۔ کہیں مذہبی تنظیموں کا استعمال ہوتا ہے تو کہیں جابرانہ سیکولر حکومتوں کا لیکن مقصد ایک ہے اور وہ ہے- عدم استحکام یا انگریزی میں destabilisation ۔ جمہوریت ایک سراب ہے اور عالمی اقتصادی اور تجارت کو منافع پہنچانا اصل ہدف ہے۔
غزہ میں تیس ہزار سے زیادہ لوگ شہید ہوچکے ہیں اور اسرائیلی حکومت کی خوں ریزیاں دن بدن بڑھ رہی ہیں۔ ان تیس ہزار شہدا میں سے پچیس ہزار عورتیں اور بچے ہیں۔ مغربی حتیٰ کہ ہندوستانی میڈیا میں بیشتر لوگ اس قتل عام کو اسرائیل اور حماس کے درمیان ’جنگ‘ قرار دے رہے ہیں۔ ’ٹائمس آف انڈیا‘ موبائل ایپ اور ویب سائٹ پر اس جنگ سے متعلق خبروں کو ’اسرائیل-حماس جنگ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ آپ خود سوچئے کہ یہ جنگ کیسی جنگ ہے جس میں ایک طرف دنیا کی عظیم فوج اور دوسری طرف وہ آبادی ہے جو تین طرف سے دیوار سے گھری ہوئی ہے اور ایک طرف سمندر سے۔ غزہ میں رہنے والے فلسطینی کسی بھی طرح سے خود مختار نہیں ہیں اور اسرائیلی حکومت ان کی آمد و رفت اپنے قبضے میں رکھتی ہے۔ حماس منتخب ہوکر برسر اقتدار ضرور آئی لیکن آج کے زمانے میں حکومتوں کی خودمختاری دو اہم چیزوں پر مبنی ہوتی ہے-اولاً اس کو اپنے دفاع کا حق ہونا چاہیے اور دوم وہ اس قوت دفاع کے ذریعے اپنے حدود اور سرحدوں کو نہ فقط قائم کرسکے بلکہ ان کی حفاظت بھی کرسکے۔ اس کے علاوہ یوروپ کی تاریخ میں ایک ملک کو ملک اس وقت قرار دیا جاتا ہے جب دوسرے ممالک اس کی حاکمیت اور ملکیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اسی کو خودمختاری (sovereignty) کہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق ہر قوم کا بنیادی حق ہوتا ہے کہ وہ خودمختار ہو اور اپنی حکومت قائم کرے لیکن افسوس کی صہیونیت کی بنیاد ہی جھوٹ پر مبنی ہے کیونکہ صہیونیت کے بانیان نے کہا کہ ارض فلسطین ایسی جگہ ہے جہاں کوئی نہیں رہتا ہے اور لہٰذا اس قوم کے لیے ہے جن کے پاس کوئی وطن نہیں ہے یعنی یہودی۔
آج فلسطینیوں کی لڑائی مذہبی نقطۂ نظر سے دیکھی جاتی ہے لیکن یہ ایک بہت بڑی اور بہت عام غلط فہمی ہے۔ درحقیقت ہزاروں برس سے فلسطین میں مسلمانوں کے علاوہ عیسائی، یہودی اور دیگر اقلیتیں رہتی ہیں۔ یاد رہے کہ شروع میں 1948 سے تقریباً 1970 تک فلسطینی مقاومت قومیت اور اشتراکیت پر مبنی تھی۔ یاسر عرفات المعروف بہ ابو عمار کی لڑائی قومی لڑائی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ آیا عرفات کی سیاست موقع پرستی پر مبنی تھی یا نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مصر میں پیدا ہوئے اور سوویت روس کے اس حامی نے اسرائیلی استعمار کے خلاف مورچا سنبھالا تھا۔
1967 کی جنگ کے بعد اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کر لیا تھا اور یہ 2005 تک قائم رہا۔ شیخ احمد یاسین نام کے ایک عالم نے 1973 میں مجمع الاسلامیہ نام کی تنظیم قائم کی۔ 1979 میں اسرائیلیوں نے اس تنظیم کو چیریٹی اور پھر ایسوسی ایشن کے طور پر مانا اور انتظامیہ نے اس کو لائسنس وغیرہ دے دیا۔یاد رہے کہ تقریباً 1979 تک یا اس کے کچھ سال بعد مغربی طاقتوں کے لیے دنیا کا سب سے بڑا خطرہ روس اور اشتراکیت تھا۔ اسرائیل کے لیے بھی فلسطین میں قومیت اور اشتراکیت بہت خطرناک تھی، اس لیے غسان کنفانی نام کے فلسطینی مصنف کو اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے بیروت میں 1972 میں قتل کر دیا۔کنفانی کے لیے مشہور تھا کہ وہ ایسے مارکسسٹ کمانڈو تھے جنہوں نے زندگی بھر بندوق نہیں چلائی۔کنفانی کے اسلحہ الفاظ تھے۔
1979 میں سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ اس کے خلاف افغانستان میں امریکیوں، اسرائیلیوں، پاکستانیوں اور بعض دیگر ملکوں نے ’اسلامی‘ تحریکوں کی پشت پناہی کی بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انہوں نے با قاعدہ اسلام کے نام پر لڑنے والے مجاہدین کو خلق کیا۔اس زمانے میں اسرائیلی پی ایل او اور فتح سے بہت پریشان تھے اور ان کی پریشانی کا ایک اور سبب یہ تھا کہ بہت سے ممالک فلسطینی آزادی کی جنگ کو ایک قومی جنگ قرار دیتے تھے۔ لہٰذا صہیونی حکومت نے سوچا کہ کیوں نہ فلسطینیوں کو آپس میں ہی لڑنے دیں۔ شیخ احمد نے یونیورسٹی قائم کی اور اس کے علاوہ مساجد، مطب، اسکول اور نوجوانوں کے لیے کلب وغیرہ قائم کیے۔ اس زمانے میں غزہ میں اسرائیلی حکومت تھی اور گورنر کا نام برگڈیر جنرل ییٹساک سیگیو(Brig. Gen. Yitzhak Segev) تھا۔ انہوں نے نیویارک ٹائمس کے یروشلم کے بیورو چیف ڈیوڈ کے شپلر (David K Shipler)سے کہا کہ وہ المجمع الاسلامیہ اور اخوان المسلمین کو پیسے بھیج رہے تھے تاکہ فلسطینی آپس میں لڑیں اور پی ایل او کی مقبولیت کم ہو۔ المجمع اور اخوان سے ہی حماس پیدا ہوئی تھی۔ اس زمانے کا ایک واقعہ بہت دلچسپ ہے۔ برگڈیر جنرل شالوم حراری(Shalom Harari) بیان کرتے ہیں کہ جب وہ فوجی انٹلی جنس آفیسر تھے تو ان کے پاس غزہ سے باہر جانے والی سڑک کے ایک چیک پوائنٹ سے سپاہیوں کا فون آیا۔ ان سپاہیوں نے کہا کہ یہاں ایک گاڑی ہے جس میں اسلامی فائیٹر بیر زیت جاکر فتح کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں۔ حراری نے جواب دیا کہ اگر دونوں ایک دوسرے کو مارنا چاہتے ہیں تو ان کو جانے دو۔
1984 میں جب غزہ میں اسرائیلیوں کو ایک مسجد میں ہتھیار ملے تو انہوں نے شیخ احمد کو قید کرلیا۔ آخر میں 2004 میں شیخ احمد کو اس ہی اسرائیل نے بم سے قتل کر دیا جن کو انہوں نے ایک زمانے میں فروغ دیا تھا۔ سوویت یونین کے سقوط کے بعد مغربی ممالک ایک نئے دشمن کی تلاش کر رہے تھے اور وہ دشمن اسلام تھا۔ اشتراکیت کا خطرہ ختم ہو گیا تھا، البتہ عالمی تجارت کی سب سے قیمتی صنعت یعنی اسلحہ جات کی خرید و فروخت کے لیے نئے بازار درکار تھے۔ خیر وہ دوسرا قصہ ہے لیکن اسرائیل نے نہ فقط فلسطینیوں کو تقسیم کر دیا بلکہ فلسطینی جنگ آزادی کو اب ’اسلامی جہاد‘سے جوڑ دیا۔ ظاہر ہے کہ 1990 کے دہے اور پھر 2001 کے نیو یارک پر حملے کے بعد دہشت گردی اور ’اسلامی مقاومت‘سے لوگوں کو اتنا ڈرا دیا گیا کہ وہ لوگ بھی خاموش ہوگئے جو فلسطین کے ہمدرد تھے۔ غزہ میں حماس کی مقبولیت اس لیے بھی بڑھی کیونکہ پی ایل او کے متعلق یہ تصور عام تھا کہ وہ اسرائیلیوں کے ہاتھوں بک چکے ہیں۔ جب عرفات نے اوسلو میں امن و امان کی بات کی اور اسرائیل وزیراعظم اسحاق رابن سے ہاتھ ملایا تو حماس نے ان کو فلسطینیوں کی آزادی اور حریت کا سوداگر قرار دیا۔فتح اور پی ایل او میں حد سے زیادہ بدعنوانی بھی تھی، لہٰذا غزہ میں وہاں کے لوگوں نے انتخابات کے ذریعے حماس کو حکومت سونپی۔مجمع الاسلامیہ کے زمانے سے ہی وہ تنظیم سوشل سروِس یعنی خدمت خلق میں پیش پیش تھی، لہٰذا لوگوں نے ان کو بہتر سمجھا۔اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ پورا مسئلہ کتنا پیچیدہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات فلسطین میں ہیں لیکن فلسطینی آزادی کو فقط ایک اسلامی مسئلہ قرار دینا نادانی ہے۔ اولاً جیسے مندرجہ بالا رقم کیا گیا کہ فلسطین میں دیگر مذاہب کے لوگ بھی رہتے ہیں۔ لہٰذا یہ لڑائی فلسطینی مشترکہ قومیت کی ہے۔ بعض تجزیہ نگار دو ملکوں کی بات کرتے ہیں لیکن یہ ناممکن ہے اور دھوکہ ہے کیونکہ اگر دو ملک قائم ہوئے تو بول بالا اسرائیل کا ہی ہوگا۔ خود مختار ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ایک ملک اپنا دفاع کرسکے لیکن کیا اسرائیل کبھی بھی فلسطینی فوج کو وجود میں آنے دے گا اور فرض کیجیے اگر رسمی طور پر آنے بھی دیا تو کیا اسرائیلی فوج کے پاس زیادہ ہتھیار اور اسلحے نہیں ہوں گے؟ اکتوبر میں حماس نے جو حملہ کیا وہ خلا میں نہیں ہوا تھا۔ یاد رہے نیتن یاہو کے خلاف اسرائیل میں بڑے پیمانے پر احتجاجات ہو رہے تھے۔ اسرائیلی استعمار برسوں سے رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا لیکن دنیا میں آج انسانیت اور قومیت کے نام پر شاید زیادہ لوگ اسرائیل کی مخالفت کریں کیونکہ عالمی سیاست میں اسلامی تحریکوں کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ خود تصور کیجیے کہ رشی سنک نے جورج گلووَے کی انتخابات میں کامیابی کے متعلق کہا کہ برطانیہ کو متشدد گروہوں سے خطرہ ہے۔ یہاں متشدد سے مراد مسلمان ہیں اور گلووَے سے سنک اس لیے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ کھل کر فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف طاغوتی طاقتوں کے حملے جاری رہیں گے لیکن فلسطین کی آزادی کو قومیت اور انسانیت کے نظریہ سے دیکھنا چاہیے۔n