صبیح احمد
تقریباً 15 ماہ کی جنگ اور طویل مذاکرات کے کئی دور کے بعد حماس اور اسرائیل جنگ بندی پر رضامند ہوگئے ہیں۔ اس جنگ میں ہزاروں لوگ مارے گئے اور غزہ کا بڑا حصہ تباہ ہوگیا۔ جنگ بندی کی خبر ملتے ہی ہزاروں لوگ روزانہ کی بمباری اور گولہ باری کے خاتمہ کی امید میں غزہ کی سڑکوں پر نکل آئے۔ حالانکہ جنگ بندی کے نفاذ سے چند گھنٹے پہلے غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی تھی، لیکن دونوں فریقوں نے غزہ سے اسرائیل کے جزوی انخلا اور پہلے ہی دن یرغمالوں کے ناموں کی رہائی کی تفصیلات پر اپنے آخری لمحات کے اختلافات کو دور کر لیا اور اتوار (19جنوری) کو جنگ بندی پر عمل درآمد شروع ہوگیا۔ حالانکہ یہ جنگ کا مستقل خاتمہ نہیں ہے لیکن 7 اکتوبر 2023 سے اسرائیل اور غزہ میں دیکھے جانے والے تشدد کو دیکھتے ہوئے اس جنگ میں ایک وقفہ بھی خاص طور پر غزہ کے 2.3 ملین فلسطینیوں کے لیے ایک بہت بڑی راحت ہے۔
یہ صحیح ہے کہ جنگ بندی امن نہیں ہے، لیکن ایک تنازع میں جو ایک شدت پسندانہ عمل سے شروع ہوا اور اس کے بعد ایک بھیانک ردعمل سامنے آیا جس نے ایک پورے خطہ کو تباہ کر دیا – 46,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے، جن میں بہت سارے بچے بھی شامل ہیں – اور جس کے مغربی ایشیا کے بیشتر حصے کو اپنی لپیٹ میں لینے کا خطرہ ہے، یہ محتاط امید کی ایک کرن ضرور ہے۔ اسرائیل اور حماس نے مہینوں کی بات چیت کے بعد دشمنی کوروکنے اورجنگ بندی کے معاہدے کو قبول کرنے پر اتفاق کیا ہے جو 3 مرحلوں پر مشتمل ہے۔ معاہدہ کے تحت 3 مراحل میں سے پہلا مرحلہ 19 جنوری کو کئی گھنٹے کی تاخیرسے شروع ہوچکا ہے، جس کے تحت غزہ میں یکم مارچ تک مکمل جنگ بندی ہوگی۔ حماس 33 اسرائیلی یرغمالوں کو رہا کرے گی۔ اسرائیل روزانہ اپنے ایک یرغمال کے بدلے 33 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔ ہر اسرائیلی خاتون فوجی کے بدلے 50 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ اگر پہلے مرحلہ کے 16ویں دن یعنی 3 فروری تک سب کچھ ٹھیک رہا تو دوسرے مرحلہ کی منصوبہ بندی پر بات چیت شروع ہو جائے گی۔ اس دوران کوئی حملہ نہیں کیا جائے گا۔ باقی یرغمالوں کو رہا کر دیا جائے گا جو زندہ ہیں۔ اسرائیل 1000 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، جن میں سے 190 کے قریب 15 سال سے زائد عرصہ سے سزا کاٹ رہے ہیں۔ اس معاہدہ کے تیسرے اور آخری مرحلہ میں غزہ کو دوبارہ آباد کیا جائے گا۔ اس میں 3 سے 5 سال لگیں گے۔ حماس کی قید میں مارے گئے یرغمالوں کی لاشیں بھی اسرائیل کے حوالے کی جائیں گی۔
بالآخر 15 ماہ سے جاری جنگ، قلیل مدت کے لیے ہی سہی،اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے اور پہلے مرحلہ میں اب حماس اور اسرائیل کے درمیان یرغمالوں کا تبادلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ حماس کے ذریعہ 3 اسرائیلی خاتون یرغمالوں کی واپسی کے بعد اسرائیل نے بھی 90 فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا ہے۔ اگلے 6 ہفتے کافی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ اس دوران ملے جلے جذبات کارفرما ہوں گے اورکئی مزید مشکل اقدامات کیے جانے ہوں گے۔ جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ ہی غزہ سے بے گھر ہو کر دیگر مقامات پر پناہ لینے والے فلسطینیوں نے اپنے گھروں کو لوٹنا شروع کر دیا ہے اور انسانی امداد کو لے کر پہلے ٹرک تباہ شدہ علاقوں میں داخل ہو رہے ہیں۔ فی الحال دونوں فریقوں کی توجہ پہلے مرحلے پر ہے۔ جب اسرائیل نے یہ جنگ شروع کی تو اس نے اپنے لیے 2 مقاصد طے کیے تھے،ایک حماس کی تباہی اور دوسرا یرغمالوں کی رہائی۔ مجموعی طور پر 15 ماہ کی جنگ میں اسرائیل نے حماس کے عسکری ڈھانچے کو کمزور تو کر دیا ہے، لیکن یہ گروپ اب بھی زندہ ہے اور اپنے آپ کو ایک مضبوط باغی کے طور پر دوبارہ قائم کر لیا ہے۔ حال ہی میں عہدہ سے دستبردار ہونے والے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے مطابق حماس نے اتنے ہی جنگجو بھرتی کر لیے ہیں جتنے اس نے جنگ کے دوران کھوئے تھے۔ حماس کو تباہ کرنے یا جارحانہ طریقے سے یرغمالوں کی رہائی کو یقینی بنانے میں اسرائیل کی ناکامی نے غزہ میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز(آئی ڈی ایف) کی فوجی حکمت عملی کے بارے میں سنگین سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ یہ شاید ان عوامل میں سے ایک ہو سکتا ہے جس نے بنیامن نیتن یاہو کو جنگ بندی قبول کرنے کے لیے ترغیب دی۔ لیکن انہوں نے ابھی تک جنگ کے مکمل خاتمہ کا کوئی عزم ظاہر نہیں کیا ہے۔ دوسری جانب حماس اسرائیل سے غزہ سے مکمل انخلا کا مطالبہ کرتا ہے۔
اس دوران امریکہ میں صدر بائیڈن کی جگہ ڈونالڈ ٹرمپ نے لے لی ہے اور دونوں میں جنگ بندی کا کریڈٹ لینے کی دوڑ بھی شروع ہو گئی ہے۔ بہرحال مشرق وسطیٰ میں استحکام لانے کے لیے ٹرمپ کی صدارت پر آنکھ موند کر تکیہ کرنا ایک جرأت مندانہ لیکن پرخطر قدم ہوگا۔ ٹرمپ کے دوسرے دور حکمرانی میں ان کے نقطہ نظر کو تشکیل دینے میں 2 اہم ترجیحات نمایاں کردار ادا کرسکتی ہیں۔ سب سے پہلے وہ یقینی طور پر طویل مدتی امن پر کم اور قلیل مدتی جغرافیائی سیاسی فتوحات پر زیادہ توجہ مرکوز کریں گے، اس امید کے ساتھ کہ علاقائی کھلاڑی ان ذمہ داریوں کو نبھائیں گے جو اکثر واشنگٹن کے کندھوں پر ہوتی ہیں۔ بہرحال مشرق وسطیٰ جیسے پیچیدہ خطہ میں داؤ پر بہت کچھ لگا ہوا ہے اور نتائج قطعی یقینی نہیں ہیں۔ ٹرمپ کی دوسری میعاد کے ساتھ خطہ کو ’غیر متوقعات‘ کے ایک نئے دور کا سامنا ہے۔ ٹرمپ کی جذباتی اور بے ترتیب فیصلہ سازی یا تو کشیدگی کو بڑھا سکتی ہے جو اسرائیل اور ایران کو کھلے ٹکرائو کی طرف دھکیل سکتی ہے یا اس کے برعکس صورت حال کو معمول پر لانے کا موقع فراہم کرسکتی ہے۔ یہ اتار چڑھاؤ علاقائی متعلقین کے درمیان اس تصور کو تقویت دیتا ہے کہ ایک محتاط، متوازن نقطہ نظر کامیاب حکمت عملی بن سکتی ہے۔ خطہ کے کھلاڑی ممکنہ طور پراپنے اپنے دائو کے ساتھ ایک ایسے مستقبل کی تیاری کر رہے ہیں جہاں امریکی کردار ہمیشہ کی طرح غیر متوقع ہے۔
حالانکہ مکمل قیام امن کی راہ میں ابھی بہت سی رکاوٹیںموجود ہیں لیکن اس کے باوجود جنگ بندی پر عمل درآمد خوش آئند بات ہے اور یہ غزہ کے محصور لوگوں کے لیے پہلی بڑی راحت ہے۔ یہ اسرائیل، خطہ اور اس کے باہر کے دوسرے بڑے اسٹیک ہولڈرس کے بہترین مفاد میں ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ یہ زیادہ دیرپا امن کی طرف پہلا قدم ثابت ہو۔ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے سے پہلے بحرین اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ ’ابراہم معاہدہ‘ سمیت اسرائیل اور اعتدال پسند عرب ریاستوں کے درمیان تعلقات میں اہم پیش رفت ہوئی تھی۔ معاہدوں کی صحیح معنوں میں احیا کے لیے فلسطینی امنگوں کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہوگی، جو صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب تمام فریقین نیک نیتی سے کام کریں۔ یہ جنگ بندی غزہ کے لیے انتہائی ضروری ریلیف اور مزید مذاکرات کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی ثالثوں کو اب جنگ کے بعد کے منظر نامے میں خلا کو پر کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ خطہ میں دہلی کے بھی مفادات جڑے ہوئے ہیں اور مختلف فریقوں کے ساتھ اس کے خیرسگالانہ تعلقات ہیں۔ خلیج اور امریکہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اسے جنگ بندی کو عملی جامہ پہنانے پر زور دینا چاہیے۔ موجودہ لمحہ حالانکہ تاخیر سے آیا ہے لیکن بے حد خوش آئند ہے اور یہ ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ ایک زیادہ عملی حل یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ فلسطینی اتھارٹی کی قیادت میں تمام فلسطینی دھڑوں کی ایک مشترکہ انتظامیہ تشکیل دی جائے اور پھر غزہ کی تعمیر نو پر توجہ دی جائے۔ لیکن اس منصوبے کی کامیابی اور امن قائم کرنے کے لیے اسرائیل کو غزہ پٹی سے اپنے تمام فوجیوں کو واپس بلانے پر آمادہ ہونا چاہیے۔