غزہ ناکہ بندی : زندگیوں کوموت نے گھیر لیا ہے

0

محمد حنیف خان

غزہ کے حالات ناگفتہ بہ ہیں، انسانیت کراہ رہی ہے مگر کوئی سننے والا نہیں ہے ،کوئی ان کی مدد کرنے والا نہیں ہے ،وہ اس وقت بے یارو مددگار ہیں،غزہ کو بھوک ،درد،بیماری اور مایوسی کی ان گہرائیوں میں پہنچا دیا گیا ہے جہاں سے ان کی چیخ انسانی دنیا تک نہیں پہنچ رہی ہے۔اسرائیل کی فوجی ناکہ بندی،امدادی اشیاء پر قدغن،غذائی اشیاء پر پابندی ،ادویات اور ایندھن پر روک نے اس علاقے کو تاریخ کے شدید ترین دور میں پہنچا دیا ہے۔اسرائیل کی دباؤ کی پالیسی نے انسانیت کو کچل کر رکھ دیا ہے۔
انسانی زندگی نشیب و فراز کا مجموعہ ہے،آپسی کشاکش اور تنازعات کا تعلق بھی انسانی زندگی سے ہی ہے، البتہ اگر انسان کلی طور پر انسانیت سے عاری ہوجائے تو کیا اسے انسان کہا بھی جا سکتا ہے؟شاید ہر منصف مزاج کا جواب نفی میں ہی ہو اور ہونا بھی چاہئے ۔غزہ کے تناظر میں جب ہم انسانیت کا اپنی کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک جانب انسانیت کا جنازہ نکل رہا ہے اور دوسری جانب انسانیت کا لبادہ اوڑھنے والے لوگ ننگے ہو رہے ہیں۔در اصل یہ افراد جسم کے بجائے اپنی روحوں کے ساتھ بھی ننگے ہوچکے ہیں۔فلسطین کی آج حالت ایسی ہوچکی ہے جو ناقابل بیان ہے۔زندگی اور اس کی رمق کے آثار تک زمین بوس کرکے مٹی میں ملا دیے گئے ہیں۔اب حالات یہ ہوگئے ہیں کہ دنیا اس جانب سے بے توجہ ہوچکی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ دنیا نے فلسطینیوں کو نہ صرف ان کے مقدر کے ساتھ چھوڑ دیا ہے بلکہ ان کے مقدر میں لکھی زندگی کی رمق اور اس کی شہ رگ کاٹنے کا ٹھیکہ بھی اسرائیل کو دے دیا ہے۔

ہندستان کا ہمیشہ سے اہنسا کا موقف رہا ہے، یہاں تک موجودہ بی جے پی کی حکومت نے بھی دستاویزی سطح پر دوریاستی حل پر ہی زور دیا ہے،اس کے باوجود اس نے اسرائیل کی عملی اور نظری دونوں سطح پر مدد کی ہے۔دنیا کے کسی بھی خطے میں ظلم ہو رہا ہو توکہیں کے بھی عوام ان کے لیے آواز اٹھاسکتے ہیں،انسانیت کے خلاف ہو رہے اقدام کی مذمت کرسکتے ہیں جس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ ہم ظالم قوت کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ مظلوم کی حمایت کرتے ہیں۔ اترپردیش کے ضلع سنبھل میں Free Plestine کے پوسٹر پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے آواز اٹھانے والوں کو جیل بھیج دیا۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستانی حکومت کس حد تک پر اسرائیل نواز ہے۔کیا یہ قدم بھی قانون کے خلاف ہے؟یا یہ ملک سے غداری کے زمرے میں آتا ہے؟شاید اس کا کوئی جواب نہ دے لیکن اس سے یہ تو طے ہوگیا کہ اب یہاں کی حکومتوں سے کسی طرح کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔

فلسطین میں اسرائیل کا ننگا ناچ صرف اس کی اپنی نفسیات کا مظاہرہ نہیں ہے بلکہ اس نے دنیا کی بڑی طاقتوں کی نفسیات اور ان کے عملیات کو بھی بے نقاب کیا ہے۔یہ بات دنیا جانتی ہے کہ اقوام متحدہ کا قیام صرف اس لئے وجود میں آیا تھا تاکہ دنیا میں ایک ایسا ادارہ ہو جو عالمی سطح پر جواب دہی طے کرسکے مگر یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے ،دنیا کی بڑی طاقتوں نے نہ صرف اسے اپنا آلہ کار بنایا بلکہ ذمہ دار عہدیداروں نے جب اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے منصف مزاجی کا ثبوت دیا تو اسی ادارے کے پر کتر دیئے گئے۔اب آج اس ادارے کی حالت کسی ننگے بھوکے انسان کی ہے جس کی کوئی نہیں سنتا ،اس ادارے کے ذیلی اداروں کی جانب سے غزہ کے حوالے سے مسلسل رپورٹ شائع ہو رہی ہیں اور وہ دنیا کو بتا رہے ہیں کہ غزہ کی کیا حالت ہوتی جا رہی ہے مگر کوئی بھی ملک اس کی آواز پر کان دھرنے والا نہیں ہے۔

دنیا کو یہ بات اچھی طرح سے پتہ ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد اسرائیل نے دوبارہ اس پر جنگ تھوپی ہے،جس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ پوری طرح سے فلسطینیوں کو اس قطعہ ارضی سے باہر کرکے اس پر قبضہ کرلیا جائے اور وہاں یہودی بستیوں کو بسایا جائے۔اسرائیل کے شدت پسند سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر اعلانیہ طور پر فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرکے ان پر یہودی بستیوں کے بسائے جانے والے منصوبے کے اقدام کی بات کر رہا ہے۔یہ صرف اسی پر موقوف نہیں ہے وہاں کی شدت پسند لابی پوری طرح سے یہی چاہ رہی ہے لیکن اسرائیل میں ایک طبقہ ہے جو اس طرح کی حرکتوں کے خلاف ہے۔یہ اس لیے نہیں ہے کہ عمل شنیع ہے بلکہ اس لیے ہے کہ اس سے ان کے اپنے پیارے جو حماس کی قید میں ہیں ان کی رہائی کا راستہ نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ان افراد کی رہائی کے لیے وہاں کی سڑکوں پر شدید مظاہرے ہورہے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کیاجارہا ہے کہ ان کی زندگیوں کو بچانے کے لیے معاہدہ کیا جائے ۔ان مظاہرین کے خلاف پولیس طاقت کا استعمال کر رہی ہے لیکن وہ معاہدے کی جانب نہیں بڑھ رہی ہے کیونکہ اس سے اس کے اپنے وہ مقاصد پورے نہیں ہوں گے جن کے لیے اسرائیل جنگ لڑ رہا ہے یا جو شدت پسند چاہ رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ فلسطینیوں کی ہلاکتوں کے ساتھ ہی اسرائیلیوں کی بھی جانیں تلف ہو رہی ہیں۔

اسرائیل کے غیر انسانی رویے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے ان بلڈوزروں کو بھی اپنی بمباری کا نشانہ بنایا ہے جن کے ذریعہ منہدم مکانات و عمارات کے ملبے میں دبی لاشوں کو نکالا جا رہا تھا۔دی گارجین کی ایک رپورٹ کے مطابقAmande Bazerolle the Gaza emergency coordinator for medicinsنے بتایا ہے کہ مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے جگہ نہیں ہے ،غزہ شہر میں واقع ہماری کلینک پر ہم صبح دس بجے سے ہی لوگوں کو واپس کرکے دوسرے دن بلانا شروع کردیتے ہیں کیونکہ ادویات کی فراہمی کو ہم زیادہ سے زیادہ دیر تک جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ کامن ڈریمس(Common Dreams)نے گولڈ اسمتھ (Goldsmith)کا ایک مضمون Israeli Striks Destroy Machinery used for Bodies buried under th Rubble in Gazaشائع کیا ہے جس میں اسرائیل کی وحشت ناک اور انسانیت کو شرمسار کردینے والی کارروائیوں کا ذکر کیا ہے۔اسی طرح سے 19اپریل کو ’دی گارجین‘ نے بیتھن میککرنن(Bethan Mc Kernan)کا مضمون Despair in Gaza as Israeli aid blocked creates crisis unmatched in serverityشائع کیا ہے،جس میں اسرائیل کے ذریعہ ادویات،غذائی اشیاء اور دیگر اشیاء ضروریہ پر عائد پابندی اور اس سے پیدا شدہ حالات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔جس ،کے مطابق اب وہاں بچے ایک وقت کے کھانے پر گذارا کرنے پر مجبور ہیں۔جب اشیاء کی قلت ہوتی ہے تو ان کی قیمتوں کا آسمان چھونا عام بات ہے ،یہی حالات فلسطین میں ہیں اس مضمون نگار کے مطابق اشیاء کی اصل قیمتوں سے 1400فیصد زائد قیمت پر اشیاء فروخت ہو رہی ہیں ۔تقریبا 95فیصد امدادی تنظیموں نے اسرائیل کے فضائی حملوں اور ناکہ بندی کی وجہ سے خدمات کو معطل یا منقطع کردیا ہے ۔غزہ میں عام ادویات تو چھوڑیئے درد کش دوائیں تک ختم ہوچکی ہیں مگر ناکہ بندی نہیں ختم کی جارہی ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق فلسطین کے 70 فیصدحصے پر اب اسرائیل قابض ہوچکا ہے ،جہاں سے انخلا کا حکم دیا جا چکا ہے ،فوج نے اسے بفر زون میں شامل کرکے پوری طرح سے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔

موت نے فلسطین کو گھیر رکھا ہے،ہر طرف موت کا راج ہے،یہ قوم یقینا موت سے ڈرنے والی نہیں ہے لیکن چھوٹے چھوٹے معصوم بچے جس طرح سے موت کے منھ میں جا رہے ہیں وہ حد درجہ دردناک ہے۔ اسرائیل کے ذریعہ اس نسل کشی میں پوری دنیا کی طاقتیں شریک ہیں جس میں ہندستان کا بھی اپنا حصہ ہے ،جس کے لیے اسے بھی تاریخ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔بہتر تو یہی ہے کہ ہندستان آگے بڑھ کر جنگ بندی میں اپنا کردار ادا کرکے یہ ثبوت دیتا کہ اہنسا کی سرزمین کبھی ہنسا کو برداشت نہیں کرے گی مگر اس امید کے مقدر میں ’’کاش‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں۔

haneef5758@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS