گزشتہ شب امریکی صدر جوبائیڈن نے آئس کریم کھاتے ہوئے اعلان کیا کہ جلد ہی غزہ میں جنگ بندی عمل میں آجائے گی۔ 30ہزار سے زائد افراد جن میں غالب اکثریت معصوم بچوںاور عورتوں کی ہے، ہلاکت کے بعد امریکی صدر نے جس فاتحانہ انداز سے یہ اعلان کیا ہے وہ کسی حساس لیڈر کی شایان شان نہیں ہے۔ 7؍اکتوبر 2023کے بعد سے لگاتار اسرائیل غزہ کے محض دس کلومیٹر کے رقبے والے قطع اراضی میں جو بربریت مچا رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اگرچہ 7؍اکتوبر کا حملہ انتہائی افسوسناک تھا، مگر ارض فلسطین کی تاریخ صرف اسی رو ز سے نہیں شروع ہوتی ہے، اس کے پیچھے 76سال کی وہ خونی تاریخ ہے جو انسانیت کے دامن کو لہوسے تربتر کرچکی ہے۔وہ پہلے ہی ایسے کئی متنازع بیانات دے چکے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کافی حد تک اسرائیل کو کلین چٹ دے رہے ہیں۔ اگرچہ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے اعلیٰ ترین عہدیداران خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار، سفارت کار، فوجی ماہرین اس خطہ اراضی میں جنگ بندی کے لئے ہر ممکن کوششیں کر رہے ہیں، مگر ابتدائی ایام میں ان کا سرد مہری والا رویہ اسرائیل کی حوصلہ افزائی کرنے ولا تھا۔ دوسری جانب یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی جنگ بندی کے بعد کی صورت حال کا مقابلہ کرنے اور اپنے نظام و انصرام میں تبدیلی کی خاطر بڑی تبدیلیاں کرنے جارہی ہے۔ اس سلسلہ کی پہلی کڑی فلسطینی اتھارٹی کے نام نہاد وزیراعظم محمد اشتیہ کا استعفیٰ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ استعفیٰ امریکی روڈمیپ کا حصہ ہے جس کے ذریعہ وہ خطے میں ایک مکمل آزادمملکت کے قیام کی داغ بیل ڈالتا ہے۔ دراصل غزہ کے علاوہ مغربی کنارے میں بھی اس وقت اسرائیل ایک الگ انداز کی جنگ لڑ رہا ہے۔ وہ جنگ معصوم، بے گناہ فلسطینیوںکے خلاف ہے جواپنی عزت نفس، آزادی اور اپنی آزاد مملکت کے قیام کے لئے لڑ رہے ہیں۔ اسرائیل نہیں چاہتا کہ اس پورے خطے پر کوئی آزاد فلسطینی ریاست قائم ہو۔ اس بات کا اعلان وہ باربار کر رہا ہے۔ فلسطینی ریاست کے قیام کو موخر کرنے کا کریڈٹ کئی مرتبہ اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو لے چکے ہیں۔ وہ جب سے اقتدار میں آئے ہیں مختلف حیلوں اور بہانوں سے غزہ اور ارض فلسطین کے وہ علاقے جن پر اسرائیل نے 1967میں قبضہ کرلیا تھا بربریت کا بازار گرم کرتے رہے ہیں۔ وہ بہت ہی بے رحمانہ انداز سے فوجی کارروائی کے احکامات دیتے ہیں اورایسا لگتا ہے کہ ان کا واحد ایجنڈہ فلسطینیوںکو زیادہ سے زیادہ جانی، مالی اور سیاسی نقصان پہنچانا ہے۔
اس وقت اسرائیل کی ریاست میں جہاں وزیراعظم نیتن یاہوکا مکمل کنٹرول ہے، وہیں ان کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہورہے ہیں۔ اسرائیل کے اندر کی یہی صورت حال نیتن یاہو کو پریشان کر رہی ہے۔ وہ ایک طرف اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے غزہ میں جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور بربریت مچاکر اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔تو دوسری جانب مغربی کنارے میں بھی ان کے فوجی دستے فلسطینی اتھارٹی کے کنٹرول والے علاقوں میں سرجیکل اسٹرائک کرکے فرداً فرداً فلسطینی حریت پسندوں، عام لوگوں اور رضاکاروںکو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اب جبکہ ماہ رمضان کی آمد آمد ہے اور فرزندان توحید اس ماہ مبارک کی تیاریوںمیں لگے ہوئے ہیں، اسرائیل کی حکومت مسلمانوں کے تیسرے سب سے اہم مذہبی مقام بیت المقدس میں مسلمانوں کو صدمات سے دوچار کرنے کی مہم چلائی ہوئی ہے۔ اس نے پہلے ہی باور کرادیا ہے کہ اس مرتبہ رمضان میں بیت المقدس میں نماز کی ادائیگی اتنی آسان نہیں ہوگی۔ ہر رمضان میں یا ایسے کسی بحران کے دوران اسرائیل کی فوج اس خطے میں الگ قسم کی جابرانہ حکمت عملی اختیارکرتی ہے اور مسلمانوں کو اس عظیم مقام میں عبادت کرنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ ہر رمضان میں اسرائیل کی یہی پالیسی چل رہی ہے۔ اس رمضان میں اسرائیل کی حکومت اور یروشلم انتظامیہ نے مزید سخت احکامات جاری کئے ہیں۔ دراصل مغربی کنارہ وہ خطہ اراضی ہے جوکہ ایک زمانے میں 1967سے قبل سلطنت اردن کا حصہ تھا اوراسی وجہ سے بیت المقدس یا قبلہ اول کا کسٹوڈین اردن کا شاہی خاندان ہی ہوتا ہے۔ 1967کی 6روز کی جنگ میں اسرائیل نے اردن کے اس حصہ کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔ عالمی برادری غزہ اور غرب اردن (مغربی کنارے) کو مجوزہ آزاد فلسطینی مملکت کا حصہ مانتی ہے اور 1992-95 کے معاملہ کے مطابق ان دونوں خطوں میں فلسطینی اتھارٹی کی حکومت قائم ہونی تھی، مگر اسرائیل اس سمجھوتے سے لگاتار منحرف ہورہا ہے اور آج تک اس نے اکثر اس معاہدہ میں طے کئے گئے نکات پر عمل نہیں کیا ہے۔ جس کا سہرہ موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو اکثر لیتے رہے ہیں۔ غرب اردن کے ایک اہم شہر یروشلم جہاں پر بیت المقدس قائم ہے ایک ایسے انتظامی ڈھانچے کو وجوودمیں آنا ہے جس کا کنٹرول ایک آزاد انتظامیہ کے ہاتھ میں ہوگااور یروشلم کو مجوزہ فلسطینی ریاست کی راجدھانی بھی بنایا جانا ہے، مگراسرائیل کسی بھی طریقے سے اس خطے سے اپنی دستبرداری کے لئے تیار نہیں ہے۔ گزشتہ 30سال میں مشرق وسطیٰ میں جوبھی صورت حال پیش آئی ہے اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ اسرائیل نہیں چاہتا ہے کہ یہاں کوئی آزاد فلسطینی مملکت قائم ہوجائے۔ اس کو یہ لگتا ہے کہ کسی بھی متوازی ریاست کا قیام اس کے وجودکے لئے خطرہ ہوگا۔ ان خدشات کو بین الاقوامی برادری خاص طورپر امریکہ بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی جو مختلف اشکال نکل کر سامنے آئی ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ مجوزہ فلسطینی ریاست کا کوئی آزاد حفاظتی انتظامی ڈھانچہ یا وزارت دفاع نہیں ہوگی۔ اگر امریکہ اسی فارمولے پر عمل کرانے کی کوشش کر رہا ہے تو یہ فارمولہ اسی طرح بے اثر ہوگا جس طرح 1992-95کے دوران ہونے والا اوسلو معاہدہ تھا۔
بہرکیف آج کی صورت حال گزشتہ چار ماہ سے چلی آرہی صورت حال سے قدرے مختلف ہے اور غزہ میں قیام امن کی امیدیں پیدا ہوئی ہیں۔
٭٭٭
غزہ : جنگ بندی کس قیمت پر ہوگی؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS