غزہ معاہدہ امن کی کوششوں کے لیے اہم موقع: عادل عفان

0

عادل عفان

جنگ چاہے دنیا میں جہاں بھی ہو ، اس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کیے جاتے ہیں ۔ بلاشبہ مشرق وسطی میں ہونے والی جنگوں سے عالمی سطح پر گہرے اثرات مرتب ہو تے رہے ہیں۔اس ضمن میں غزہ کی داستانِ الم بھی انتہائی اندوہ ناک تھی ، اور آج بھی ہے ۔البتہ اسرائیل اور حماس کی جاری جنگ میں ایک نیا موڑ آیا ہے ۔ اس لیے سیاسی پنڈت تسلیم کرتے ہیں کہ آٹھ مہینے سے جاری جنگ میں امن معاہدہ کوئی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ حالیہ معاہدہ اسرائیل اور حماس دونوں کے لیے ایک اہم ہے۔ یہاں اس بات کی و ضاحت لازمی ہے کہ اس معاہدے میں قطر اور مصر کی مدد شامل ہے ۔ ان دونوں ممالک نے جنگ بندی اور معاملہ سازی میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اس معاہدے میں دونوں فریقوں نے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔ اس میں اسرائیل کی فوج کی غزہ سے واپسی، فلسطینی قیدیوں کی رہائی، اور یرغمالیوں کے تبادلے جیسے اہم نکات شامل ہیں۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان نکات پر چالیس فیصد بھی عمل ہوجائے تو غزہ کے حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔

ممالک کے درمیان معاہدات ہوتے رہتے ہیں ۔ اس کے کچھ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس معاہدے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ طویل عرصے سے جاری خونریزی کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ غزہ کی پٹی میں ہونے والی جنگ میں خواتین اور بچوں سمیت 46 ہزارسے زیادہ فلسطینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اتنا ہی نہیں بلکہ اس جنگ نے غزہ کے جغرافیہ کو بدل دیا ہے اور لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے ۔ اس معاہدے سے اس خونریزی کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور بے گھر افراد کو اپنے گھروں کو واپس جانے کا موقع مل سکتا ہے۔ گویا تپتی ہوئی صحرا میں یہ رم جھم برسات کے مانند ہے ۔

اس معاہدے کی رو سے اسرائیل اپنی فوجی کارروائیوں کو محدود کرے گا اور غزہ میں فلسطینیوں کی واپسی ممکن ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ، فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کے عمل کا آغاز ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ دونوں فریقین اپنے قیدیوں کے بدلے ایک دوسرے سے انسانی حسن سلوک کی توقع کر رہے ہیں، جو کہ ایک اہم اور نیک قدم ہے۔ اس فیصلے میں ایک طرح سے بقائے باہم معاملات پنہاں نظر آتے ہیں۔اس معاہدے میں اسرائیل کی جانب سے 2000 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی بات کی گئی ہے، جن میں سے 250 افراد ایسے ہیں جنہیں عمر بھر کی سزا دی گئی ہے۔ یہ ایک تاریخی قدم ہے کیونکہ فلسطینیوں کے لیے یہ ایک بڑا مسئلہ رہا ہے کہ ان کے لوگوں کو اسرائیلی جیلوں میں غیر قانونی طور پر قید کیا گیا ہے۔ اس کے بدلے اسرائیل 33 یرغمالیوں کی واپسی پر راضی ہو گا، جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل ہیں۔ یہ انسانی سطح پر ایک اہم قدم ہے جو دونوں طرف کے لوگوں کے لیے امید کی کرن بن سکتا ہے۔

غزہ میں جاری تباہی کے بعد تعمیر نو کی ضرورت ہے۔ معاہدے کے تحت 600 امدادی ٹرک روزانہ غزہ میں داخل ہو سکیں گے، جس سے وہاں کے لوگوں کو فوری امداد ملے گی۔ اس کے علاوہ، زخمی فلسطینیوں کے لیے طبی امداد کی فراہمی اور طبی امدادی کیمپوں کا قیام بھی اس معاہدے کا حصہ ہوگا۔اس معاہدے کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس سے غزہ میں آبادکاری اور تعمیر نو کے امکانات پیدا ہوں گے۔ قطر اور مصر نے اس کی نگرانی کرنے کی ذمہ داری لی ہے، اور عالمی برادری سے بھی امداد کی فراہمی کی امید کی جا رہی ہے۔ غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایک طویل مدتی منصوبہ تیار کیا جائے گا، جس میں عالمی ادارے اور امدادی تنظیمیں شریک ہوں گی۔اگرچہ یہ معاہدہ اسرائیل کے لیے فوری طور پر امن اور سکون کا پیغام لے کر آ رہا ہے، لیکن اسرائیل میں اس معاہدے کے حوالے سے تحفظات بھی موجود ہیں۔ اسرائیلی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں اسرائیل کو اپنی فوجی حکمت عملی میں کمی کرنے کی قیمت پر یہ جنگ بندی قبول کرنی پڑی ہے۔ اسرائیل کے بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے ذریعہ غزہ میں اسرائیل کی فوجی موجودگی میں کمی آنا اس کیلئے ایک مشکل فیصلہ ہو سکتا ہے، کیونکہ اس سے اسرائیل کی قومی سلامتی پر اثر پڑ سکتا ہے۔

اس ضمن میں ایک سوال بہت ہی واضح طور پر سامنے آتا ہے ۔ کیا یہ حماس کی سیاسی فتح ہے ؟ حماس کے ترجمان نے کہا کہ یہ معاہدہ ان کے لیے ایک جیت ہے، کیونکہ اس میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی شامل ہے، جو فلسطینی عوام کے لیے اہم فتوحات ہیں۔حماس کے اس موقف کو کچھ حلقے اسرائیل کے لیے ایک شکست کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسرائیلی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حماس کے لیے یہ معاہدہ ایک بڑی سیاسی کامیابی ہے، جو اس کے اندرونی سطح پر عوامی حمایت کو بڑھا سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حماس اس معاہدے کو اپنے رہنماؤں کی مقبولیت بڑھانے کے لیے استعمال کرے گا۔

امریکہ نے بھی اس معاہدے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس کی کامیابی میں ایک اہم معاون ثابت ہوا ہے۔ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اس معاہدے کو ایک کامیاب سفارتی کوشش قرار دیا ہے، جو خطے میں امن کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ تاہم، عالمی برادری کو اس معاہدے کے حوالے سے یہ بھی خبردار کیا جا رہا ہے کہ اس معاہدے کا کامیاب نفاذ بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر یہ معاہدہ صرف ایک عارضی وقفہ ثابت ہو سکتا ہے۔

اس معاہدے کو عارضی امن کا ایک قدم کہا جا سکتا ہے، لیکن اس کے طویل المدتی اثرات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان کی جنگی تاریخ اور دونوں کے درمیان اعتماد کی کمی اس معاہدے کی پائیداری کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو سکتی ہے۔ تاہم، اس معاہدے کی موجودگی خطے میں امن کی کوششوں کے لیے ایک اہم موقع ہے، جس کا کامیاب نفاذ مستقبل میں مزید مذاکرات اور امن کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔

یہ معاہدہ دونوں فریقوں کے لیے ایک نیا موقع فراہم کرتا ہے، لیکن اس کی کامیابی کی بنیاد اس بات پر ہے کہ آیا دونوں فریقین اس پر قائم رہنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ اس کے علاوہ، عالمی برادری کا کردار بھی اس معاہدے کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہوگا۔ غزہ کے متاثرین کے لیے یہ ایک اہم موقع ہے، اور اگر یہ معاہدہ کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ مشرق وسطیٰ میں امن کی راہ میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔

ان حقائق اور تجزیاتی عوامل سے کئی پہلو سامنے آتے ہیں ۔ پہلی بات یہ ہے کہ دو اسلامی ممالک نے پیش رفت کی تو اتنا بڑا معاہدہ ہمارے سامنے آیا ہے ۔ قطر اور مصر نے جو کردار ادا کیا ، وہ واقعی قابل قدر ہے ۔ یہاں سے یہ بھی نتیجہ نکالاجاسکتا ہے کہ اگر کسی بھی سلگتے مسئلے پر دنیا بھر کے چند اسلامی ممالک ایک فلیٹ فارم پر آجائیں تو خوش کن نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بلاشبہ اس میں حماس کے لیے خوشی کا پہلو شامل ہے مگر حماس کو خود اپنی پیٹھ نہیں تھپتھپانی چاہیے ،بلکہ ان ممالک کو ہیروکے طور پر پیش کرنا چاہیے جنھوں نے اس معاہدے کے لیے پیش قدمی کی اور راہ ہموار کی۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ آئندہ دوسرے ممالک بھی ثالثی کے طور پر دو ممالک کے نزاع کو حل کرانے کی کوشش کریں گے ۔ اس لیے کریڈٹ مصر اور قظر کو جاناچاہئے۔اس کے علاوہ ٹرمپ اور بائیڈن بھی اس فیصلے میں اپنا ہاتھ ثابت کرنے پر تلے ہیں ، حالا نکہ غزہ میں ہونے والی بمباری میں ان کا کیا کردار ہے ، دنیا اچھی طرح جانتی ہے ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS