مطیع الرحمٰن عوف ندوی
جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے، تاریخ انسانی نے بے پناہ ہلاکتیں دیکھی ہیں۔ زلزلے سے آنے والی تباہی اور اس کے نتیجے میں بے شمار اموات کا مشاہدہ کیا ہے۔ خانہ جنگی اور بیرونی حملوں سے ملکوں اور قوموں کو تاراج ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں کی لاشوں کے ڈھیر دیکھے ہیں۔ سنامی، طوفانوں اور وباؤں میں انسانی جان کا ناقابل بیان زیاں دیکھا ہے۔ قحط، بھکمری اور اموات کا لامتناہی سلسلہ دیکھا ہے۔ ملکوں کو تقسیم ہوتے اور قوموں کو بٹتے ہوئے دیکھا ہے، خونریزی کے واقعات کا سامنا کیا ہے۔ چنگیز خاں، ہلاکو اور ہٹلر کی داستان خونچکاں کو صفحۂ ہستی پر رقم ہوتے دیکھا ہے لیکن موجودہ وقت میں غزہ کی صورت حال ان تمام واردات و مشاہدات سے کہیں زیادہ اندوہناک اور ہولناک ہے۔
غزہ کی موجودہ کرب ناک صورت حال کے جائزے سے قبل ہم اس حقوق انسانی کے منشور کا مختصراً حوالہ دینا چاہتے ہیں جس کو دوسری جنگ عظیم کے بعد 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ذریعے منظور کیا گیا، انسانی حقوق کا یہ آفاقی منشوراقوام متحدہ کی تصدیق شدہ دستاویز اور قرار داد ہے جو 10 دسمبر، 1948 کو پیرس کے مقام پر منظور کی گئی۔ اس قرار داد کے دنیا بھر میں تقریباً 375 زبانوں میں ترجمے ہوئے۔ اس کی رو سے دنیا بھر میں پہلی بار ان تمام انسانی حقوق کے بارے میں اتفاق رائے کیا گیا جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور بلا امتیاز ہر انسان کو فراہم کیے جانے چاہئیں۔ اس قرارداد میں کل 30 شقیں شامل کی گئی ہیں جن میں ہم اس موقع پر موضوع سے متعلق محض چند شقوں کو پیش کرنا چاہیں گے، وہ درج ذیل ہیں:
دفعہ (1): تمام انسان آزاد اور حقوق و عزت کے اعتبار سے برابر پیدا ہوتے ہیں انہیں ضمیر اور عقل ودیعت ہوتی ہے، اس لیے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کا سلوک کرنا چاہیے۔
دفعہ (2): ہر شخص ان تمام آزادیوں اور حقوق کا مستحق ہے جو اس اعلان میں بیان کیے گئے ہیں اور اس حق پر نسل، رنگ، جنس، زبان، مذہب اور سیاسی تفریق کا یا کسی قسم کے عقیدے، قوم، معاشرے، دولت یا خاندانی حیثیت وغیرہ کا کوئی اثر نہ پڑے گا۔
اس کے علاوہ جس علاقے یا ملک سے جو شخص تعلق رکھتا ہے، اس کی سیاسی کیفیت، دائرۂ اختیار یا بین الاقوامی حیثیت کی بنا پر اس سے کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا، چاہے وہ ملک یا علاقہ آزاد ہو یا تولیتی ہو یا غیر مختار ہو یا سیاسی اقتدار کے لحاظ سے کسی دوسری بندش کا پابند ہو۔
دفعہ (3): ہر شخص کو اپنی جان، آزادی اور ذاتی تحفظ کا حق ہے۔
دفعہ (5): کسی شخص کو جسمانی اذیت یا ظالمانہ، انسانیت سوز یا ذلیل سلوک یا سزا نہیں دی جائے گی۔
دفعہ (13): (1) ہر شخص کا حق ہے کہ اسے ریاست کی حدود کے اندر نقل و حرکت کرنے اور سکونت اختیار کرنے کی آزادی ہو۔
(2) ہر شخص کو اس بات کا حق ہے کہ وہ ملک سے چلا جائے، چاہے یہ ملک اس کا اپنا ہو، اور اسی طرح اسے ملک میں واپس آنے کا بھی حق ہے۔
دفعہ (25): (1) ہر شخص کو اپنی اور اپنے اہل و عیال کی صحت اور فلاح و بہبود کے لیے مناسب معیار زندگی کا حق ہے جس میں خوراک، پوشاک، مکان اور علاج کی سہولتیں اور دوسری ضروری معاشرتی مراعات شامل ہیں اور بے روزگاری، بیماری، معذوری، بیوگی، بڑھاپا یا ان حالات میں روزگار سے محرومی جو اس کے قبضہ قدرت سے باہر ہو کے خلاف تحفظ کا حق ہے۔ اب غزہ کی صورت حال پر نظر ڈالتے ہیں۔
جون 2007 میں حماس کے فلسطین پر کنڑول کے بعد مصر اور اسرائیل کے ذریعے غزہ کے محاصرے کا آغاز ہوا اور اسرائیل نے غزہ میں زمینی، فضائی اور بحری محاصرہ نافذ کر دیا۔ مصر نے بھی رفح کراسنگ پر سخت پابندیاں لگا دیں۔ یہ غزہ کے لوگوں کی آمد و رفت، تجارتی سامان، ادویات، ایندھن اور دیگر ضروری اشیا کی قلت کا سبب بنا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ محاصرہ حماس کو ہتھیاروں کی ترسیل سے روکنے کے لیے ہے جبکہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اسے اجتماعی سزا قرار دیتی ہیں۔
اس محاصرے کے نتیجے میں غزہ دواؤں، غذا اور ضروریات زندگی کی اشیا کی قلت کا سامنا کرنے لگا اور وہاں کی زندگی اسرائیل و مصر کی اس غیر انسانی حرکت کی وجہ سے مشکل ہو گئی۔
اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے کے بعد اسرائیل نے مکمل ناکہ بندی کا اعلان کیا، جس میں پانی، بجلی، خوراک، ادویات کی فراہمی بند کر دی گئی۔ زمینی حملے اور شدید فضائی بمباری بھی جاری رہی۔
فلسطین کے عوام کو ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل کیا جاتا اور پھر ان پر فضائی حملے کرکے ان میں بوڑھوں، بچوں، خواتین اور مردوں کو شہید کیا جاتا رہا۔ نہ ان کے خیموں کو چھوڑا گیا، نہ ہسپتالوں اور اسکولوں کو۔ ظلم کے ایسے پہاڑ توڑے گئے کہ بس خدا کی پناہ لیکن نہ انسانی حقوق کی علم بردار تنظیمیں اسرائیل کو اس ظلم سے روک سکیں اور نہ اقوام متحدہ کا منشوران کے حقوق کی پاسداری کرسکا۔ عالمی عدالت نے 21 نومبر، 2024 کو بنیامن نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر دفاع کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری کیے۔ آئی سی سی رکن ممالک کو حکم ملا کہ اگر نیتن یاہو ان کے ملک میں داخل ہوں تو ان کو گرفتار کرلیا جائے لیکن گرفتاری روبہ عمل نہ ہوئی۔ ابھی یہ وارنٹ برقرار ہے اور گرفتاری کے عمل کا منتظر ہے۔
درمیان میں 60 دن کی جنگ بندی ہوئی۔ 19 جنوری، 2025 کو اسے تین مرحلوں میں تقسیم کیا گیا-پہلا مرحلہ 42 دن، پھر دوسرا مرحلہ اور تیسرا مرحلہ لیکن قیدیوںکی رہائی کے بعد اسرائیل نے خلاف ورزی کی اور جنگ پھر شروع ہوگئی۔ 18 مارچ کو اس جنگ بندی کا اختتام ہوا۔
اسرائیل نے اس پوری مدت میں نمایاں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا۔ عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ ان کے گھروں کو مسمار کیا۔ مساجد، اسکولوں اور اسپتالوں پر بمباری کی۔ بچوں، خواتین اور بزرگوں کو ہلاک کیا۔ پورے خطے کو ویران کردیا۔ خیموں میں پناہ گزینوں پر حملے کیے۔ امداد کے تمام راستے بند کردیے۔ خود اسرائیل نے امداد کے نام نہاد عنوان سے Gaza Humanitarian Foundation فروری 2025 میں قائم کیا جس کو امریکی مؤسسۃ برائے امداد ظاہر کیا گیا۔ اس مؤسسۃ کی نگرانی میں ’امداد تقسیم مراکز‘ کے دوران فلسطینی شہریوں پر گولیاں چلنے کے واقعات پیش آئے جن پر عالمی سطح پر سخت تنقید کی گئی۔ یہ واقعہ عالمی میڈیا میں ’آٹے کے قتل عام‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس سے زیادہ شرمناک اور کیا ہو سکتا ہے کہ امداد کے منتظر قافلے پر گولیاں برسادی جائیں اور آٹے کے بجائے خود ان کو لقمہ اجل بنا دیا جائے۔
الغرض اسرائیل، امریکہ کی پشت پناہی سے آج اہل غزہ کی بھوک اور ادویات کے نہ ہونے سے اموات کا مجرم ہے۔ روزانہ سیکڑوں ہلاکتیں بھوک کی وجہ سے واقع ہو رہی ہیں۔ بچوں کی پسلیاں نمایاں ہونے اور ان کو دودھ اور غذا فراہم نہ ہونے کی افسوسناک تصویریں میڈیا میں وائرل ہو رہی ہیں۔ پوری انسانیت بے بس ہے۔ سیکڑوں ممالک کے حکمرانوں نے اس صورت حال کی مذمت کی ہے لیکن بے سود، عام انسان اپنی امداد ان ضرورت مندوں لوگوں تک پہنچانے سے قاصر ہے۔
مصر کے سمندر میں بوتلوں کے ذریعے آٹا بھیجنے کی تصویریں بے حس انسانیت کو بطور خاص مصلحت کوش عرب حکمرانوں کی خاموشی اور بے بسی کو چیلنج کر رہی ہیں۔ دنیا ظلم کی تاریخ سے خالی نہیں رہی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ چنگیز، ہلاکو اور ہٹلر کو دنیا ایک ظالم کے لقب سے یاد کرتی ہے لیکن غزہ کو تباہ کردینے کے ذمہ دار لیڈران نوبل امن پرائز کے حصول کے بہت قریب نظر آرہے ہیں۔
یوروپ اپنی پالیسیوں کی وجہ سے اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیوں پر خاموش تماشائی ہے۔ فرانس کے صدر ایمینوئل میکروں نے ستمبر تک فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دیکھئے، ستمبر تک صورت حال کیا رہتی ہے۔
درپردہ یوروپ چاہتا ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں مسلط رہے تاکہ عرب حکمرانوں پر لگام لگائی جاسکے، نیز امریکہ بھی اپنے مخصوص مقاصد کے پیش نظر ہمیشہ اسرائیل کا دفاع کرتا رہا ہے۔ اسرائیل جب چاہتا ہے، جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بڑے بڑے سیائی قائدین پر حملہ کرکے انہیں ختم کر دیتا ہے، خواہ وہ اسمٰعیل ہنیہ ہوں یا حسن نصراﷲ۔ اب وہ شام کا رخ کرچکا ہے اور وہاں کی سیاسی بساط الٹنے کے لیے کوشاں ہے۔ جو ممالک کسی مصلحت کوشی کی وجہ سے چپی سادھے ہوئے ہیں، کیا ان کی خاموشی خود انہیں محفوظ رہنے دے گی؟ ہرگز نہیں! مفکر اسلام حضرت مولانا سیّدابوالحسن علی ندویؒ اپنی تقریروں میں کہا کرتے تھے کہ کوئی ملک بدعنوانی کے ساتھ باقی رہ سکتا ہے لیکن ظلم کے ساتھ باقی نہیں رہ سکتا۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کو اسرائیل کے ظلم و جور سے نجات عطا فرمائے اور ہر شر سے ان کی حفاظت فرمائے۔
rahmanauf@gmail.com