پنکج چترویدی
کبھی کانپور کے چمڑا کارخانے وہاں کی شان ہوا کرتے تھے، آج یہی یہاں کی زندگی کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔۔۔۔ ایک طرف نمامی گنگے کی دمکتی تشہیر ہے تو سامنے رانیہ، کانپور دیہات اور راکھی منڈی، کانپور شہر وغیرہ میں گنگا میں گندگی کے طور پر ملنے والے کرومیم کی دہشت ہے۔ وہ تو بھلا ہو این جی ٹی کا جو کرومیم کچرے کو نمٹانے کے لیے حکومت کو متحرک کیے ہوئے ہے۔ حکومتی اندازے کے مطابق ان علاقوں میں گنگا کنارے 1976 سے اب تک تقریباً 122800 کیوبک میٹر کرومیم کچرا جمع ہے۔ خیال رہے کہ کرومیم گیارہ سو سینٹی گریڈ سے زیادہ درجۂ حرارت پر پگھلنے والی دھات ہے اور اس کا استعمال چمڑے، اسٹیل، لکڑی اور پینٹ کی فیکٹریوں میں ہوتا ہے۔ یہ کچرا پانچ دہائیوں سے یہاں کی زمین اور زیر زمین پانی کو زہریلا بناتا رہا اور حکومتیں کبھی جرمانہ تو کبھی نوٹس دے کر رسمی کارروائیاں پوری کرتی رہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ ہماچل سے پاون ہارا کے روپ میں نکلنے والی گنگا کانپور آتے آتے کراہنے لگتی ہے، سرکاری مشینری اس میں آلودگی کنٹرول کرنے والے پلانٹ لگانے پر خرچ کرتی ہے جبکہ حقیقت میں اس کے کناروں پر کم کچرا پیدا کرنے کی بات ہونی چاہیے۔
سال2021کی ایک ریسرچ بتاتی ہے کہ کانپور میں پرمٹ سے آگے گنگا کا پانی زیادہ زہریلا ہے۔ اس میں نہ صرف کرومیم کی مقدار 200 گنا سے زیادہ ہے، بلکہ پی ایچ بھی بہت زیادہ ہے۔ یہ پانی صرف انسانی جسم کو ہی نہیں بلکہ جانوروں اور فصلوں کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔ یہ بات چھترپتی شاہو جی مہاراج یونیورسٹی کے بایو سائنس اینڈ بایو ٹیکنالوجی ڈپارٹمنٹ، بی ایس بی ٹی محکمہ کی جانب سے کی گئی تحقیق میں سامنے آئی ہے۔ شعبے کے طلبا اور اساتذہ نے نو گھاٹوں پر جاکر گنگا کے پانی کے نمونے لیے۔ ان کی جانچ کے بعد ٹیم نے ایک رپورٹ تیار کی ہے جو کافی حیران کردینے والی ہے۔ قنوج کے آگے گنگا کا پانی بہت زیادہ مہلک نہیں ہے، لیکن پرمٹ گھاٹ کے آگے اچانک آلودگی اور کیمیکل کی مقدار بڑھتی جا رہی ہے۔
مارچ 2022 میں کانپور کے ڈویژنل کمشنر کے ذریعے تشکیل دی گئی ایک سرکاری کمیٹی نے قبول کیا کہ پرمیا نالے سے روزانہ 30 سے 40 لاکھ لیٹر، پرمٹ نالے سے 20 لاکھ اور رانی گھاٹ نالے سے 10 لاکھ لیٹر آلودہ کچرا راست گنگا میں جا رہا ہے۔ کانپور میں گنگا کے کنارے کل 18 نالے ہیں۔ ان میں سے 13 نالوں کو کافی عرصے پہلے ٹیپ کیے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اکثر یہ نالے اوور فلو ہوکر گنگا کو گندگی سے بھر رہے ہیں۔ ٹیپ نالوں میں ایئر فورس ڈرین، پرمیا نالا، واجد پور نالا، ڈبکا نالا، بنگالی گھاٹ نالا، بڑھیا گھاٹ نالا، گپتار گھاٹ نالا، سیسامئو نالا، ٹیفکو نالا، پرمٹ ڈرین، میور مل ڈرین، پولیس لائن ڈرین اور جیل ڈرین شامل ہیں۔ بنا ٹیپ کیے گئے نالوں میں رانی گھاٹ ڈرین، گولا گھاٹ نالا، ستی چورا نالا، میسکر اور رامیشور نالا شامل ہیں۔
کرومیم کی حد سے زیادہ مقدار سے جاجمؤ اور واجد پور میں خوفناک حالات پیدا ہو گئے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق پانی میں کرومیم کی مقدار0.05 ہونی چاہیے۔ قنوج سے لے کر گنگا بیراج تک صورت حال تقریباً معمول پر ہے مگرجاجمؤ اور واجدپور میں اچانک کرومیم کی مقدار خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ 85 دیہاتوں کے تقریباً پانچ لاکھ لوگوں کی زندگیوں میں زہر گھول دیا ہے۔ کسی خاندان میں گود سونی ہے توکسی کی کوکھ سے پیدا ہونے والا نومولود ذہنی اور جسمانی طور پر معذور ہے۔ اس کے علاوہ زمینی پانی میں کرومیم کی موجودگی نے سیکڑوں لوگوں کو کینسر کی سوغات بانٹی ہے۔ کرومیم سے بھرپور پانی نے زمین کو بھی بنجر بنا دیا ہے۔ علاقے میں پیداوار گھٹ گئی ہے اور فصل بھی پکنے سے پہلے مرجھانے لگتی ہے۔
جاجمؤ علاقے کے شیخ پور، واجد پور، پیوندی، جانا، علولاپور جیسے کئی گاؤں ہیں، جہاں کسی عورت کے حاملہ ہونے پر خوشی سے زیادہ تناؤ ہوتا ہے۔ چونکہ یہاں ٹینریوں نے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے ذریعے پانی صاف کرنے کے بجائے کرومیم سے بھرپور پانی کو راست دریائے گنگا میں بہایا ہے۔ سختی کی گئی تو زیادہ تر ٹینریوں نے ریورس بورنگ کے ذریعے زیر زمین پانی میں آلودہ پانی ملانا شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں گنگا کے کنارے تین سے چار کلومیٹر کے دائرے میں زیر زمین پانی میں کرومیم کی مقدار خطرناک سطح تک پہنچ گئی۔ ایک درجن گاوؤںمیں حکومت نے زیر زمین پانی کو پینے کے پانی کے طور پر استعمال کرنے پر پابندی بھی عائد کر رکھی ہے۔ پانی کا کوئی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے دیہاتی زیر زمین پانی کا استعمال کرنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے بچوں کے معذور پیدا ہونے کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔
اناؤ ضلع میں گنگا کٹری میں واقع کالوکھیڑا، تریبھون کھیڑا، بندی پروا، لکھا پورہ جیسے ایک درجن گاوؤں میں کینسر کے درجنوں مریض ہیں۔ جب یہ معلوم ہوا کہ کینسر کے زیادہ تر مریض تمباکو یا سگریٹ نوشی کرتے ہی نہیں ہیں تو تین سال قبل ریاستی حکومت نے مطالعہ کرایا۔ معلوم ہوا کہ کینسر پھیلنے کی اصل وجہ زمینی پانی میں موجود کرومیم ہے۔ گنگا کے کنارے آباد 85 گاوؤں میں زیر زمین پانی میں کرومیم کی موجودگی نے فصلوں کو بھی برباد کر دیا ہے۔ ٹیوب ویل سے آبپاشی کرنے پرفصل جھلس جاتی ہے۔
گنگا کا مسئلہ صرف پانی اور گندگی یا کیمیکلز کی آمیزش سے پانی کے معیار کا خراب ہونا نہیں ہے-آب و ہوا میں تبدیلی کے دور میں بن موسم برسات اور جنگلات کی کٹائی اور شہرکاری کی وجہ سے یہ بار بار اپنا راستہ بدل رہی ہے۔ اس کے کناروں پر کٹاؤ بڑھ رہا ہے، اس کا حیاتیاتی سرمایہ ختم ہو رہا ہے۔ آج گنگا کو دنیا کے آلودہ ترین دریاؤں میں چھٹے نمبر پر رکھا گیا ہے۔
گنگا کے کنارے کھیتوں کو زیادہ غذائی اجناس اگانے کا چسکا لگا ہے اور اس کے لیے زہریلے کیمیکل کو زمین میں جھونکا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دریا کے کنارے ہر سال تقریباً 100 لاکھ ٹن کھاد کا استعمال ہوتا ہے، جس میں سے 5 لاکھ ٹن بہہ کر گنگا میں مل جاتا ہے۔ 1500 ٹن کیڑے مار دوا بھی شامل ہوتی ہے۔ سیکڑوں ٹن کیمیکلز، فیکٹریاں، ٹیکسٹائل ملس، ڈسٹلریوں، چمڑے کی صنعتیں، ذبیحہ خانوں، اسپتالوں اور دیگر سیکڑوں فیکٹریوں کی آلودگی گنگا میں ملتی ہے۔ 400 کروڑ لیٹر خام گندگی، 900 کروڑ لیٹر گندا پانی گنگا میں مل جاتا ہے۔ شہروں اور انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی آلودگی، نہانے دھونے، پوجا کے سامان، مورتیوں کے وِسرجن اور آخری رسومات سے نکلنے والی آلودگی گنگا میں جذب ہو جاتی ہے۔ بھارت میں گنگا کے کنارے پر واقع سیکڑوں شہروں کی 1100 کروڑ لیٹر گندگی روزانہ گنگا میں گرتی ہے۔ اس کے کتنے حصے پر تحقیق کی گئی ہوگی، کوئی مصدقہ معلومات موجود نہیں ہے۔
گنگا میں صنعتوں سے 80 فیصد، شہروں سے 15 فیصد اور آبادی، سیاحت اور مذہبی رسومات سے 5 فیصد آلودگی ہوتی ہے۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ سیاحت، شہرکاری اور صنعتوں کی ترقی سے آلودگی کی سطح آٹھ گنا بڑھ گئی ہے۔ ایسا گزشتہ چالیس برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ رشی کیش سے گنگا پہاڑوں سے اتر کر میدانی علاقوں میں آتی ہے، اسی کے ساتھ گنگا میں آلودگی شروع ہو جاتی ہے۔ مذہب، سیاحت، پوجاپاٹھ، موکش اور مکتی ( نجات) کے تصور نے گنگا کو آلودہ کرنا شروع کیا، ہری دوار سے پہلے گنگا کا پانی نچلی گنگا کی نہر میں بھیج کر اتر پردیش کو سینچتا ہے۔ نرورا کے نیوکلیئر پلانٹ سے گنگا کے پانی کا استعمال اور تابکاری کے خطرات سنگین ہیں۔ آلودگی اپنے نقطۂ عروج پر کانپور میں پہنچ جاتی ہے، چمڑے کو صاف کرنا اور اس سے پیدا ہونے والی آلودگی سب سے زیادہ سنگین ہے۔ اس پورے علاقے میں گنگا کے پانی کے ساتھ ساتھ زیر زمین پانی بھی بری طرح آلودہ ہے۔
[email protected]