نئی دہلی،(یو این آئی)بابائے قوم مہاتما گاندھی کے پڑ پوتے اور رائٹر تشار گاندھی کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاست میں باپو اور سردار پٹیل کے احترام کے نام پر منصوبے شروع کرنے اور مجسمے نصب کرنے کا کام علامتی سیاست کا حصہ ہے اور لیڈران اب صرف اپنے سیاسی استعمال کے لیے انہیں یاد کرتے ہیں۔
تشار گاندھی نے کہا کہ دونوں عظیم ہستیوں کے نظریات اور راستے پر چلنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ انہوں نے یو این آئی سے خاص بات چیت کے دوران اس سوال پر کہ کیا مہاتما گاندھی کے قتل سے پہلے ان کی سیکورٹی میں چوک کے لیے اس وقت کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کو ذمہ دار گردانتے ہیں،انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ باپو کی سیکورٹی میں چوک ہوئی ہے۔ اگرچہ اس کے لیے سیکورٹی سے جڑے پولس اہلکار اور دوسرے افراد براہ راست طور پر ذمہ دار ہیں لیکن سردار پٹیل اس وقت مرکزی وزیر داخلہ تھے تو قیادت کی ذمہ داری کے تناظر میں ان پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے۔ اتوار کو دیش بھارت رتن سردار ولبھ بھائی پٹیل کا یوم پیدائش ہے۔
تشار گاندھی نے حال ہی میں احمد آباد کے سابرمتی آشرم کی تجدید نو کے لیے حکومت کی 1200 کروڑ روپے کے منصوبے کے خلاف گجرات ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی ہے اور اس پر روک لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ تشار گاندھی دلیل دیتے ہیں کہ سابرمتی آشرم گاندھی کی سادگی اور نظریات کا مظہر ہے اور دنیا بھر سے لوگ اسے دیکھنے اور محسوس کرنے آتے ہیں۔ اگر اسے سیاحتی مقام میں اپگریڈ کیا اور تجدید کاری کی گئی تو اس مقام کی اہمیت کی ختم ہوجائے گی۔
مہاتما گاندھی کے پڑپوتے نے کہا کہ اصولاً یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ باپو سے جڑے مقامات یا میموریلز میں حکومت کا کوئی براہ راست دخل نہیں ہوگا۔ بعد میں ضرورت کے لیے سرکاری پیسے کے استعمال کو منظوری تو دی گئی لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ صرف عطیہ دہندہ کے طورپر رہے گی۔ اختیارات کے رول میں نہیں ہوگی۔ لیکن سابر متی کی تجدید نو کے پروگرام میں حکومت ہی سارے فیصلے کررہی ہے اور دکھاوے کے طورپر جو آپریشن کونسل اور ورکنگ کونسل بنائی گئی ہے اس میں صرف دو چار گاندھی وادیوں کو رکھا گیا ہے وہ بھی صرف مشیر کے طورپر۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس آشرم میں تبدیلی کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔حکومت پیسہ صرف اس لیے خرچ کررہی ہے تاکہ وہ عوام کے بتاسکے کہ وہ گاندھی جی کی کتنی بڑی خیر خواہ ہے۔
مہاتما گاندھی کی صلاح پر دامودر داس ساورکر کے معافی نامہ سے جڑے تنازع پر تشار گاندھی نے کہا کہ مجھے ساورکر کے معافی نامہ میں کوئی اعتراض نہیں ہے، کیوں کہ وہ ان کا قانونی حق تھا لیکن جہاں تک سوال گاندھی جی کے مشورے کا ہے تو ساورکر نے تو معافی 1911 اور 1913 میں مانگی تھی اور اس وقت تک گاندھی جی ہندستان آئے بھی نہیں تھے۔ وہ جنوبی افریقہ میں لڑائی لڑرہے تھے۔
غور طلب ہے کہ بھارتیہ جنتاپارٹی کے سابق صدر اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے حال ہی میں ایک کتاب کے اجرا کے موقع پر کہا تھا کہ ساورکر نے مہاتما گاندھی کے مشورے پر انگریز حکومت کو معافی نامہ دیا تھا۔اس پروگرام میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سر سنگھ چالک موہن بھاگوت بھی موجود تھے۔اس سوال پر کہ اتنے طویل عرصے تک انڈمان جیل میں رہنے والے ساورکر کو کیا آپ مجاہد آزادی تسلیم نہیں کرتے، تشار گاندھی نے کہا کہ ساورکر کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔ پہلا جب وہ جیل میں تھے۔ اس دور میں انہیں مجاہد آزادی تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن فرد کی جانچ صرف جدوجہد سے ہی نہیں بلکہ آخر میں اس کی منزل تک پہنچے میں ہوتی ہے۔ ساورکر نے معافی مانگنے کے بعد کبھی بھی آزادی کی جنگ میں حصہ نہیں لیا بلکہ اس کے برعکس انہوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا۔
ساورکر کو بھارت رتن دینے کی مانگ پر تشار گاندھی نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ساورکر کے ساتھ ناتھو رام گوڈسے کو بھی بھارت رتن سے نوازنا چاہئے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ وہ ساورکر کو بھارت رتن دے سکتی ہے۔ لیکن میرے بھارت کے حصے میں وہ بھارت رتن تسلیم نہیں کیے جائیں گے۔کیوں کہ انہیں باپو کے قتل کے الزامات کے دائرے میں رکھا جاتا ہے اور یاد رکھئے کہ عدالت نے ساورکر کو باعزت بری نہیں کیا تھا بلکہ ثبوت کے فقدان کے سبب رہا کیا تھا۔
اس سوال پر کہ اس وقت تو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یا بی جے پی یا جن سنگھ کی حکومت نہیں تھی بلکہ کانگریس کی حکومت تھی پھر جانچ اور نظم ونسق پر بھروسہ کیوں نہیں کیا جانا چاہئے۔ تشار گاندھی نے کہا کہ اس وقت ہندستان میں تقسیم کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف کافی اشتعال تھا۔ اس لیے شاید اس وقت کے لیڈروں نے سیاسی طورپر یہ مناسب سمجھا ہوگا کہ ساورکر یا ایسی نظریات کے لوگوں پر شکنجہ کس کر ہندوؤں ناراض نہیں کیا جائے۔
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS