نئی دہلی، (یو این آئی) وزیر اعظم نریندر مودی نے آج کہا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد تخلیق کردہ عالمی نظام اپنے مقاصد میں ناکام ہوگیا ہے اور اس کی ناکامی کے المناک نتائج سب سے زیادہ ترقی پذیر ممالک کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
مسٹرمودی نے جی 20 وزرائے خارجہ کانفرنس کے آغاز کے موقع پر اپنے ویڈیو پیغام میں مہمان وزرائے خارجہ پر زور دیا کہ وہ ہندوستان کی تہذیبی اخلاقیات سے تحریک لیں اور ترقی پذیر ممالک کی آوازوں کو سنیں اور اپنے اختلافات سے بالاتر ہو کر دنیا کو معاشی بحران سے نجات دلانے اورجوڑنے میں تعاون کریں۔
مسٹر مودی نے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے تمام جی20 رکن ممالک، بین الاقوامی تنظیموں اور خصوصی طور پر مدعو ممالک کے وزرائے خارجہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان نے جی20 صدارت کے لیے ‘ایک کرہ ارض، ایک خاندان، ایک مستقبل’ کے تھیم کا انتخاب کیا ہے۔ یہ مقصد کے اتحاد اور عمل کے اتحاد کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔ امید ہے کہ آپ کی آج کی ملاقات مشترکہ اور ٹھوس مقاصد کے حصول کے لیے اکٹھے ہونے کے جذبے کی عکاسی کرے گی۔
وزیر اعظم نے کہا، ’’ہم سب کو یہ قبول کرنا چاہیے کہ کثیرالجہتی آج بحران کا شکار ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد تخلیق کردہ عالمی طرز حکمرانی کا ڈھانچہ دو کاموں کو انجام دینے کے لئے تھا۔ سب سے پہلے، مسابقتی مفادات کو متوازن کرکے مستقبل کی جنگوں کو روکنا۔ دوسرا، مشترکہ دلچسپی کے امور پر بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا۔
انہوں نے کہا کہ “گزشتہ چند برسوں کا تجربہ – مالیاتی بحران، موسمیاتی تبدیلی، وبائی امراض، دہشت گردی اور جنگ – صاف ظاہر کرتا ہے کہ عالمی گورننس اپنے دونوں مینڈیٹ میں ناکام رہی ہے۔ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ اس ناکامی کے المناک نتائج سب سے زیادہ ترقی پذیر ممالک کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔
مسٹر مودی نے کہا کہ برسوں کی ترقی کے بعد، ہم آج پائیدار ترقی کے اہداف پر واپس جانے کے خطر ات کا شکار ہیں۔ بہت سے ترقی پذیر ممالک اپنے لوگوں کے لیے خوراک اور توانائی کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہوئے غیر پائیدار قرضوں کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ امیر ممالک کی وجہ سے گلوبل وارمنگ سے سب سے زیادہ متاثر بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی جی 20 صدارت نے گلوبل ساؤتھ کو آواز دینے کی کوشش کی ہے۔
وزیراعظم نے کہا، ’’کوئی بھی گروہ اپنے فیصلوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں کو سنے بغیر عالمی قیادت کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کہا، ’’آپ گہری عالمی تقسیم کے وقت مل رہے ہیں۔ بحیثیت وزرائے خارجہ، یہ فطری ہے کہ آپ کی بات چیت آج کے جغرافیائی سیاسی تناؤ سے متاثر ہوتی ہے۔ ان تناؤ کو کیسے حل کیا جانا چاہیے اس بارے میں ہم سب کے اپنے موقف اور اپنے نقطہ نظر ہیں۔ تاہم، دنیا کی سرکردہ معیشتوں کے طور پر، ہماری ان لوگوں کے لیے بھی ذمہ داری ہے جو اس کمرے میں نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا نمو کے چیلنجوں کو کم کرنے کے لیے جی 20 کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ترقی، اقتصادی لچک، آفات سے نمٹنے، مالی استحکام، بین الاقوامی جرائم، بدعنوانی، دہشت گردی نیز خوراک اور توانائی کے تحفظ، ان تمام شعبوں میں، جی20 کے پاس اتفاق رائے پیدا کرنے اور ٹھوس نتائج دینے کی صلاحیت ہے۔ ہمیں ان مسائل کی اجازت نہیں دینی چاہیے جو ہم مل کر حل نہیں کر سکتے بلکہ ہمیں ان مسائل کو اٹھانا چاہئے جنہیں ہم حل کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ آپ گاندھی اور بدھ کی سرزمین پر مل رہے ہیں، میں دعا کرتا ہوں کہ آپ ہندوستان کے تہذیبی اخلاق سے متاثر ہوں گے ۔ اس بات پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے نہیں جو ہمیں تقسیم کرتی ہے، بلکہ اس بات پر جو ہم سب کو متحد کرتی ہے۔
انہوں نے کہا، ’’حالیہ دنوں میں، ہم نے صدی کی سب سے زیادہ تباہ کن وبا دیکھی ہے۔ ہم نے قدرتی آفات میں ہزاروں جانیں ضائع ہونے کا مشاہدہ کیا ہے۔ ہم نے تناؤ کے وقت عالمی سپلائی چین کو ٹوٹتے دیکھا ہے۔ ہم نے مستحکم معیشتوں کو اچانک قرضوں اور مالیاتی بحران سے مغلوب ہوتے دیکھا ہے۔ یہ تجربات واضح طور پر ہمارے معاشروں، ہماری معیشتوں، ہمارے صحت کی دیکھ بھال کے نظاموں اور ہمارے بنیادی ڈھانچے میں لچک کی ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا، ’’جی20 کو ایک طرف ترقی اور کارکردگی اور دوسری طرف لچک کے درمیان صحیح توازن تلاش کرنے میں جی 20 کا اہم کردار ہے۔ ہم مل کر کام کر کے اس توازن کو زیادہ آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لیے آپ کی ملاقات اہم ہے۔
انہوں نے جی 20 کی اجتماعی حکمت اور صلاحیت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا، “مجھے یقین ہے کہ آج کا اجلاس پرجوش، جامع، عمل پر مبنی اور اختلافات سے بالاتر ہو گا۔”
وزیراعظم کے پیغام سے قبل جی ٹوئنٹی کے وزرائے خارجہ نے شام اور ترکی میں تباہ کن زلزلوں کے متاثرین کے لیے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ ملاقات میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن، روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف، چین کے نئے وزیر خارجہ چن گانگ، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، یورپی کمیشن وغیرہ کے نمائندے موجود تھے۔