پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ
گروپ آف سیون‘(G-7) کا 51واں سربراہ اجلاس، جو دنیا کی ترقی یافتہ معیشتوں اور جمہوریتوں کا ایک ایلیٹ گروپ ہے، 15-17 جون 2025کو کناناسکس، البرٹا، کناڈا میں منعقد ہوا۔
G-7سربراہ اجلاس ایک بین الاقوامی فورم ہے جس کے رکن ممالک ہیں: فرانس، ریاستہائے متحدہ امریکہ(USA)، برطانیہ، جرمنی، جاپان، اٹلی اور کناڈا(صدارت کے لحاظ سے)’یوروپی یونین‘(EU) اور جس کے رہنما سالانہ جمع ہوتے ہیں۔ اس اجلاس نے بین الاقوامی میڈیا کی توجہ مبذول کروائی۔ آخرکار اسرائیل-ایران تنازع کے پھوٹ پڑنے سے اس اجلاس پر اس کا اثرچھایا رہا۔ اس تنازع کی شدت کے باعث امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سربراہ اجلاس کے پہلے دن تک ہی اپنی شرکت کو محدود رکھا۔ اس دھچکے کے باوجود، جسے کچھ لوگوں نے بقیہ شرکا کے درمیان زیادہ واضح بات چیت کے موقع کے طور پر دیکھا، سمٹ نے بالآخر ایک ٹھوس نتیجہ نکالا۔ اگلے سالG-7کے صدر کے طور پر، جمہوریہ فرانس کے صدر ایمنوئل میکروں نے اعلان کیا ہے کہ اگلیG-7چوٹی کانفرنس 14سے 16جون 2026تک فرانس کے شہر ایوین میں ہوگی۔ وزیراعظم نریندر مودی نے G-7چوٹی کانفرنس کے دوران کناڈا کے وزیراعظم مارک کارنی سے ملاقات کی۔ ان دونوں لیڈروں نے ہندوستان اور کناڈا کے درمیان سفارتی تعلقات کو دوبارہ قائم کرنے کا ایک اہم فیصلہ کیا ہے۔ بھارت پر کناڈا میں کچھ خالصتانی سکھوں کو قتل کرنے کا الزام تھا، جس کی وجہ سے جسٹن ٹروڈو حکومت نے بھارت میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا۔ اس اہم فیصلے میں وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر اور خارجہ سکریٹری وکرم مصری نے قابل ستائش کردار ادا کیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج بیشتر کثیرالجہتی ادارے بین الاقوامی تعلقات کی سمت کا تعین کرنے کی اپنی اہمیت اور صلاحیت کھو چکے ہیں۔ بحر اوقیانوس سے بحرالکاہل کے خطے میں اقتصادی اور فوجی طاقت کی عالمی تبدیلی نےG-7کی اہمیت کو کم کر دیا ہے۔ امریکہ اور باقیG-7کے درمیان ٹرانس اٹلانٹک رِفٹ نے نئے چیلنجز پیدا کیے ہیں۔ اس نے واضح طور پر سربراہ اجلاس کے دستاویزات اور بات چیت کے نتائج کو متاثر کیا۔ پہلا نقصان یہ ہوا کہ پہلے سے طے شدہ مشترکہ اعلامیہ جو گزشتہG-7سربراہ اجلاسوں کی ایک خصوصیت تھی۔ صدراور میزبان کے طور پر، پی ایم مارک کارنی نے اس کا متن پڑھا اور اس سربراہ اجلاس کے لیے مشترکہ اعلامیہ کوامریکہ کے ساتھ ٹیرف، اقتصادی پالیسی، یوروپی سلامتی، یوکرین، علاقائی دعوے، غزہ اور ایران جیسے متعدد مسائل پر وسیع اختلافات کے پیش نظر ترک کرنے کا قبل ازوقت فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ صدر اجلاس کی بریفنگ کو سربراہ اجلاس کا ماحصل قرار دیا گیا۔ صدر اجلاس کی بریفنگ نے مالیاتی اور اقتصادی پالیسی کو مربوط کرنے، امن اور سلامتی کے مسائل سے نمٹنے اور عالمی چیلنجوں کا جواب دینے میں بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے ترقی یافتہ معیشتوں کے لیے ایک فورم کے طور پرG-7کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ سست ہوتی ہوئی بین الاقوامی معیشت سے نمٹنے کے لیے، انہوں نے ’’غیرمنصفانہ اور بازار کے لیے ناموافق پالیسیوں‘‘سے بچانے اور معدنی سپلائی کی اہم زنجیریں(chain)قائم کرنے کے لیے ضروری بات کی۔
یوکرین کے بارے میں ایک پیراگراف پر ہی مطمئن ہونا پڑا، کیونکہ امریکہ اور یوروپ کے اختلافات کے پیش نظر اس معاملے پر الگ بیان ممکن نہیں تھا۔ اسرائیل اور ایران کے درمیان حالیہ پیش رفت پر ایک الگ بیان(stand alone)جاری کیا گیا، جس میں اسرائیل کی سلامتی کے لیے گروپ کی حمایت کا اعادہ کیا گیا۔’’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘‘، پر زور دیا گیاکہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتا۔ نتیجے کے طور پرG-7نے ایرانی بحران کے حل پر زور دیا، جو غزہ میں جنگ بندی سمیت مشرق وسطیٰ میں دشمنی میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔ انڈو پیسیفک کے بارے میں صدر اجلاس کی بریفنگ کا پیراگراف واضح تھا، چین کے ساتھ تعمیری اور مستحکم تعلقات میں توازن قائم کرتے ہوئے اسے ’’مارکیٹ کے بگاڑ اور نقصان دہ گنجائش‘‘سے باز رہنے کا مطالبہ کیا۔ اراکین نے آبنائے تائیوان میں امن برقرار رکھنے کی اہمیت کے ساتھ ساتھ مشرقی اور جنوبی بحیرہ چین میں ’’چین کی طرف سے عدم استحکام کی سرگرمیوں‘‘ پر تشویش کا اظہار کیا۔G-7نے ’’آؤٹ ریچ سیشن‘‘میں جنوبی افریقہ، برازیل، میکسیکو، جنوبی کوریا، بھارت، آسٹریلیا کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اور ورلڈ بینک کے صدر سمیت مہمان ممالک کے رہنماؤں کی موجودگی سے عالمی سطح پر فوری اہمیت حاصل کی۔ توانائی کی حفاظت، ٹیکنالوجی اور اختراع کے ذریعے اس کے حصول کے لیے ضروری تعاون کے ساتھ ساتھ اہم معدنی سپلائی چینز میں تنوع اور نئی سرمایہ کاری کو متحرک کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی۔ سربراہ اجلاس میں متعدد شعبوں میں تعاون کے بارے میں چھ مشترکہ بیانات شامل تھے:
مصنوعی ذہانت (A.I.)، کوانٹم ٹیکنالوجی، اہم معدنی سپلائی چینز، جنگل کی آگ سے لڑنے اور اس سے بازیابی کے لیے کثیر الجہتی کوششیں، غیر ملکی مداخلت کا مقابلہ، جس پر بین الاقوامی جبر پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے، بین الاقوامی منظم جرائم کے گروہوں کو ختم کرکے تارکین وطن کی اسمگلنگ کا مقابلہ کرنا جیسے اہم فیصلے ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی نے مہمان خصوصی کے طور پر چوٹی کانفرنس میں شرکت کی دعوت کو خوش اسلوبی سے قبول کیا۔ یہG-7کے قابل قدر کردار کے بارے میں ہندوستان کی بیداری کی عکاسی کرتا ہے۔ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کو اس باوقار پلیٹ فارم پر اہم عالمی رہنماؤں سے دوبارہ رابطہ قائم کرنے کا موقع ملا۔ جہاں چین غائب تھا۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان35منٹ تک ٹیلی فون پر بات ہوئی۔ یہ وزیراعظم نریندر مودی کے لیے شمال جنوب تعاون کے تناظر میں توانائی کی سلامتی پر نئی دہلی کے زیر غور خیالات کا اظہار کرنے کا ایک موقع تھا۔ اس کو پیش کرتے ہوئے، انہوں نے دہشت گردی، توانائی کی منتقلی اور عمومی طور ٹیکنالوجی کے بارے میں انسان کےAI پرمبنی نقطہ نظر پر اپنے خیالات کو اجاگر کیا۔ خلاصہ کے طور پر، یہ اجلاس ایک اہم نتیجہ خیزی کے ساتھ ہندوستان-کناڈا تعلقات کو معمول پر لانے اور مرحلہ وار بہتری کے باہمی اتفاق سے مودی-کارنی کے وژن کا دوبارہ آغاز تھا۔ یہ ترقی بنیادی طور پر جسٹن ٹروڈو سے لے کر کارنی تک اوٹاوا میں قیادت کی تبدیلی کے نتیجے میں ہوئی، خاص طور پر قابل اعتماد شراکت داروں کے لیے کناڈا کی گہری تلاش کے نتیجے میں۔ کناڈا کا سیاسی نتیجہ یہ تھا کہ تجارت، سرمایہ کاری، سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراعات، اعلیٰ تعلیم، توانائی، خلائی، اہم معدنیات اور کھاد جیسے متعدد شعبوں میں ہندوستان کے ساتھ وسیع تعاون سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کا یہ تبصرہ کہ انہوں نے ’’بھارت-کناڈا دوستی کو تیز کرنے کے لیے مل کر کام کرنے‘‘کا منصوبہ بنایا، حوصلہ افزا تھا۔
کناڈین سیکورٹی انٹلیجنس سروس(CSIS)کی ایک حالیہ رپورٹ نے کناڈا کے نقطہ نظر میں اس تبدیلی کو لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کا ایک اقتباس یہ ہے:خالصتانی انتہا پسند تشدد کو منظم کرنے، فنڈ دینے یا منصوبہ بندی کرنے کے لیے کناڈا کا غلط استعمال کرتے رہتے ہیں۔
مختصر یہ کہ ایک بامقصد، غیر جانبدارانہ نقطہ نظر کو پیش کرنے کے لیے وزیراعظم کارنی کو اعلیٰ نمبر دینا ہوں گے جنہوں نے حالیہ سالوں میں سب سے مشکل جی-7 گروپ سربراہ اجلاس کی قیادت اور میزبانی کی۔ یہ سب کچھ ہوشیاری، صبر اور مزاح کے امتزاج کے ساتھ اس گروپ آف سیون کی ’’البرٹا سمٹ‘‘جس کو غیر متعلقہ اور لامتناہی مذاکرات کے طور پر مسترد کیا جا سکتا ہے، میزبانی کی اس مشکل اور عدم اعتماد سے بھرے ماحول میں یہ کوئی چھوٹا کارنامہ نہیں ہے۔G-7کے رہنماؤں کے لیے باہمی اعتماد، بات چیت، عالمی امن، تشدد کا خاتمہ اور جنگ بندی ضروری ہے۔
(مضمون نگارہ سینئر صحافی، سیاسی تجزیہ نگار، ماہر تعلیم،
ٹیلی ویژن کی شخصیت، انسانی حقوق کے تحفظ کی وکیل
اور انسان دوست ہیں)
[email protected]