محمد حنیف خان
ملک بانی کے لیے ایک ایسے نظام کی ضرورت ہوتی ہے جس کے تحت فرد/معاشرہ/طبقہ کارزار حیات کی درازی کاٹ کربحسن وخوبی زندگی کو انجام تک اس طور پہنچائے کہ اس سے ملک کی تعمیر و ترقی میں مدد ملے۔ہمارے ملک میں بھی آئین کے مطابق پورا ایک نظام ہے۔جس میں تعزیری کارروائیوں کا اہتمام کیا گیا ہے تاکہ کسی بھی غلط کار کو اس کی سزا اس طور دی جا سکے کہ کوئی دوسرا اس طرح کا عمل کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔اس تعزیری نظام کا مقصد صرف یہ ہے کہ امن و سکون سے ہر فرد/ طبقہ/ معاشرہ زندگی گزار سکے۔ اس لیے جب کوئی شخص یا تنظیم غلط کاموں میں ملوث ہوتی ہے تو اس کو سزا بھی ملتی ہے۔ملک کی ایک بڑی سماجی تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا(پی ایف آئی)حکومت کے زیر عتاب ہے۔اس پر الزام یہ ہے کہ وہ ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئی تھی۔بہت سے افراد اس کی حمایت کر رہے ہیں تو بہت سے افراد اور سیاسی جماعتیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔ ہر ذی شعور شخص یہ کہہ رہا ہے کہ اگر ملک کی سلامتی کے لیے یہ تنظیم واقعی خطرہ تھی تو اس پر اور اس جیسی تنظیموںپر پابندی بہت اچھی بات ہے لیکن عوام کے سامنے اس کا کالا چٹھا رکھا جانا چاہیے۔ یہ سوال اس لیے بھی کیا جا رہا ہے کیونکہ اس تنظیم کا تعلق اقلیتی طبقے سے ہے جو پورے ملک میں ایک خاص ذہنیت کے افرادکے فکری اور عملی تسلط کا شکار ہے۔
مسئلہ صرف پی ایف آئی اور اس کی ذیلی تنظیموں پر امتناع کا نہیں ہے، یہ تو بہت چھوٹی بات ہے، اصل مسئلہ اس کے پس پردہ ان مسائل کا ہے جن کا ذکر امتناع کے نفاذ کے بعد سیاسی پارٹیاں کر رہی ہیں اور موجودہ حکمراں پارٹی سے سوال کر رہی ہیں کہ آخر صرف اسی پر امتناع کیوں؟ لیکن حکومت خاموشی کے ساتھ اپنی کارروائیوں میں مصروف ہے۔اس نے پابندی کے حکم نامے میں اس تنظیم کو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بتایا ہے۔حکومت کو معلوم ہے کہ نیشنل ازم اور ملکی سلامتی دو ایسے مسئلے ہیںجن کے ذریعہ رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کیا جا سکتا ہے۔مگر نیشنل ازم کی کئی صورتیں ہیں ایک وہ ہے جس کا درس سردار بھگت سنگھ،موہن داس کرم چند گاندھی اور سبھاش چندر بوس نے دیا اور دوسرا وہ ہے جس کا داعی ہٹلر رہا۔دونوں نے نیشنل ازم کو اوڑھنا بچھونا بنایا مگر دونوں کے نتائج سے دنیا واقف ہے۔اس لیے یہ خدشہ ضرور رہتاہے کہ کوئی حکمراں جماعت /طبقہ/فرد نیشنل ازم کا سہارا لے کر آمر نہ بن جائے۔الگ الگ ملکوں میں اس کی الگ الگ شکلیں ہوسکتی ہیں۔ملک کے محروم طبقات کی سب سے بڑی لیڈرمایاوتی نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’مرکز کے ذریعہ پی ایف آئی پر ملک بھر میں کئی طرح سے ٹارگیٹ کرکے بالآخر اب اسمبلی انتخابات سے قبل اس کی آٹھ معاون تنظیموں کے ساتھ پابندی لگا دی گئی ہے۔ اسے سیاسی مفاد اور سنگھ کی منھ بھرائی کی پالیسی مان کر یہاں لوگوں میں اطمینان کم بے چینی زیادہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں حکومت میں کھوٹ مان کر اس مسئلے پر بھی ناراض اور حملہ آور ہیں اور آر ایس ایس پر بھی پابندی لگانے کا مطالبہ کھلے عام ہو رہا ہے کہ اگر پی ایف آئی ملک کی داخلی سلامتی کے لیے خطرہ ہے تو اس جیسی دیگر تنظیموں پر بھی پابندی کیوں نہیںلگانی چاہیے۔‘‘اس میں دو خدشوں کا اظہار کیا گیا ہے۔ایک نیشنل ازم کے بہانے سیاسی مفاد کے حصول کی کوشش اور دوسرے دوہرا رویہ اختیار کرنے کی، جو جمہوریت کے لیے حد درجہ خطرناک ہے۔اگر کسی حکومت پر اپنے مفاد کے لیے ایسی کارروائی کا شک ہو تو کیا جمہوریت میں اس کا احتساب نہیں ہونا چاہیے؟نیشنل ازم کے سہارے اپنی خواہشات کی تکمیل کی کوشش آئین کی روح کے منافی ہے۔
ہندوستان میں کھلے عام ایک سیکولر ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا اعلان کیا جاتاہے، اس کی راجدھانی تک کا انتخاب کرلیا جاتاہے مگر حکمراں اور انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی لیکن دوسری طرف پی ایف آئی پر امتناع میں یہ بات جواز کے طور پر پیش کی جاتی ہے کہ وہ ہندوستان کو 2047 تک اسلامی ملک بنانے کا منصوبہ رکھتی تھی۔جس طرح اسلامی جمہوریہ کا خواب آئین کے خلاف ہے، کیا اسی طرح ہندوراشٹر کی بات آئین کے خلاف نہیں؟ پھر کارروائی دونوں پر ہونی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ ہندو راشٹر کا خواب دیکھنے والے ہی حکمراں پارٹی کے حق میں ووٹنگ کرتے ہیں۔اس لیے ملمع سازی کرکے نیشنل ازم اور ملکی تحفظ کو سامنے رکھا گیا ہے۔
خواہشات کی تکمیل کے لیے نیشنل ازم کا سہارا ایک بہت بڑا جرم ہے، اس سے زندگیاں تباہ ہوتی ہیں،معاشرے برباد ہوتے ہیں اور ملک کے آئین پر یقین کمزور ہوتاہے جبکہ کمی آئین میں نہیں چور حکمرانوں کے دل میں ہوتاہے جس کا خمیازہ آئین کو بھگتنا پڑتا ہے جس کے بعد ایک ایسے ملک اور معاشرے کی بنیاد پڑتی ہے جہاں اخوت و محبت کے بجائے نفرت ہوتی ہے چونکہ جن پرظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں وہ اور ان کے لواحقین یہ تصور کرتے ہیں کہ جو ان کے ساتھ ہوا، اس کے لیے پورا سسٹم ذمہ دار ہے جس میں اس فرد کا حصہ بھی وہ تسلیم کرلیتے ہیں جنہوں نے عملی سطح پر کچھ نہیں کیا ہوتاہے۔اس کی ایک دو نہیں متعدد مثالیںہیں۔عبد الواحد شیخ کی کتاب’’ بے گناہ قیدی ‘‘میں ایسے واقعات کی بھرمار ہے جو خود ممنوعہ تنظیم ’سیمی‘ سے وابستگی کی وجہ سے جیل گئے اور نارکو ٹیسٹ ہوا،جس ڈاکٹر مالنی نے وہ ٹیسٹ کیا تھا، اسے25 فروری 2009کوبرخاست کیا جا چکا ہے کیونکہ اس نے یہ ملازمت فرضی ڈگری سے حاصل کی تھی۔عبدالواحد شیخ 2015میں نو برس کی جیل کی سزا کاٹنے کے بعد سبھی الزامات سے بری ہوئے۔مشہور صحافی جوسی جوزف نے اپنی کتاب The Silent Coupمیں عبد الواحد شیخ کے نارکو ٹیسٹ کی پوری کہانی لکھی ہے کہ کس طرح لوگوں کو پھنسایاجاتا ہے۔اس لیے حکومت کے ساتھ ہی انسانیت نواز شہریوں کو بہت سنجیدگی سے اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
ملک سے غداری اور اس کی سلامتی سے کھلواڑ کوئی بھی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا۔اگر پی ایف آئی اور اس کی ذیلی تنظیموں نے ایسا کیا ہے تو میڈیا کے بجائے آئینی طور پر حکومت کو عوام کے سامنے اسے رکھنا چاہیے جس کے دو راستے ہوسکتے ہیں، اول قرطاس ابیض جاری کرے اور دوم عدالت میں اس کے شواہد پیش کرے۔صرف نیشنل ازم اور ملک کی سلامتی کو خطرہ بتاکر کسی منظور شدہ ایسی تنظیم جو خود نیشنلسٹ ہونے کا دعویٰ کر رہی ہو، اس پر پابندی جمہوری اقدار کے منافی ہے۔کیونکہ نیشنل ازم کی جو صورت ہندوستان میں ہے وہ ہندو نیشنل ازم ہے جبکہ یہ ملک مختلف رنگ و نسل اور زبان کے ساتھ ہی جغرافیائی تقسیم سے تشکیل پاتا ہے، جس کے لیے ایسے نیشنل ازم کی ضرورت ہے جس پر کسی ازم کے بجائے آئین کی چھاپ ہو۔اس کے بغیر کسی دوسری صورت میں نیشنل ازم کو ہندوستان کی مٹی قبول نہیں کرے گی بصورت دیگر ملک میں بے چینی پھیلے گی جس کے نتیجے میں ملک ترقی کی دوڑ میں برسوں پیچھے چلاجائے گا، جس کا خمیازہ کسی ایک طبقے کو نہیں بلکہ پورے ملک کو بھگتنا پڑے گا۔
[email protected]