جمہوریت میں نظم ریاست کیلئے دستور و آئین نے جس طرح مقننہ، انتظامیہ اورعدلیہ کے الگ الگ دائرۂ کار متعین کیے ہیں۔ اسی طرح دائرۂ عمل کی تحدید اور طاقت کا توازن برقرار رکھنے کیلئے دستور نے کچھ اداروں کو بھی اختیارات دیے ہیں۔یہ ادارے خود مختار آئینی ادارے کہلاتے ہیں جن کا دائرۂ کارتو متعین ہوتا ہے لیکن کام کرنے کے اختیار میں انہیں آزادی حاصل ہوتی ہے تاکہ وہ خودمختار طریقے سے اپنے فیصلے کرسکیں۔ ایسے اداروں میں الیکشن کمیشن، پبلک سروس کمیشن، نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن، سینٹرل انفارمیشن کمیشن، سینٹرل ویجی لینس کمیشن، سینٹرل بیوروآف انویسٹی گیشن، ریزروبینک آف انڈیا، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ وغیرہ شامل ہیں۔ان آئینی اداروںکو خودمختاری دیے جانے کا اصل مقصد انہیں سیاسی اثر و رسوخ سے پاک رکھتے ہوئے بدعنوانی اور بے ضابطگی کی راہ روکنا ہے۔
یہ آئینی ادارے سرکاری دبائو، سیاسی اثر و رسوخ اور مداخلت سے پاک ہوکر اپنا کام اسی وقت کر پائیں گے جب ان کے سربراہان کی تقرریوں میں شفافیت ہو۔اگر تقرریوں میں شفافیت ناپید ہوجائے تو کام میں بھی شفافیت کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔جمہوریت کی اس لازمی ضرورت کے برخلاف مرکزکی مودی حکومت آئینی اداروں میں مداخلت کی مسلسل راہ نکالتی آرہی ہے، کبھی سی بی آئی کو اپنے ہاتھوں کا کھلونا بناتی ہے تو کبھی ای ڈی کو مہرہ کے طور پر استعمال کرتی ہے اور کبھی آر بی آئی کو تختہ مشق بنایاجاتا ہے۔ آر بی آئی کے ڈپٹی گورنر ویرل اچاریہ کا یہ الزام بھی ریکارڈ پر ہے کہ حکومت آر بی آئی کی خود مختاری کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔اس فہرست میں الیکشن کمیشن بھی شامل ہے جو بارہاحکومت کے دبائوکاشکار رہاہے۔لیکن حکومت چاہتی ہے کہ2024کا عام انتخاب ایک ایسے الیکشن کمیشن کی نگرانی میں ہو جس کا سربراہ مکمل طور پر اس کے زیر نگیں ہو اور اشاروں کو بھی حکم سمجھتے ہوئے اس کی تعمیل کو حرزجاں بنالے۔اس مقصد کے حصول کیلئے حکومت نے چیف الیکشن کمشنرکی تقرری سے متعلق بل پیش کیا ہے۔ مجوزہ بل میں چیف جسٹس کا نام چیف الیکشن کمشنر اور کمشنرز کی تقرری والی کمیٹی سے نکال دیا گیا ہے۔ اس بل میں وزیر اعظم، قائد حزب اختلاف اور ایک نامزد حکومتی وزیر پر مشتمل تین رکنی کمیٹی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مودی حکومت چیف الیکشن کمشنر اور کمشنروں کی تقرری کو مکمل طور پر اپنے حق میں متوازن کرنا چاہتی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے مارچ 2023 میں کہا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اور کمشنروں کی تقرری صدر کی طرف سے وزیراعظم، قائد حزب اختلاف اور چیف جسٹس آف انڈیا پر مشتمل کمیٹی کی سفارش پر کی جائے گی۔ جسٹس کے ایم جوزف کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بنچ نے ایک متفقہ فیصلے میں کہا تھا کہ یہ اس وقت تک نافذ رہے گا جب تک پارلیمنٹ اس معاملے پر کوئی قانون نہیں بنا لیتی۔ لیکن حکومت سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے اوراسے پلٹنے کی مذموم کوشش میں لگی ہوئی ہے جیساکہ دہلی آرڈی نینس بل کو قانون کی شکل دے کر سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے بارے میں پہلے بھی کرچکی ہے۔گویا امکانات کو پیہم ممکنات بناتے ہوئے حکومت نے اب اگلا پائوں نئے پانی میں ڈالاہے۔اس سے یہ تاثربھی ملتا ہے کہ اب مودی حکومت الیکشن کمیشن جیسے اہم ادارے کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کا غیرجمہوری ارادہ کرچکی ہے۔ الیکشن کمشنر کی تقرری میں شفافیت اور انصاف کو یقینی بنانے کیلئے سپریم کورٹ نے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے علاوہ چیف جسٹس آف انڈیا کا نام کمیٹی میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس سے انتخاب کے عمل میں ضروری توازن برقرار رہتا۔ اگر بل قانون بن جاتا ہے توکمیٹی میں وزیراعظم کے ساتھ ان کی کابینہ کا ایک وزیر بھی ہوگا اور قائد حزب اختلاف اکیلا رہ جائے گا اوراس طرح 2 کے مقابلہ میں ایک کے فیصلہ کی کوئی اہمیت نہیںرہ جائے گی۔ اگر یہ بل پاس ہوجاتاہے تو الیکشن کمیشن وزیراعظم کے ہاتھ میں مکمل طور پر کٹھ پتلی کی حیثیت اختیار کرلے لگااور پھر انتخابات میں شفافیت کی توقع لایعنی ٹھہرے گی۔
اپوزیشن اتحاد بجاطور پر اس بل کی شدت سے مخالفت کررہا ہے۔ کانگریس سے لے کرعام آدمی پارٹی تک اس بل کو جمہوریت مخالف قرار دیتے ہوئے اسے واپس لینے کا مطالبہ کررہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ بل غیرآئینی، من مانی اور غیرمنصفانہ ہے اور اس کی وہ ہر فورم پر مخالفت کریں گی۔اس کی مخالفت ہونی بھی چاہیے کیوں کہ یہ اقدام آئین و دستور کے سراسرمنافی و غیر جمہوری ہے، اس سے عوام کے مفاد میں کام کرنے والے ایک آئینی ادارہ پر حکومت کا تسلط قائم ہوجائے گا جس سے اس کے کام کا ج میں شفافیت کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔
[email protected]
اگلا پاؤں نئے پانی میں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS