محمد حنیف خان
یہودی ہولوکاسٹ کو آج تک روتے ہیں، اسے اپنے مظالم کے خلاف ڈھال کی طرح استعمال کرتے ہیں، انتقام کا عالم یہ رہا ہے کہ جو لوگ بھی اس میں شامل تھے ان کا پتہ لگا کر ان سے انتقام لیا، ان کو غیرممالک سے اغوا کرکے اسرائیل لائے اور سزائے موت دی، یہ سب یہودیوں نے اس لیے کیا کیونکہ انہیں اپنوں کے بے یارومددگار مارے جانے کا دکھ اور درد تھا، یہودی آج تک اس درد کو محسوس کرتے ہیں مگر یہی یہودی جب غزہ میںplestocaust کا ارتکاب کرکے فلسطینیوں کی نسل کشی کرتے ہیں، ان کے مکانات کو مسمار کرتے ہیں، زندگی بچانے کے لیے امداد کی خاطر قطاروں میں کھڑے فلسطینیوں پر گولی باری اور بمباری کرتے ہیں، ان کی زمینوں پر قبضے کرتے ہیں تو انہیں بالکل دکھ نہیں ہوتا، وہ فلسطینیوں کے دردوکرب کو شمّہ برابر نہیں محسوس کرتے بلکہ اسرائیل کی اشرافیہ غزہ کے ہر بچے کو اپنا دشمن تصور کرتی ہے اور انہیں قتل کردینے کی وکالت کرتی ہے، فلسطینی زمینوں پر اپنے قبضے کو درست تصور کرتی ہے۔ یہودیوں کا یہی دوہرا رویہ انہیں دوسری قوموں سے مختلف بناتا ہے۔
اسرائیل کے وجود میں آنے سے قبل ان کی جو حالت تھی، اس سے دنیا واقف ہے اور اب ان میں جو نخوت ہے، اسے بھی دنیا دیکھ رہی ہے۔مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کی ایک درسی کتاب ہے: ’’قصص النبیین‘‘،چوتھی جلد میں حضرت موسی علیہ السلام سے متعلق واقعات درج ہیں جس میں ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے کہ یہ ایک ایسی قوم ہے جو جب غالب آتی ہے تو ظلم کے پہاڑ توڑ دیتی ہے اور ذرہ برابر انہیں شرم نہیں آتی لیکن یہی جب مغلوب ہوتی ہے تو بندروں کی طرح ’’ہیں ہیں‘‘کرتی ہے۔اس سے ان کی فطرت کا اندازہ ہوتاہے۔ماضی میں دنیا نے بندروں کی طرح ’’ہیں ہیں‘‘ بھی دیکھا ہے اور اب ان کی نخوت اور مظالم کا مشاہدہ بھی کر رہی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ یہودیوں نے غزہ اور اس کے باشندوں کے ساتھ وہ سلوک کیاہے جو تاریخ میں شاید بخت نصر کے علاوہ کسی نے کیا ہو، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج مغربی معاشرے میں سب سے لااعتبار قوم بھی یہی مانی جاتی ہے، جس کی وجہ فلسطینیوں پر مظالم کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ میڈیا، کاروبار اور سیاست کے ذریعہ اس نے پورے مغربی معاشرے کے ساتھ ہی عربی و مسلم ممالک پر بھی اپنا شکنجہ کس لیا ہے، اس لیے سرکاری سطح پر ان کے خلاف کہیں سے آواز نہیں اٹھتی ہے اور اگر اٹھتی بھی ہے تو اس کی حیثیت نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ نہیں۔اس کے برخلاف اگر یہودیوں کے خلاف کوئی ایک لفظ بول دے تو پورا مغربی میڈیا چیخ اٹھتا ہے،جس کی زندہ مثال برطانیہ کا گلسٹنبیری فیسٹیول ہے، جس کے اسٹیج سے موسیقار و گلوکار باب ویلن نے اسرائیلی فوج کے خلاف نعرے لگوائے، انہوں نے رنگ و رامش کے اس اسٹیج کو حق و انصاف کے حق میں اور اسرائیلی مظالم کے خلاف استعمال کیا۔انہوں نے اس موقع پر جو باتیں کہیں وہ بڑی چشم کشا ہیں۔
باب ویلن نے اسٹیج پر اسرائیل کے خلاف نعرے لگواتے ہوئے کہا: Free Free Plestine یعنی فلسطین کو آزاد کرو آزاد کرو، یہ نعرے تقریباً دو لاکھ سامعین نے لگائے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ عوام کی اکثریت اس اسرائیلی ظلم کے خلاف ہے، انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ دو برسوں سے آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ فلسطینی بچوں کے ساتھ کیا ہو رہاہے، ان کے والدین کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے۔ باب ویلن نے سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت خاموشی کا نہیں ہے، ہمیں اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہے اور پھر انہوں نے ظلم و بربریت کا مظاہرہ کرنے والی فوج کے خلاف بھی نعرے لگوائے۔انہوں نے “Death, death to the IDF!” (اسرائیلی فوج کی موت ہو) کے نعرے لگاتے ہوئے کہا:”Aye, but have you heard this one though”(ارے، کیا آپ نے یہ سنا؟) اور پھر زور زور سے نعرے لگائے۔یہ نعرہ خاص طور پر تنازع کا باعث بنا کیونکہ اسے اسرائیلی فوج کے خلاف تشدد کی ترغیب کے طور پر دیکھا گیا۔ انہوں نے مزید کہا:”Sometimes we have to get our message across with violence because that’s the only language some people speak, unfortunately.” (کبھی کبھی ہمیں اپنا پیغام تشدد کے ذریعے پہنچانا پڑتا ہے کیونکہ بدقسمتی سے کچھ لوگ صرف یہی زبان سمجھتے ہیں۔) باب ویلن کی اس نعرے بازی اور عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کے خلاف مغربی دنیا خاص طور پر برطانیہ میں ایک ہنگامہ بپا ہے، چونکہ یہ پروگرام بی بی سی کے ذریعہ لائیو کیا جارہا تھا، اس لیے وہ بھی اس کی زد میں آگیا حالانکہ اس نے فوراً مواد کو ہٹادیا۔ امریکہ نے بھی باب ویلن کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کردی ہے کیونکہ ان کی اس مخالفت کو یہود مخالفت کے طور پر دیکھا جا رہاہے۔برطانیہ میں اسرائیلی سفیر نے بھی احتجاج درج کرایا۔
برطانیہ میں ہنگامے کو دیکھتے ہوئے اوین جونس(Owen Jones) نے دی گارجین میں ایک مضمون بعنوان: Welcome to Britain 2025: where a musician’s words cause more outrage than the murder and horror in Gaza لکھا ہے۔ اس کا عنوان ہی طنزیہ ہے۔ اس پورے مضمون میں اوین جونس نے مغربی معاشرے خصوصاً برطانیہ کی بخیہ ادھیڑ کر رکھ دی ہے، انہوں نے سخت حیرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اب ہم کیسے ملک اور کیسی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جہاں ہزاروں بچوں کے قتل، نسل کشی، شہریوں کی دربدری، گھروں کی مسماری کے خلاف تو کوئی آواز نہیں اٹھاتا مگر ایک موسیقار کے چند جملوں کے خلاف پورا میڈیا سامنے آجاتاہے اور تماشا کرنے لگتا ہے۔ اوین جونس نے اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے حوالے سے لکھا ہے کہ امداد کے حصول کی خاطر قطار میں کھڑے فلسطینیوں پر اندھا دھند فائرنگ کا حکم اعلیٰ افسران کی جانب سے دیا گیا تھا، جن کے خلاف اخبارات میں بات نہیں ہوتی اور نہ ہی اس خبر کو دنیا کے اخبارات میں اہمیت دی جاتی ہے مگر باب ویلن نے اگر معاشرے کو ظلم کے خلاف بیدار کرنے کی کوشش کی تو ہنگامہ برپا ہوگیا۔
وہ مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں کہ غزہ میں قتل عام لوگوں نے لائیو دیکھا ہے، ہمیں امید تھی سیاست داں اس پر اپنے غم و غصے کا اظہار کریں گے مگر اس کے برعکس وہ تو آئی ڈی ایف کو مسلح کر رہے ہیں۔ یہ ناقابل معافی جرم ہے، ایک دن اس کا حساب ہوگا اور جنہوں نے غزہ کی تباہی میں تعاون کیا ہے، ان کا احتساب ہوگا بلکہ وہ خود اپنا محاسبہ کرتے ملیں گے۔اس پورے مضمون میں مغربی معاشرہ خصوصاً حکومت اور میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا گیاہے۔
دوسری طرف عرب ریاستیں جو آج ابراہم معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہو رہی ہیں، ایران و اسرائیل جنگ کے حوالے سے جس طرح کی خبریں آ رہی ہیں اور در پردہ عرب ریاستو ں کا جو رول سامنے آ رہا ہے، وہ بہت حیرت انگیز تو نہیں مگر مستقبل کے لیے خطرناک ضرور ہے.۔
فلسطین و اسرائیل کے مابین کوئی عام جنگ نہیں ہورہی ہے بلکہ حقیقت میں یہ یہودیوں کی جانب سے لڑی جانے والی مذہبی جنگ ہے جب کہ عرب ریاستیں اسے زمین کی جنگ تصور کر رہی ہیں،حالانکہ ابراہم معاہدہ اسی مذہبیت کی جانب اشارہ کررہا ہے جس کا اہم مقصد عرب ریاستوں کے ذریعہ اسرائیل کو تسلیم کرانا ہے۔ظاہری طور پر بہت سی ریاستیں ابھی اس سے دور ہیں مگر حالات ایسے نظر آ رہے ہیں کہ بہت جلد سب ایک جھنڈے کے نیچے ہوں گے مگر ان سبھی کو یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ فلسطینی صرف ایک ہی صورت میں اس سرزمین سے دستبردار ہوں گے اور وہ ہے سبھی فلسطینیوں کی موت، جس پر امریکہ اور اسرائیل نے بایں طور کام شروع کردیا ہے کہ بمباری، نسل کشی اور بنیادی ڈھانچے کی مسماری کے بعد باہر سے دی جانے والی کسی بھی ایجنسی کی امداد پر پابندی عائد کرکے اپنی ایجنسی کے ذریعہ یہ امداد دی جا رہی ہے جس میں ایسی دوائیں ملائی گئی ہیں جو مہلک ہیں، یہ کوئی الزام نہیں ہے تصدیق شدہ امر ہے، ہٹلر کے دور میں سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی اس لیے گیس چیمبر کا استعمال کیاگیا مگر اب جدید طریقے سے پیلسٹو کاسٹ کیا جا رہاہے۔اسی طرح اسرائیل نے طول الکرم اور دیگر علاقوں میں فلسطینی مکانات کو ٹھیکے پر مسمار کرنا شروع کردیا ہے، دوسری طرف اسرائیلی وزرا اب صاف طور پر کہنے لگے ہیں کہ مغربی علاقوں کو قانونی طور پر اسرائیل میں ضم کرلینا چاہیے، یہ وہ باتیں ہیں جن کے ذریعہ فلسطینیوں کا خاتمہ کیا جارہے مگرشہر عزیمت کے ان جیالوں کو ہزیمت دینا آسان نہیں ہوگا اور تاریخ بڑی سفاک ہوتی ہے، اس کے جبر سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ تاریخ کا جبر نسل نو کو حقیقی اور سچی تاریخ سے واقف کرانا ہے، تب آج کی عالمی مقتدرہ کہاں جگہ پائے گی خود سوچ سکتی ہے، ابھی دنیا کے پاس صرف چنگیز، ہلاکو اور ہٹلر ہیں لیکن اب ایسے ناموں کی فہرست دراز ہوتی نظر آ رہی ہے۔