مولانا شیخ حامد علی انواری
ہمارا اجتماعی المیہ یہ ہے کہ ہر فرد اپنی ذات کے مسائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے دوسروں کے معاملات پر دل کھول کر بات کرتا ہے۔ لڑکوں کو جہیز کی مخالفت تو گراں گزرتی ہے، لیکن وہ اپنی بہن کے وراثتی حقوق پرخاموشی اختیار کرتے ہیں۔ لڑکیوں کو دوسری شادی کی افادیت پرگفتگو گوارا نہیں، مگر اپنے حقوق کے لیے بلند آواز میں بولتی ہیں۔ والدین چاہتے ہیں کہ صرف ان کے حقوق پر بات ہو، مگر اپنی اولاد کی تربیت کے تقاضے بھول جاتے ہیں۔ مزدور اپنی محنت کے حقوق مانگتا ہے، لیکن اپنے فرائض سے غافل رہتا ہے۔
یہی رویہ ریاست اور عوام کے تعلقات میں بھی نظر آتا ہے۔ ریاست اپنے قوانین تو نافذ کرتی ہے، مگر عوام کے بنیادی حقوق کی پاسداری سے گریزاں رہتی ہے۔ عوام ریاست سے شکایت کرتی ہے، لیکن اپنی ریاستی ذمہ داریوں (Civic Sense) کو فراموش کر دیتی ہے۔
یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم تنقید کے عادی ہیں، لیکن اصلاح سے دور ہیں۔ ہم میں سے ہر فرد اپنی ذات کو پاک اور دوسروں کو قصوروار ٹھہرانے میں لگا رہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم سب اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہیں، تو معاشرے اور ریاست میں تبدیلی کیسے ممکن ہے؟
معاشرتی اصلاح کا پہلا قدم خود احتسابی ہے۔ خود احتسابی کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص اپنی زندگی، کردار، اور اعمال کا جائزہ لے۔ ہمیں سوچنا ہوگاکہ ہم اپنے معاشرتی، اخلاقی، اور مذہبی فرائض کس حد تک ادا کر رہے ہیں۔ اگر ایک بھائی اپنی بہن کے حقوق وراثت کا تحفظ کرے، ایک شوہر اپنی بیوی کے حقوق کا خیال رکھے، والدین اپنی اولاد کی تربیت پر توجہ دیں اور ریاست عوام کے بنیادی حقوق کی پاسداری کرے، تو معاشرے میں توازن اور انصاف قائم ہو سکتا ہے۔
تبدیلی کی یہ تحریک انفرادی سطح پر شروع ہو سکتی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ایک بہتر معاشرہ وہی ہوتا ہے جہاں ہر فرد اپنے فرائض اور حقوق کو پہچانتا ہے۔ جب تک ہم اپنے فرائض سے غفلت برتیں گے، ہم دوسروں پر تنقید کرنے کا حق نہیں رکھتے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسل کو خود احتسابی کا سبق سکھائیں۔ یہ وہ نسل ہے جو کل کے معاشرے کی تعمیر کرے گی۔ اگر ہم انہیں خود احتسابی، انصاف، اور اخلاقی اصولوں پر عمل کرنا سکھائیں، تو ایک مضبوط اور مثالی معاشرہ وجود میں آئے گا۔
یاد رکھیں، معاشرہ صرف ان ہی اصولوں پر ترقی کر سکتا ہے جہاں ہر شخص اپنی ذات کا محاسبہ کرے اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھے۔ خود کو بدلنا ہی نظام کو بدلنے کی پہلی سیڑھی ہے۔