فرانس ایک نیوکلیئر پاور ہے، سلامتی کونسل کا مستقبل ممبر ہے اور عالمی پیمانہ پر اس کو بڑی معیشت میں گنا جاتا ہے۔ یورپ میں فرانس کی ایک الگ زبان وتہذیب ہے جس کی وجہ سے اس کی ایک منفرد پہچان ہے اور اہل فرانس کو اس پر کافی فخر ہے۔ افریقہ اور دیگر کئی ایشیائی ممالک میں فرانس میں بڑے خطہ اراضی پر قبضہ کرکے وہاں اپنا سامراجیہ نظام بنالیا تھا۔ افریقہ کے کئی ممالک آج بھی اگرچہ اس کی دسترس سے آزاد ہوچکے ہیں مگرآج بھی حقیقت میں فرانس کا عمل دخل کئی افریقی ممالک میں ہے۔ خاص طو رپرمغربی افریقہ اور ساحل خطہ میں اس کا زبردست دبدبہ ہے۔ مگر گزشتہ دنوں اور اس سے ایک ماہ قبل فرانس میں داخلی سطح پر کئی ایسے ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے ہیں جنہوںنے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ چند ماہ قبل فرانس میں اقتصادی پالیسیوں سے لے کر غیر معمولی احتجاج ہوئے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ پورا فرانس سماجی اتھل پتھل اور اقتصادی بدحالی کا شکار ہوگیا ہے ۔ پچھلے دنوںفرانس کے حالات اس قدر خراب رہے ہیں کہ یورپین یونین کا ایک اہم ملک ہونے کے باوجود اس کو پچھلے دنوں برسلز میں ہونے والی یوروپی یونین کی سربراہ کانفرنس کے اجلاس سے بیچ میں ہی اٹھ کر جانا پڑا۔اتناہی نہیں بلکہ کئی حلقوںمیں اس بات کو لے کر بھی تشویش ہے کہ فرانس کے حالات اس قدر خراب اور بے قابوہیں کہ برطانیہ کے فرماں رواں چارلس سوئم کواپنا دورہ فرانس ملتوی کرنا پڑا تھا۔کنگ چارلس کے دورہ فرانس کے ملتوی ہونے کا سبب فرانس میں صدر ایمونل میکروں کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف احتجاج تھا جوکہ بے قابو رہا۔
اس سے قبل سردیوںمیں جب یوکرین جنگ شباب پر تھی اور اس کی وجہ سے یورپ کے کئی ملکوںمیں توانائی کا بحران چل رہا تھا ،کئی علاقوں میں اس دوران پیٹرولیم کی کمی کی وجہ سے سڑک پر بدنظمی ،تشدد او ریہاں تک کہ لوٹ مار کے واقعات بھی سامنے آئے۔ یہ حالات ان تمام شائقین کیلئے ایک افسوسناک ہے جو کہ آئندہ ماہ فرانس میں ہونے والے اولمپک کھیلوں کے دیکھے جانے کا انتظار کررہے ہیں۔ فرانس کی داخلی صورتحال سے متعلق کئی حلقوں میں مختلف آراء سامنے آئی ہیں۔ بعض حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ فرانس میں غیر ملکی تاریکین وطن کی بڑی تعداد ہے جو مغربی افریقہ کے عرب ملکوں سے ہجرت کرکے وہاں سکونت اختیار کرچکے ہیںاو رفرانس کی سیاسی سماجی اور اقتصادی زندگی کا ایک اہم حصہ ہیں۔ پچھلے دنوں فرانس میں الجیریائی نوعمر لڑکے نیہال کی سفاکانہ موت نے ایک بڑے طبقے کوجھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ فرانس میں نسلی عصبیت ہے اور غیرملکی عرب آبادی اس اذیت کے باوجود فرانس کی زندگی کا ایک اہم ترین حصہ بن گئی ہے۔ کئی حلقے اس آبادی کو ناپسندیدگی اور نفرت کی حد تک سے دیکھتے ہیں خاص طورپر مغربی افریقہ کے ایک اہم ملک الجیریا کے لوگوں کے تئیں فرانسسیوںمیں کافی تعصب ہے اور اس کی تاریخی وجوہات ہیں فرانس نے 123سال تک الجریا پر اپنا سامراجیہ قائم رکھا تھا اور 1992میںاسے آزادی مل گئی اور جب انہیں آزادی ملی تو فرانسیسی الجیریا کے تئیں اپنی عصبیت نہیں دباپائے ہیں۔ اس منافرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ الجیریا کو آزادکرنے کے باوجود فرانس نے جاتے جاتے کئی علاقوںمیں بارودی سرنگیں بچھا دی تھیں اور بہت مشکل مذاکرات کے بعدبھی دنیا کو انسانی حقوق ،جمہوریت او ررواداری کا سبق سکھانے والا فرانس ان بارودی سرنگوںکا پتہ ٹھکانہ بتانے کیلئے تیار نہیں تھا۔
بحرکیف فرانس اب بھی خوابوں کا ملک ہے دنیا کا بڑا طبقہ فرانس کی چکاچوند ،جدید تہذیب ،زبان ،فلسفہ اور فیشن کا دلدادہ ہے بڑی تعداد میں غیر ملکی خاص طور پر عرب ممالک کے لوگ فرانس میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے آتے ہیں۔ حالیہ انکشافات کے مطابق فرانس میں سب سے زیادہ طلبہ مراکش ،چین اور الجیریا کے ہیں ۔ فرانس کی کشش وہاں کے بدلتے سماجی ،سیاسی حالات کے باوجود برقرار ہے حالانکہ گزشتہ ایک دہائی میں فرانس میں غیر معمولی سطح پر ایسے واقعات رونما ہوئے جو نہ صرف فرانس کے بلکہ قرب وجوار کے ممالک کو متززل کرنے والے تھے۔حجاب کے خلاف مہم نے فرانس کے مذہبی آزادی کے دوہرے دوریے کو طشت ازبام کیا تو دوسری جانب پیغمبر اسلام ؐ کے توہین آمیز کارٹونو ںکا شائع ہونا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ فرانس اور یورپ کی دیگر ملکوںمیں ایک ایسا بڑا طبقہ موجود ہے جو مسلمانوں اور اسلام کے تئیں ایسا نظریہ رکھتے ہیں جو انصاف پر مبنی نہیں کہا جاسکتا۔ اظہار خیال کی آزادی کے نام پر دل آزاری کی اور خواتین کو ان کی مرضی کے مطابق لباس زیب تن نہ کرنے کی آزادی فرانسیسی سماج کے ایسے دو انتہائی حساس موضوعات ہیں جن پر مبصرین اور ناقدین بری طرح بٹے ہوئے ہیں۔
فرانس کے تئیں مسلم اورعرب ملکوں کے الگ الگ نظریات ہیں سعودی عرب کے فرانس کے ساتھ غیر معمولی والے تعلقات ہیں ۔ حال ہی میں کلائمٹ چینج پرمنعقد عالمی کانفرنس کے موقع پر جب سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان فرانس پہنچے تو جس گرم جوشی اور پرتپاک انداز سے فرانسیسی صدر ایمونل میکروں نے استقبال کیا اس کے چرچے ذرائع ابلاغ میں خوب رہے ۔ دونوں کی مصافے کی طوالت کولے کر کئی تبصرے ہوئے اور عالمی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین نے سعودی عرب کی فرانس کے ساتھ قربت کو الگ تناظر میں دیکھنا شروع کیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے سعودی عرب فرانس کا زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔ فرانس بھی امریکہ سے جداگانہ حکمت عملی اختیار کررہا ہے ۔ پچھلے دنوں فرانسیسی صدر کا دورہ چین کافی زیر بحث رہا ۔ کئی حلقوںمیں تو اس با ت کا قیاس لگایا جارہا تھا کہ عرب ممالک فرانس کو امریکہ کے مقابلہ میں زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ یہاںیہ بات بھی محلوظ خاطر رہے کہ فرانس مغربی ایشیا کے کئی خانہ جنگی کے شکار ملکوں میں مصالحت کو فروغ دینے کی کوشش کررہا ہے اس میں عراق ، بحرین ،اور یمن بطور خاص ہیں۔ لبنان کی خانہ جنگی چاہے وہ آج کہ ہو یا 80کی دہائی کی ہو فرانس نے لبان کے اندرونی حالات پر کافی کنٹرول رکھا ہے آج فرانس لبنان کے سیاسی ادب واستحکام اور اقتصادی دلوالیہ پن کو ختم کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ فرانس کے بڑھتے ہوئے رتبے کو دیکھتے ہوئے کئی حلقوںمیں اس بات کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے کہ بڑی طاقتوں کو اپنی غیر جانبداری کو برقرارکھتے ہوئے کام کرنا چاہئے ۔ اگرچہ اس طرح کے تبصروں کا براہ راست نشانہ امریکہ ہے مگر اس کے باوجود فرانس کی بڑھتی ہوئی مثبت شبیہ مغربی ایشا کے دیگر ممالک میں کئی رول ادا کرتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر فرانس کا سماج آج واقعی ایک بحران سے گذرہا ہے اس کی وجہ صرف اور صرف عرب ومسلم آبادی نہیں بلکہ فرانس کے خود کے ایسے حساس امور ہیں جن پر فوری توجہ کی ضرورت ہے ۔ ورنہ فرانس جیسا ترقی یافتہ روشن خیال سماج ،دوسرے ملکو ں کی آگ بجھاتے بجھاتے ایسا نہ ہو کہ اس آگ کے زد میں آجائے۔ vvvvvv
فرانس پہلے اپنا گھر سنبھالے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS