ایم اے کنول جعفری
کئی ممالک اسرائیل کی جانب سے غزہ پٹی میں عام شہریوں پر کی جارہی بے حاصل بمباری میں ہلاکتوں کی تعداد مسلسل بڑھنے سے خاصے ناراض ہیں۔ اسرائیل کے تاناشاہ وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو جنگ میں کچھ حاصل نہیں کرنے کی ٹیس کو چھپانے کے لیے جنگ بندی کے لیے شرائط پر اُتر آئے ہیں،تاکہ عوام میں بھرم باقی رکھا جاسکے۔ دنیا جانتی ہے کہ فضائی اور زمینی حملوں میں غزہ کی زیادہ ترعمارتیں زمیں بوس ہوکر ملبے کے ڈھیر میں بدل چکی ہیں۔ غزہ کے وزیرصحت کے مطابق جنگ کے نتیجے میں کم از کم 53,901 فلسطینی شہید اور1,22,593 زخمی ہوچکے ہیں، جب کہ حکومتی میڈیا دفتر کے مطابق شہادتوں کی تعداد 61ہزار700سے تجاوز کرچکی ہے۔ملبے کے نیچے دبے ہزاروں لوگوں کو مردہ قراردیاجارہاہے۔ لاکھوں کی تعداد میں بھوکے پیاسے شہری بے سروسامانی کی حالت میں کھلے آسمان اور بموں کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ دنیا بھر کے انسان اور کئی ممالک غزہ کے تڑپتے مسلمانوں کی تکلیف دہ حالت کو مزید دیکھنے کی تاب نہیں لاکر اسرائیل سے بے گناہ شہریوں کی نسل کشی روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اسی دوران اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ کے14علاقوں کو خالی کرنے کا انتباہ دیا ہے۔20مئی کو امریکی صدر ڈونالد ٹرمپ نے اسرائیل کو سخت پیغام دیتے ہوئے کہاتھا کہ وہ یا تو غزہ میں جنگ بند کرے یا پھر امریکی حمایت سے ہاتھ دھو لے۔العربیہ اور الحدث کے ذرائع کے مطابق یہ غیر معمولی امریکی دباؤ دراصل خلیجی ممالک کی بے مثال سفارتی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ٹرمپ کی اس پیغام رسانی کے بعد بنیامن نیتن یاہو کے دفتر میں شدید اضطراب کی کیفیت پائی جا رہی ہے۔ اس وقت امریکہ براہ راست حماس کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے، جب کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بالواسطہ بات چیت کا عمل جاری ہے۔امریکی اخبار’واشنگٹن پوسٹ‘ کے دعویٰ کے مطابق ٹرمپ کے معاونین نے اسرائیلی حکام کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ اگر جنگ نہ رکی تو ہم آپ کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں گے۔ دنیا کی تین بڑی طاقتوں نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہارکیااورجنگ بندی پر زور دیتے ہوئے فلسطین کوجلد ہی تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سب کے باوجوداسرائیل غزہ میں بے یارومددگار شہریوں اور بھوکے پیاسے بچوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔
فرانسیسی وزیراعظم فرانسوابایرو نے اعلان کیا ہے کہ فرانس، برطانیہ اور کناڈا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیںاور یہ قدم اب نہیں رکے گا۔انہوں نے فرانسیسی قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’ تاریخ میں پہلی مرتبہ3بڑی طاقتوں برطانیہ، فرانس اور کناڈا نے مل کر غزہ میں جاری حالات کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ فلسطینی ریاست کواجتماعی طور پر تسلیم کریں گے۔یہ قدم جو آگے بڑھ چکا ہے،اَب رکے گا نہیں،بلکہ مکمل کیا جائے گا۔‘وزیراعظم کا یہ بیان اس سوال کے جواب میں آیا،جو بائیں بازو کی جماعت ’فرانس انبوئے‘ کی رہنما ماتیلد بانو نے کیا تھا۔ انہوں نے اسرائیل کے فلسطینیوں پر ہو رہے مظالم پر سخت تنقید کرتے ہوئے سوال کیا تھا: ’کیاآپ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں،جب کہ اَب وہاں فلسطینی ہی باقی نہیں بچے ہیں؟‘فرانسیسی صدر امینوئیل میکروں،برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر اور کناڈا کے وزیراعظم مارک کارنی نے 19مئی کو خبردار کیاتھاکہ وہ غزہ میں اسرائیلی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے قابل مذمت اقدامات پر خاموش نہیں رہیں گے۔انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہاتھا کہ اگر اسرائیل نے اپنے فوجی حملے بند نہ کیے اور غزہ میں انسانی امداد کی رسائی کی اجازت نہیں دی تو وہ اس کے خلاف ٹھوس اقدامات کریں گے۔ فرانسیسی وزیراعظم بایرو،جو2ریاستی حل کے پرزورحامی ہیں،نے کہا کہ یہ مذمت اور باربار کی جانے والی تنبیہات بالکل واضح ہیں۔ان پر ہماری اخلاقی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے،لیکن ہم یہ بھی نہیں بھول سکتے کہ اس المیہ کا آغاز کہاں سے ہوا؟اس دھماکہ کا محرک حماس ہے،جس نے 7اکتوبر 2023 کو قتل عام کا ارتکاب کیا۔تاہم بایرو نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ میں جو حالات پیدا ہوچکے ہیں،وہ انسانی لحاط سے ناقابل قبول ہیں۔غورطلب ہے کہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن(پی ایل او) کی جانب سے15نومبر 1988 کو الجزائر میں جلاوطن فلسطین نیشنل کونسل کے ایک غیرمعمولی اجلاس میں فلسطین کی ریاست کا اعلان کیا گیا تھا۔اس اعلان کو فوری طور پر بہت سے ممالک نے تسلیم کیا اور سال کے آخر تک 78سے زیادہ ممالک نے فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا تھا۔ مئی2024میں اقوام متحدہ کے193رکن ممالک میں سے143اور2غیر رکن ممالک فلسطین کو تسلیم کرچکے ہیں۔ فلسطین 2012 سے اقوام متحدہ کی ایک غیر ممبر مبصر ریاست رہاہے۔اُس وقت اسرائیل، ریاستہائے متحدہ،برطانیہ، جرمنی، اٹلی، فرانس، سوئٹزرلینڈ، اسپین، یونان، کناڈا، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، آسٹریلیا، آرمینیا اور نیوزی لینڈ سمیت کئی دیگر ممالک نے فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا تھا۔اَب ان میں سے فرانس،برطانیہ اور کناڈا فلسطین کو جلدی ہی بطور ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ لے چکے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین کے مابین تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کے ایک حصے کے طور پر اسرائیل اور پی ایل او کے مابین 1993 اور 1995میں طے پانے والے ’ اوسلو معاہدوں‘ نے مغربی کنارے اور غزہ کے کچھ حصوں میں فلسطین نیشنل اتھارٹی (پی این اے) کو ایک خود مختار عبوری انتظامیہ کے طور پر قائم کیا۔ 2005 میں غزہ پٹی سے اسرائیل کے منحرف ہونے کے بعد حماس نے پوری پٹی پر قبضہ کرلیا۔
دوسری جانب غزہ میں وحشیانہ مظالم پر اقوام عالم کی مذمت کے جواب میں اسرائیل کی جانب سے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھمکیاں دینے کا سلسلہ جاری ہے۔اسرائیلی وزارت خارجہ کے مطابق بیرونی دباؤ اسرائیل کو اس کے مقصد کے حصول سے روک نہیں سکتا۔ وزیراعظم نیتن یاہو نے برطانیہ، فرانس اور کناڈا کی جانب سے اسرائیل پر ممکنہ پابندیاں لگانے کی دھمکیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے حماس کے لیے ایک بڑی انعامی پیش کش قراردیا۔کہا کہ اس قسم کے بیانات سے حماس کے موقف کو تقویت مل رہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جاری کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔یاہو کا کہنا تھا کہ اگر حماس یرغمالیوں کو رہا کردے اور ہتھیار ڈال دے تو جنگ کل ہی ختم ہو سکتی ہے۔ اسی دوران اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کے پیش روایہوداولمرٹ نے کہا کہ ہزاروں بے گناہ فلسطینی مارے جا رہے ہیں اور بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجی بھی ہلاک ہو رہے ہیں۔ان کے مطابق یہ جنگ بے مقصد ہے،اس کے ذریعہ کوئی ایسا ہدف حاصل نہیں کیا جاسکتا،جو مغویوں کی جان بچاسکے۔وہ غزہ میں جو کچھ کررہا ہے، وہ جنگی جرائم کے بہت قریب ہے۔یہ عمل ہر زاویے سے انتہائی قابل نفرت اور غصہ دلانے والا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر یائیرگولان نے اپنی ریاست کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بچوں کے قتل کو ’مشغلہ‘ قراردیا۔کہا کہ یہ حکومت بچوں کو مارنے کو مشغلہ سمجھتی ہے۔اگر تل ابیب نے اپنا طرزعمل نہ بدلاتو وہ اقوام عالم میں تنہا ہو جائے گا۔یوروپی یونین نے اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں جاری جارحیت پر اسرائیل سے تعلقات پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے۔یہ فیصلہ20مئی کو بلجیم کے دارالحکومت برسلز میں یوروپی سفارتی اجلاس میں لیا گیا۔ غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں پر17یوروپی وزرائے خارجہ نے نظر ثانی کی حمایت کی۔نیدرلینڈ کا کہنا تھا کہ غزہ میں انسانی امداد کی ناکہ بندی بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب کے وفد نے فلسطین پر17سے20جون2025کو ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کی تیاری کے دوران اعلان کیا کہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے سے ہی امن قائم ہوگا۔اسرائیلی قبضے کا خاتمہ اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہی وہ واحد راستہ ہے،جو خطہ میں سلامتی اور استحکام کو یقینی بنا سکتا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]