گستاخی معاف

0

ڈاکٹر ایم عارف، بتیا ، بہار.

اس پروگرام میں بیٹھے سبھی غیر ادبی سامعین سے معذرت کے ساتھ اور اس ادبی اسٹیج پر بیٹھے  بے ادبی شخصیات سے اجازت کے ساتھ ۔ میں ادیب نہیں۔ ادب کا طالب علم ہوں۔ مجھے ادب کے طالب علم ہی رہنے دیں_مجھے نہ کل ادیب مانتے تھے اور نہ ہی آج ادیب جانتے ہیں_ مجھے آج بھی اسٹیج نہ دیں۔ مائک  بھی نہ دیں۔  میرے ہاتھ میں قلم ،کتاب اورکاغذ ہی رہنے دیں ، ادیب آپ رہیں اور اسٹیج آپ لوگوں کو ہی مبارک ہو !

آج آپ علامہ ،عظیم شاعر، زمین و آسمان کے مشہور ادیب ، ناقد اعظم ،محقق اعظم اور شہر کی تصویر کو تشہیر کرنے والے چند دانشور ، اردو کی روٹی توڑنے والے دشمن اردو  ،کئ  تنظیم کے صدر،سکریٹری ،ممبران اور اس طرح کے کتنے پروگرام کرانے والے بانی حضرات ، اردو کے دوستوں اور دشمنوں ، مجھے پہلی بار آپ لوگوں نے ادب کے طالب علم اور اردو کے خادم کو ادیب مانا ، جانا اور اسٹیج دیا_ اس کےلئے مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ سب کا گلہ وشکوہ کروں یا گلے میں ہار بنا کر ڈالوں ! کیونکہ نہ میں اس کا خواہش رکھتا ہوں نہ میں  اس کااہل ہوں ۔ اس لئے  میں اپنی کم عقلی،کم علمی، کم مائگی،کوتاہ فہمی پر نظر ڈالتا ہوں توخود ہی خود سے اپنی نااہلی پر شرمندہ پاتا ہوں_ آپ بتیا کے ادیب وشاعر بھی مجھے پہلی بار بحیثیت ادیب ومقرر شامل کرکے بے شرمی محسوس کرتے ہونگے_

مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ ہمارے شہر کے شاعروں اور ادیبوں نے مجھے اپنی ذات میں شامل کیا اور بڑی مشکل سے دل پر ہاتھ رکھ کر اپنا اسٹیج میرے حوالے کیا_ مجھ جیسے ادب کے کم علم طالب علم کو ادب پر کچھ لکھنے،بولنے،اورپڑھنے کا موقع فراہم کیا_ اس کے لئے اہل بتیا کے موجودہ سینئر اور اپنے سے جونیئر ادیبوں اور شاعروں کا تہ دل سے شکر گزار ہوں_

مجھے اقرار ہے کہ میں اس منصب کے لائق نہیں تھا_لیکن اس نالائق کو لائق سمجھ کر آپ ادیبوں نےیہ ذمہ داری میرے سر ڈال دی ہے تو یہ اچھی بات نہ ہوگی کہ میں اس ذمہ داری سے خود سبکدوشی کےلئے ہاتھ پیر ماروں_لیکن اب آپ ادیبوں سے گزارش ضرور کروں گا کہ میری اس زمہ داری کے نباہنے میں پورا پورا دل کھول کر نہیں تو ہاتھ سے ہاتھ بٹائیں_

ویسے تو میں اپنے تنظیم کے سائے تلے اسٹیج سے اکثر مقالہ اور مضمون پڑھ کر بے حیائی  کے ساتھ آپ ادیبوں و شاعروں کو سنایا کرتا تھا اور خود ہی میاں مٹھو و تیس مار خان بن کردکھایاکرتا تھأ _ آپ حضرات بھی بڑی گرم جوشی سے سراہتے اور محبت سے نوازتے،تعریف کی پول باندھے_ لیکن دل ہی دل میں وعدہ بھی کیا اوراپنا اسٹیج نہ دینے کی قسم بھی کھائ_ ہم  ادیبوں اور شاعرکو جب کوئ تخلیق یا ایک تازی غزل  جنم لی _ پیٹ میں درد سا محسوس ہونے لگتا ہے_جب تک کوئی سنے گا نہیں_ بد ہضمی میں مبتلا رہنا پڑتا ہے_ آجکل سامعین ہم ادیبوں اور شاعروں کو کہاں ملتے دیکھتے ہی بغیر سلام کئےسر جھکائے نودو گیارہ اور رفو چکر ہوجا تے ہیں_  خدا بھلا کرے کرونا جیسے مہلک مرض کا ہم شاعر وادیب شکریہ منائیں حکومت کا کہ لک ڈاون لگا کر ہم شعرا وادبا کو  سماج سے بلکل الگ کرکےگھر میں بیٹھا کر دوتین غزلوں اور دو تین مضمون کے سہارے بین الاقوامی و انٹرنیشنل شاعر وادیب بنادیا،_ لک ڈاؤن سے کسی کو فائدہ ہوا ہو یانہ ہوا ہو لیکن صاحب کتاب کو اور جاہل کتاب کو بہت فائدہ ہوا_صاحب کتاب کو انعام ملا اور جاہل کتاب کو قاری_  وقت گزار نے والوں کو بہت ساری ادبی وبےادبی خشک وخاشاک کا ڈھیر مفت میں مطالعہ کرنے کو ملا__ لک ڈاؤن سے پہلے سال کی بہترین کلاسیکل کتاب  ترازو میں تول کر  وزن سے پتہ کی جاتی تھی کہ کون سی کتاب ایواڈ دینے کے لائق ہے اور کون سی نالائق_ لیکن لک ڈاؤن میں سال کی بہترین کتاب مطالعہ کرکے منتخب کی گئی اور اس نا انصافی کے دور میں بھی صحیح حق دار کو اس کا حق ملا _اس ترقی کے دور میں تعلیم یافتہ روزگار مطالعہ کےلئےپھر سے لک ڈاؤن ضروری ہی نہیں بلکہ لازمی قرار دیتے ہیں _اردوشاعری میں لڑکیوں کے ہاتھوں قتل ہونا اردو شاعری کی بہترین روایات اور اخلاقیات کی شناخت  میں سے ایک ہے_اگر عاشقی بدتمیزی ہوتی تو بچوں کی نصابی کتابوں میں نہ میرتقی میر کاذکر ہوتا نہ غالب ومومن خان مومن نظر آتے_ بلکہ سب کے سب بد تمیز کہلاتے_!!

دور جدید میں وہی برتر ہے جو بے وقوف ہے!!جتنا بڑا بوقوف اتنا ہی بڑا برتر ہے_آج پہلی بار ہمارے سینیر ادیبوں نے بحیثیت ادیب اور مقرر دعوت نامہ دیا تو میں نے خود اپنے ہاتھوں کی لکیریں بناتا اور بگاڑتا دیکھا _ میرا ہاتھ میری قوت ارادی کا پابند پایا_فخر سے اپنی بیگم محترمہ کو آ واز دی _.میری آواز پر بیگم کو یقین نہ آیا_پھر بھی میرے پاس آئی _ بولی کیا بات ہے_؟

میں نے دعوت نامہ فخر یہ طور پر اس کے حوالہ کیا تو پڑھتے ہوئے بولی_!!  جب سے آپ سے شادی ہوئ ہے _اس وقت سے کل تک آ پ کو سامعین کی حیثیت سے مدعو کیا جاتا رہا_لیکن آ ج بحیثیت مقالہ نگار دعوت مل گیا ہے_ میں سمجھی کے آپ کو کچھ ہو گیا کیا_؟

شادی کے بعد سے کل تک آرزو تھی کہ آپ مجھے زور زور سے آوازیں دیں لیکن یہ برسوں کی تمنا جودل میں تھی آج پوری ہوئ_جب آپ کے شہر کے

ادیبوں نے آپ کو آج ادیب ہونے کا سرٹیفیکٹ دیا_ اس کے لئے میں ان کا شکریہ ادا کروں یا ہاتھ پاؤں چوموں “لیکن پتہ نہیں کیوں!! آج تو میرا سر شرم سے جھکتا چلا جارہا ہے_ پہلے آپ ازاد تھے,_اب سینیر ادیبوں کے غلام بننے جارہے ہیں_اود وہ لوگ اپنا بوجھ آپ کے کمزور کاندھے پر ڈالنا چاہ رہےہیں_” میں اپنے سینیر ادیبوں کے سامنے اپنے نا اہلی کا اقرار کن  الفاظ میں کروں_میرےپاس ان ادیبوں اور شاعروں سے اچھا کلاسیکل زبان ،الفاظ اور جملے بھی نہیں کہ ان ادیبوں کی چاپلوسی کر سکوں_

جاتے جاتے ایک بار پھر آپ سب کا  تہ دل سے شکریہ ادا کرتا چلوں کے آپ لوگوں نے مجھے ادیب جانا اور ادیب سمجھ کر فیض احمد فیض کی شاعری پر کچھ کہنے کا موقع دیا _ لیکن میں فیض اور فائز میں الجھ کر رہ گیا جو موقع غنیمت ملا تھا وہ بھی فسل کر رہ گیا_پھر بھی مجھے سنا ،میری بہکی بہکی باتو ں کو جھیلا،بے ادبی اور بے کار کی باتو ں کو ادب سمجھ کر بے ادبیاں برداشت کیں یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں_ یہ شاعر و ادیب جیسے عظیم لوگوں کی عظیم باتیں ہیں_ اس کے لئے شکریہ، گستاخی معاف_

ختم شد

DISCLAIMER: Views expressed in the above published articles/Views/Opinion/Story/News/Contents are the author's own, and not necessarily reflect the views of Roznama Rashtriya Sahara, its team and Editors. The Roznama Rashtriya Sahara team and Editors cannot be held responsible for errors or any consequences arising from the use of
information contained.
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS