وزیر خارجہ کی یو این میںانسانی حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی

0

خواجہ عبدالمنتقم

ہمارے وزیر خارجہ کا اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل(یو این ایچ آر سی)کے روبرو یہ بیان کہ ہندوستان کسی بھی طرح کا تشدد برداشت نہیں کرے گا اور ملکی و عالمی پیمانے پر انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے کام کرتا رہے گا، ہماری حکومت کی اس ضمن میں اپنائی گئی پالیسی کی مکمل طور پر عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے ہمارے آئین میں شامل بنیادی حقوق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بڑے واضح الفاظ میں یہ بات کہی کہ ان حقوق کی آئین میں شمولیت، ہمارے ملک میں حال ہی میں ہونے والے انتخابات اور ہندوستان کی ہزارہا سالہ پرانی مشترکہ تہذیب اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہمارے جمہوری نظام میں انسانی حقوق کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔

یہ بات دوسری ہے کہ ہمارے آئین میں سو فیصد وہ تمام انسانی حقوق عوام کو میسر نہیں ہیں جنہیں انسانی حقوق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے ملک میں حق جائیداد انسانی حقوق کے زمرے میں نہیں آتا۔اس سلسلہ میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے ہمیشہ ا نسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے کمشنر کے ساتھ تعاون کیا ہے اور ہم آئندہ بھی تعاون کرتے رہیں گے۔ یاد رہے کہ سبھی شہری، سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے تحفظ، ان کے فروغ اور عمل آوری کو یقینی بنانے کے لیے جنرل اسمبلی نے 20دسمبر،1993 کو انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے کمشنر کا عہدہ قائم کیا تھااورہائی کمشنر کو جو اختیارات دیے گئے تھے، ان میں دیگر توقعات کے ساتھ ساتھ یہ امید کی گئی تھی کہ وہ انہیں پورا کرنے کے لیے حتی المقدور اقدام کریں گے :
٭سبھی ثقافتی، معاشی، سیاسی اور معاشرتی حقوق جن میں ترقی کا حق بھی شامل ہے، کا فروغ، تحفظ اور مؤثر عمل آوری۔

٭ تمام دنیا میں انسانی حقوق کی مکمل عمل آوری میں درپیش رکاوٹوں کو دور کرنا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تدارک کے سلسلہ میں مؤثر کردار ادا کرنا۔
٭ تمام حکومتوں سے انسانی حقوق کے احترام کے سلسلے میں بات چیت کرنا۔
٭ انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا۔
٭ اقوام متحدہ کے مکمل نظام میں انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ سے متعلق سرگرمیوں کی نسبت رابطہ قائم کرنا۔
٭ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق مشینری کو مزید مؤثر اور مستحکم بنانے کے لیے کوشاں ہونا۔

ہائی کمشنر اپنی رپورٹ ہر سال انسانی حقوق کمیشن کو بھیجتا ہے اور معاشی اور سماجی کونسل کے توسط سے اسے جنرل اسمبلی کو بھی ارسال کیا جاتا ہے۔ ہائی کمشنر جو پالیسی وضع کرتا ہے، اس پر عمل آوری کا کام مرکز برائے انسانی حقوق (Human Rights Center) کرتا ہے۔ اس کا صدر دفتر جنیوا میں ہے۔ یہ مرکز حکومتوں کو تکنیکی معلومات فراہم کرتا ہے اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے تحفظ سے متعلق پروگراموں کی عمل آوری پر نظر رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ متعلقہ حکومتوں کو انسانی حقوق سے متعلق امور کی بابت ضروری مشورے بھی دیتا ہے لیکن اس کے باوجود پوری دنیا میں کس طرح نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے،خواہ وہ مشرق وسطیٰ میں ہویا روس ویوکرین جنگ میں۔ساحل کے تماشائی انسانی امداد کے مقابلے میں فوجی امداد دے کر صورت حال میں مزید شدت پیدا کرتے رہے ہیں۔

یہ کمیشن وقتاً فوقتاً مختلف ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بابت رپورٹیں جاری کرتا رہا ہے اور متعلقہ ممالک ان کو صحیح ماننے سے انکار بھی کرتے رہے ہیں۔اس نے فروری،2025میں ہی بنگلہ دیش اور مشرق وسطیٰ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی رپورٹ جاری کی ہے۔ اس نے 2022میں ہمارے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے بھی رپورٹ جاری کی تھی۔ انسانی حقوق کے تحفظ سے متعلق قانون سازی کے باوجود دنیا کے کونے کونے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی رپورٹیں آتی رہتی ہیں۔دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہوجو اپنے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات سے انکار کی ہمت جٹا سکے۔

خود ہمارے ملک میں کبھی کبھی کمیشن کی کارکردگی بھی سوالات کے گھیرے میں رہی ہے اور یہاں تک کہ اسے ببر بے دنداں (Toothless tiger) کہا گیا۔ پارلیمنٹ نے انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی دستاویزات کا مکمل احترام کرتے ہوئے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے قانون بنایا تھامگر افسوس اب تو سپریم کورٹ کوپارلیمنٹ کے ارکان کو بھی اندرون ایوان شائستگی کا مظاہرہ کرنے کی صلاح دینی پڑ رہی ہے۔

آج بھی ہمارے اس کمیشن کے سامنے پولیس و عدالتی تحویل میں اموات، اجتماعی زنا بالجبر، پولیس فائرنگ میں اموات، پولیس انکاؤنٹرز میں اموات،سرکاری ملازموںکی زیادتیوں، اختیارات کا ناجائز استعمال، ایذا رسانی، بچوں کے استحصال، غیر قانونی حراست وغیرہ سے متعلق ہزاروں معاملات زیر التوا ہیںمگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کمیشن انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق شکایات پر فیصلے دیتا تورہا ہی ہے اورضروری کارروائی کرنے کے ساتھ ساتھ متاثرین کو معاوضہ بھی دیتا رہا ہے۔اس ادارے کو صرف اس صورت میں ہی ایک فعال ادارہ کہا جائے گا جب انسانی حقوق سے متعلق قانون میں باقاعدہ ترمیم کرکے یہ توضیع کی جائے کہ کمیشن کی سفارشات کو قانونی اعتبار سے تاکیدی حکم مانا جائے گا۔

حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ حکومت نے کمیشن کی سفارشات کو ماننے میں کبھی بخل سے کام نہیںلیا مگر سفارش تو سفارش ہے جسے ماننے کے لیے حکومت پابند نہیں۔یہ کمیشن تب تک سوالات کے گھیرے میں رہے گا جب تک تحفظ انسانی حقوق کمیشن ایکٹ، 1993 میں دفعہ2(د)میں جن انسانی حقوق کی تعریف کی گئی ہے، ان کی پامالی کی صورت میں متاثر یا متاثرہ کو، حسب صورت، راحت صرف سفارش کی شکل میں نہیں بلکہ قانونی حکم کی شکل میں نہ ملے۔اس دفعہ کے مطابق انسانی حقوق سے مراد ہیں کسی فرد کی زندگی، آزادی، مساوات اور عظمت کی نسبت ایسے حقوق جن کی آئین کی رو سے ضمانت دی گئی ہو یا جو بین الاقوامی معاہدوں میں شامل کیے گئے ہوں اور بھارت میں عدالتوں کے ذریعہ قابل نفاذ ہوں۔

اب نہ کوئی گلشن اجڑے،نہ کسی کے خلاف کسی بھی قسم کی چھینٹا کشی ہو،بانقاب امیدواروں کو کسی بھی امتحان میں شریک ہونے سے نہ روکا جائے،نہ کسی کی لنچنگ ہو، نہ کسی کو کسی کا لباس، کھان پان برا لگے، نہ کوئی کسی سے سودا خریدنے یا نہ خریدنے کے فرمان جاری کرے، نہ ہر سال یوم خواتین کے موقع پر صنفی امتیاز اورخواتین کی زبوں حالی پر کف افسوس ملا جائے، نہ ماہ رمضان کے مقدس مہینے میں وقفۂ کار میں تخفیف ختم کی جائے، نہ مسجدوں میں کسی مخصوص جگہ سے وضو کے لیے پانی لینے پر پابندی لگائی جائے، نہ کسی کو بانگ اذان اور نہ کسی کو صدائے ناقوس بری لگے، نہ کسی کو ہرا اور کسی کو بھگوا رنگ برا لگے۔ بھگوا رنگ اور ہرا رنگ دونوں دور گزشتہ کی طرح اتنے قریب آ جائیں جتنے ہمارے ملک کے قومی پرچم کے رنگ ہم سب کے الگ الگ رنگ و روپ کو اپنے اندر سموئے ہوئے امن اور محبت کا پیغام دے رہے ہیں۔صرف اس صورت میں ہی ہمارے وزیر خارجہ کی یقین دہانی با معنی ہوگی۔

(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS