خدمت کے نام پرجبراً وصولی

پرائیویٹ ہیلتھ کیئر سسٹم کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ افراد و انشورنس کمپنیوں کو ادائیگی کیلئے یکساں طور پر مجبور کیا جاسکے

0

سنتوش میہروترا

ہندوستان میں دنیا کے سب سے زیادہ غریب ہیں اور یہ دنیا کی سب سے نجی نوعیت کے صحت سسٹم میں سے ایک ہے۔ ہندوستان کی ریاستی اور مرکزی حکومتیں مل کر صحت خدمات پر مجموعی گھریلو پیداوار کا 1.29فیصد سے زائد خرچ نہیں کرتیں، جو کم آمدنی والے ممالک کے مقابلہ میں بھی بہت کم ہے۔ یہاں امیر ممالک کو بھول ہی جائیے جو کم سے کم 7فیصد خرچ کرتے ہیں۔ کووڈ جیسی وبا کے دوران یہ امید تھی کہ مرکزی حکومت 2022تک صحت عامہ کے اخراجات کو گھریلو مجموعی پیداوار کا 2.5فیصد تک بڑھانے کے لیے اپنی نیشنل ہیلتھ پالیسی کے عزم کو نافذ کرنا شروع کردے گی، لیکن سچ اس سے کوسوں دور ہے۔ یہاں تک کہ حکومت کے معاشی مراعات پیکیج2020میں صحت عامہ(پی پی ای، ٹیسٹنگ وغیرہ کے لیے 15ہزار کروڑ روپے کو چھوڑ کر) کے لیے کچھ بھی نہیں تھا اور مالی سال 2021-22میں ہیلتھ بجٹ اور بھی کم ہوگیا(اگر ہم ٹیکوں کی خریداری کی رقم کو نکال لیں)۔

ملک میں مایوسی کا وقت ہے تو اس سے بھی اسپتالوں میں جواب دہی کی کمی کو بڑھاوا ملا ہے۔ آج لوگوں کی نظروں میں پرائیویٹ اسپتالوں کے سلوک اور منمانی وصولی سے متعلق کئی سوال ہیں۔ پہلا، صرف 11 ریاستوں نے سی ای اے کیوں پاس کیا ہے؟ کیا وہ ریاستیں، جنہوں نے قانون بنایا ہے، حقیقت میں اسے نافذ کررہی ہیں، یا نجی خدمات فراہم کرنے والوں کے دباؤ کے آگے جھکی ہوئی ہیں؟ کیا قومی بحران کے وقت کارپوریٹ ہیلتھ کیئرپرووائڈرس کو ذمہ داری کا کوئی احساس نہیں ہے؟

یہ سوال اٹھتا ہے: اگر حکومتیں پرائیویٹ سیکٹر پر اتنا انحصار کرتی ہیں تو جب پرائیویٹ سیکٹر کا عمل غیراخلاقی ہوجائے تب کیا حکومتوں کے پاس کوئی سہارا ہے؟ زیادہ تر ہندوستان میں نہ تو مرکز اور نہ ہی ریاست اور نہ شہریوں کے پاس اس طرح کے لالچ کے خلاف کوئی سہارا ہے۔ ہیلتھ کیئر کونسٹی ٹیوشن کی ریاستی فہرست میں ہے اور ہندوستان کی صرف11 ریاستوں و سبھی مرکز کے زیرالتزام ریاستوں (دہلی کو چھوڑ کر) نے کلینیکل اسٹیبلشمنٹ (رجسٹریشن اور ریگولیشن) ایکٹ، 2010(سی ای اے) کو نافذ کیا ہے۔ اس کلینیکل اسٹیبلشمنٹس(سینٹرل گورنمنٹ) رولس 2012کے مطابق، کلینیکل اسٹیبلشمنٹ دی جانے والی ہر طرح کی خدمت کے لیے مختص چارج اور ایک مخصوص جگہ پر دستیاب سہولتوں کو ڈسپلے کریں گے، لیکن دہلی میں ہی کوئی ایسا نہیں کرتا۔ اگر آپ پہلے سے لیپ ٹاپ کی قیمت نہیں جانتے ہوں تو کیا لیپ ٹاپ خریدیں گے؟ کلینیکل اسٹیبلشمنٹ ریاستی حکومتوں کی مشاورت سے مرکزی حکومت کے ذریعہ جاری چارج کی فہرست کے مطابق، ہر عمل کے لیے ریٹ کی ڈیمانڈ کریں گے۔ معیار کے التزام کو یقینی بنائے گا کہ خدمات کے غیرضروری کام سے بچاجائے۔ لیکن سچ یہ ہے، زیادہ تر پرائیویٹ اسپتال مرضی سے پیسے وصول کرتے ہیں۔
ایکٹ میں یہ بھی ہے کہ اگر رجسٹریشن کی شرائط پر عمل نہیں کیا جاتا تو رجسٹریشن رد کرنا، کسی بھی وقت ممکن ہے۔ لیکن اگر ہندوستان کی زیادہ تر ریاستوں میں یہ قانون ہی نہیں ہے تو اسپتالوں/خدمات فراہم کرنے والوں کو منظوری رد ہونے کا کیا ڈر ہوگا؟
جب ریاست میں سی ای اے نافذ نہیں ہے تب مریضوں کا کیا ہوتا ہے؟ جیسے جیسے وبا پھیلتی گئی، حکومت ہند سے پرائیویٹ اسپتالوں میں ہیلتھ کیئر کی بڑھتی لاگت کو کنٹرول کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ہندوستان میں سرکاری اسپتالوں کے مقابلہ میں تقریباً دوگنے پرائیویٹ اسپتال ہیں۔ ملک کی دیہی آبادی کے تقریباً 85.9فیصد اور شہری آبادی کے 80.9فیصد لوگوں کو ہیلتھ انشورنس کا فائدہ نہیں ملتا۔ زیادہ تر وینٹی لیٹر صرف پرائیویٹ اسپتالوں میں دستیاب ہیں اور اس میں بھی وہ صرف سات ریاستوں میں مرکوز ہیں۔ یہ سب کمیاں مایوس مریضوں کو پرائیویٹ ہیلتھ کیئر کی طرف جانے کے لیے مجبور کرتی ہیں۔
مغربی بنگال نے اعلان کیا کہ کووڈ-19معاملوں کو سنبھالنے والے سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج پوری طرح سے مفت ہونا چاہیے، لیکن زیادہ تر بڑے کارپوریٹ پرائیویٹ اسپتالوں نے مجبوری ظاہر کردی ہے۔ نئی دہلی میں پرائیویٹ اسپتالوں کو 60فیصد بیڈ رعایتی قیمتوں پر دینے کو کہا گیا، لیکن تب بھی کئی مریضوں کو بغیر سبسڈی والے بستر لینے کے لیے مجبور کیا گیا۔ بنگلورو، ممبئی اور حیدرآباد جیسے شہروں کی انتظامیہ نے پرائیویٹ اسپتالوں کے خلاف کامیابی کے ساتھ کارروائی کی ہے، جو اب ان مریضوں کو ریفنڈ کررہے ہیں جن سے کووڈ-19کے علاج کے لیے زیادہ فیس لی گئی تھی۔ تلنگانہ نے زیادہ وصولی کی پہچان آسان بنانے کے لیے آئٹمائزڈ بلنگ لازمی کردی ہے۔
مہاراشٹر نے اپنی انٹیگریٹڈ اسٹیٹ ہیلتھ انشورنس اسکیم میں پرائیویٹ اسپتالوں کی تعداد کو دوگنا کرکے 1000کردیا ہے اور اسے ایک لاکھ روپے یا اس سے کم کی سالانہ آمدنی والے کنبوں تک بڑھا دیا ہے۔ ریاست نے پرائیویٹ اسپتالوں میں کووڈ اور غیرکووڈ علاج کے اخراجات پر ایک ریٹ کیپ بھی نافذ کیا ہے، یہ ایک طریقہ ہے، جسے پورے ملک میں آزمایا جارہا ہے۔
پرسنالائزڈ ہیلتھ کیئر کی قیمتوں کو ریگولیٹ کرنا مرکزی حکومت کے لیے آسان ہونا چاہیے۔ لیکن حکومت نے اب تک وسیع پیمانہ پر کچھ بھی کرنے کی کوشش نہیں کی ہے، حالاں کہ ریاستی حکومتیں وبا میں ریٹ کیپنگ کے ساتھ استعمال کررہی ہیں۔ دہلی میں وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا کہ ایک کمیٹی نے دہلی کے 350پرائیویٹ اسپتالوں میں قیمتوں پر لگام کی سفارش کی تھی: کووڈ-19کے مریضوں کے لیے روزانہ 10ہزار روپے، جنہیں بستر اور پی پی ای کی ضرورت ہوتی ہے۔ آئی سی یو میں داخل ہونے کی ضرورت والے لوگوں کے لیے 15ہزار روپے اور وینٹی لیٹر سپورٹ کی ضرورت والے لوگوں کے لیے 18ہزار روپے طے کیے گئے تھے۔ پنجاب، تمل ناڈو، آندھراپردیش اور جھارکھنڈ سمیت 10سے زیادہ دیگر ریاستوں نے بھی پرائیویٹ اسپتالوں میں کووڈ-19علاج کو سبسڈی دینے کے لیے پالیسیاں بنائیں، لیکن کئی پرائیویٹ اسپتال بغیر سزا اصول کی تعمیل پسند نہیں کرتے ہیں۔
پرائیویٹ اسپتال کسی بھی طرح کے ضابطوں کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، خاص طور پر یہ یقینی بنانے کے لیے کہ یہ رجحان وبا سے آگے نہ بڑھے۔ وہ نہیں چاہتے کہ پیشہ وارانہ صحت کی دیکھ بھال کا ماڈل (occupational healthcare model) متاثر ہو۔ افسوس کی بات ہے کہ پرائیویٹ ہیلتھ کیئر سسٹم کو اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ افراد اور انشورنس کمپنیوںکو ادائیگی کے لیے یکساں طور پر مجبور کیا جاسکے۔ چوں کہ ملک میں مایوسی کا وقت ہے تو اس سے بھی اسپتالوں میں جواب دہی کی کمی کو بڑھاوا ملا ہے۔ آج لوگوں کی نظروں میں پرائیویٹ اسپتالوں کے سلوک اور منمانی وصولی سے متعلق کئی سوال ہیں۔ پہلا، صرف 11 ریاستوں نے سی ای اے کیوں پاس کیا ہے؟ کیا وہ ریاستیں، جنہوں نے قانون بنایا ہے، حقیقت میں اسے نافذ کررہی ہیں، یا نجی خدمات فراہم کرنے والوں کے دباؤ کے آگے جھکی ہوئی ہیں؟ کیا قومی بحران کے وقت کارپوریٹ ہیلتھ کیئرپرووائڈرس کو ذمہ داری کا کوئی احساس نہیں ہے؟
(مضمون نگار ہیومن ڈیولپمنٹ اکنامسٹ ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS