آزاد ہندوستان میں پہلی بار ہوگی ذات پر مبنی مردم شماری

0

پرمود بھارگو

پہلگام حملے پر پاکستان کے خلاف عوامی غصے کے درمیان نریندر مودی حکومت نے ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان کر کے ملک کو حیران کر دیا ہے۔ وزیراعظم کی زیرصدارت مرکزی کابینہ کی سیاسی امور کی کمیٹی نے اگلی مردم شماری کے ساتھ ذات کی بنیاد پر افراد کی گنتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ بالخصوص کانگریس کے راہل گاندھی ذات کی مردم شماری کا مطالبہ پرزور طریقہ سے پارلیمنٹ سے سڑک تک اٹھاتے رہے ہیں۔ بہار اسمبلی انتخابات سے قبل اس فیصلے کے اعلان کو حکومت کا ایک بڑا سیاسی- سفارتی اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ ویسے بھی مودی عین وقت پر اپوزیشن کے ایشوز کے تناظر میں اچانک فیصلے لے کر ایشوز کو اپنے حق میں کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ خاص طور پر بہار انتخابات کے تناظر میں اس ایشو کی اہمیت کو جانچا جائے گا۔

غلامی کے دور میں غیر ملکی حکومت نے پہلی بار ذات کی بنیاد پر مردم شماری کرائی تھی۔ لیکن آزاد ہندوستان میں نہرو جی جب وزیراعظم بنے تو انہوں نے اس کی ضرورت کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔ چیف منسٹر نتیش کمار نے مرکزی حکومت کی خواہش کے خلاف بہار میں بھرپور طریقے سے ذات کی مردم شماری کرائی تھی۔ تب سے راہل گاندھی سمیت اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ نے اسے ایشو بناکر پورے ملک میں ذات کی بنیاد پر مردم شماری کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن بعد میں نتیش کمار، جنہیں پارٹی کی حمایت حاصل تھی، نے این ڈی اے اتحاد میں شامل ہو کر اس مطالبے کو حاشیہ پر ڈال دیا تھا۔ کرناٹک کی سابقہ کانگریس حکومت نے بھی ذات کا سروے کرایا تھا، لیکن اس کے اعداد و شمار آج تک منظرعام پر نہیں لائے گئے۔ دراصل آئین کے آرٹیکل246کی مرکزی فہرست میں مردم شماری کو رکھا گیا ہے، اس لیے ریاستوں کو ذات کی مردم شماری کرانے کا حق نہیں ہے۔

یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہوسکتی ہے کہ ذات، تعلیم اور معاشی حیثیت کی بنیاد پر جمع کیے گئے اعداد و شمار سے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو نافذ کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس لیے ذات پر مبنی ریزرویشن کا فیصد مستقبل میں بڑھایا جا سکتا ہے ؟ پالیسیاں بنانے میں بھی ذات کی مردم شماری کی رپورٹ کو عمل میں لایا جاسکتا ہے۔ لیکن ریزرویشن کو لے کر سماج میں جو مخمصے اور مایوسی بڑھ رہی ہے، وہی انتہا ذات پر مبنی مردم شماری میں بھی دیکھنے کو مل سکتی ہے ؟ کیونکہ ریزرویشن کی بنیاد توذات پر مبنی گنتی ہی ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ذات کی مساوات کی بنیاد پرہی انتخابی ٹکٹیں تقسیم کرتی ہیں۔ ایس پی، بی ایس پی، جنتا دل، جے ڈی یو ذات پر مبنی اور اسد الدین اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم فرقہ پر مبنی ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ذات کی گنتی سے معاشرے کی ساخت مضبوط ہوگی ؟ موجودہ وقت میں درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کا شمار ذات کی بنیاد پرہی کیا جاتا ہے، پھر بھی ذات کا تانابانا اپنی جگہ بدستور ہے۔ نتیش کمار نے انتہائی پسماندہ اور انتہائی دلت ذاتوں کی تقسیم کی بنیاد پر ہی جے ڈی یو کا وجود قائم کیا ہوا ہے۔ بی جے پی اب اس میں نقب لگا رہی ہے۔ مرکز کی نریندر مودی حکومت میں پسماندہ طبقات کا ہی غلبہ ہے۔ مودی خود بھی اسی زمرے سے آتے ہیں۔ اس زمرے کے ایچ ڈی دیوے گوڑا بھی وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ یعنی سیاست میں جو ہوشیار ہیں وہ اپنی چالاکی سے ذات کی تمام حدیں عبور کرتے ہوئے آئین کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہو سکتے ہیں۔

90کی دہائی میں وی پی سنگھ کے وزیراعظم رہتے ہوئے جب منڈل کمیشن کی سفارشات کو نافذ کیا گیا تھا، تب سے ذات کی مردم شماری کا مطالبہ شدت سے اٹھتا رہا ہے۔بہار سمیت دیگر ریاستوں سے یہ مطالبہ مختلف نظریات رکھنے والی سیاسی جماعتیں اٹھاتی رہی ہیں۔ دراصل منڈل کے بعد ملائم، لالو، شرد یادو اور نتیش کمار نے اس سیاست کو رفتاردی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اترپردیش اور بہار میں یہ سیاست کانگریس کو بے دخل کرکے خوشحالی کے عروج پر پہنچ گئی۔ ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کے سوشلسٹ نظریے سے نکلااس سیاست کا نعرہ ہے کہ ’جس کی جتنی سنکھیا بھاری، اس کی اتنی حصہ داری‘۔ تاہم ان مطالبات کی وجہ سے2011کی مردم شماری کے ساتھ ایک الگ فارمیٹ پر سماجی، معاشی اور ذات پر مبنی مردم شماری کرائی گئی تھی۔

لیکن اصل مردم شماری کے ساتھ کی گئی اس گنتی کے اعداد و شمار نہ تو منموہن سنگھ کی حکومت نے عام کیے اور نہ ہی نریندر مودی حکومت نے؟ اس طرح کی مردم شماری کا مطالبہ کرنے والے لیڈروں کا کہنا ہے کہ اس کے نتائج سے حاصل کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر جن ذاتوں کی جتنی آبادی ہے، اس بنیاد پر فلاحی اسکیموں کے ساتھ سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کا فائدہ ملنا چاہیے؟ دراصل ذات پات کی مردم شماری ایک ایسا ایشو ہے جس میں سطح پر تو خوبیاں نظر آتی ہیں لیکن کئی خوفناک خدشات بھی اس کی کوکھ میں چھپے ہوئے ہیں۔ تاہم آناً فاناً اتنے سنگین ایشو پرلیا گیا کوئی آسان فیصلہ مستقبل میں مشکل ثابت ہوسکتا ہے ؟ تاہم ہندوستان میں1931کی ذات پر مبنی مردم شماری کی بنیاد پر یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ پسماندہ طبقات کی آبادی 52 فیصد ہے، جسے اس مردم شماری کے حامی60فیصد تک مانتے ہیں۔ 2011میںضلع وار ذات کے نمونے کی بنیاد پر پسماندگی کا اندازہ کیا گیا تھا، لیکن اس کے نتائج متضاد پائے گئے۔ نتیجتاً کوئی ایک ذات ایک ضلع یا صوبے میں پسماندہ تھی تو وہی ذات دوسرے صوبے میں سماجی، معاشی اور تعلیمی لحاظ سے قابل اور خوشحال تھی۔ راجستھان میں مینابرادری، جہاں طاقتور ہے، وہیں مدھیہ پردیش میں پسماندہ ہے۔ اسی وجہ سے مدھیہ پردیش میں یہ ذات ریزرویشن کے دائرے میں آتی ہے۔ 2014 میں نریندر مودی کی قیادت میں این ڈی اے کی حکومت بنی تھی۔ تب دیہی ہندوستان کا تو ڈیٹا جاری کردیا گیا، لیکن ذات کا نہیں کیا گیا۔ 2021 میں حکومت نے سپریم کورٹ کو دیے حلف نامہ میں کہا کہ ڈیٹا میں تکنیکی خامیاں ہیں۔ اس میں 46لاکھ ذاتیں ہیں جو قابل اعتبار نہیں ہیں۔ اس لیے ڈیٹا جاری نہیں کیا جائے گا۔ یہ واضح ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری کے نتائج کو عددی طاقت کی بنیاد پر ریزرویشن دیا جاتا ہے تو سماج میں عدم مساوات کے ساتھ تلخی بھی پیدا ہوگی۔

ذات پر مبنی ریزرویشن کے تناظر میں آئین کے آرٹیکل 16کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ریزرویشن کا انتظام ہے۔ لیکن ریزرویشن کسی بھی ذات کی مجموعی ترقی کی بنیاد نہیں بن سکتا ؟ کیونکہ ریزرویشن کے سماجی تحفظات کا تعلق صرف وسائل کی تقسیم اور دستیاب مواقع میں حصہ داری سے ہے۔ اس ریزرویشن کا مطالبہ پڑھے لکھے بے روزگاروں کے لیے روزگار اور اب دیہی غیر ہنر مند بے روزگاروں کے لیے سرکاری اسکیموں میں حصہ داری سے جڑ گیا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی ریزرویشن کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ لیکن جب تک حکومت جامع اقتصادی پالیسیوں کو نافذ کرکے اقتصادی طور پر کمزور طبقوں تک نہیں پہنچتی، تب تک پسماندہ یا نچلی ذات کے لوگوں یا آمدنی کے پیمانے پر پچھلے کنارہ پر بیٹھے شخص کے معیار زندگی میں مطلوبہ بہتری نہیں آسکتی۔

کسی زمانے میں ریزرویشن کا تعلق سماجی انصاف سے ضرور تھا، لیکن تمام ذاتوں اور طبقوں کے لوگوں کے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جس طرح سے ملک میں پڑھے لکھے بے روزگاروں کی فوج تیار ہوگئی ہے، اس کا مؤثر حل ریزرویشن جیسے فرسودہ اوزار سے ممکن نہیں ہے ؟ اس لیے حکمراں جماعت اب سماجی انصاف سے متعلق سوالات کا حل ریزرویشن کا ہتھیار استعمال کرنے کے بجائے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرکے نکالے گی تو بہتر ہوگا ؟ اگر ووٹ بینک کی سیاست سے ہٹ کر اب تک دیے گئے ریزرویشن کے فوائد کا دیانتداری سے جائزہ لیا جائے تو ثابت ہو جائے گا کہ جن ذاتوں کو یہ فائدہ ملا ہے وہ جزوی تبدیلی بھی نہیں لاسکیں، مکمل تبدیلی کو تو چھوڑ دیں۔ عالمگیریت کے دور میں خوردنی اشیا کی دستیابی سے لے کر تعلیم، صحت اور رہائش سے متعلق جتنے بھی ٹھوس انسانی سروکار ہیں، ان کا حصول اس لیے اور مشکل ہوگیا ہے، کیوں کہ اب انہیں صرف سرمایہ اور انگریزی تعلیم کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایسے میں جو لوگ ریزرویشن کے حقیقی استفادہ کنندگان ہیں، وہ پیسے کی کمی کے سبب مطلوبہ اہلیت اور انگریزی کا علم حاصل نہ کرپانے کی وجہ سے حاشیہ پر نظرانداز ہوئے پڑے ہیں۔ تاہم ریزرویشن کے تمام فائدے وہ لوگ اٹھا رہے ہیں جو پہلے ہی ریزرویشن کا فائدہ اٹھا کر معاشی اور تعلیمی مقام حاصل کر چکے ہیں۔

بہار میں ہوئی ذات پر مبنی مردم شماری کے اعداد و شمار کے منظر عام پر آنے کے بعد ان اعداد و شمار سے جو اندازے سامنے آئے وہ وہی تھے جو پہلے لگائے گئے تھے۔ لہٰذا اس کا کوئی خاص مطلب نکلنے کے بجائے انتخابات میں ذات کی سیاست اور ملازمتوں میں ’جس کی جتنی سنکھیا بھاری، اس کی اتنی حصہ داری‘ کی طرز پر مطالبہ ہونے سے زیادہ نہیں ہے۔ تاہم اس مردم شماری کے اعداد و شمار سامنے آنے سے پہلے ہی زیادہ تر ریاستوں میں ریزرویشن75فیصد کو عبور کرچکا ہے۔ بہار میں پسماندہ طبقے کی آبادی27.12فیصد ہے اور انتہائی پسماندہ طبقے کی آبادی36.01فیصد ہے جو کل آبادی کا63فیصد ہے۔ اس کے علاوہ دیگر ذاتوں میں درج فہرست ذاتوں کی تعداد19.65فیصد اور درج فہرست قبائل کی تعداد1.68فیصد ہے۔ اعلیٰ ذاتوں کا تناسب 15.52فیصد ہے۔ چونکہ یہ اندازے پہلے سے ہی موجود تھے، اس لیے ہم اسے محض بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری کی دستاویز کہہ سکتے ہیں۔ ریاست کی کل13کروڑ7لاکھ آبادی میں سے81.99فیصد ہندو اور17.7فیصد مسلمان ہیں۔ بہار کے سیاسی اور انتظامی نظام پر نظر ڈالیں تو اب تک یادووں کا غلبہ رہا ہے۔ اب اس شمار میں جو انتہائی پسماندہ ذاتوں کے36فیصد اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، ان کی حصہ داری پر بڑا سوال کھڑا ہوگا۔ اس سماجی انصاف کے لیے او بی سی ریزرویشن کو27فیصد سے زیادہ کرنے کا مطالبہ ملک بھر میں اٹھ سکتا ہے۔

1931کے بعد پہلی بار ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کا ڈیٹا سامنے آیا تھا۔ اس شمار میں بھی تقریباً ذاتوں کے فیصد کا یہی اندازہ تھا۔ 1990میں منڈل کمیشن کی سفارشات کے نفاذ کے33سال بعد ذات کی سیاست کا ایک نیا باب شروع ہوگیا تھا۔ ابھی درج فہرست ذاتوں کے لیے15فیصد، درج فہرست قبائل کے لیے7.5فیصد اور او بی سی کے لیے27فیصد سمیت کل 49.5فیصدریزرویشن کا آئینی التزام ہے۔ سپریم کورٹ نے ریزرویشن کی زیادہ سے زیادہ حد50فیصد مقرر کی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود کئی ریاستوں نے اس حد کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس لیے بہتر ہوتا کہ اس مردم شماری میں ذات کے ساتھ ساتھ معاشی اور تعلیمی ڈیٹا بھی جمع کیا جاتا۔ کیونکہ آگے اور پسماندہ طبقات میں سے جو انتہائی پسماندہ ہیں، ان میں سے کئی نسلی گروہوں کی حالت انتہائی قابل رحم ہے۔ شاید اسی لیے 81 کروڑ سے زیادہ غریبوں کو مرکزی حکومت مفت اناج فراہم کر رہی ہے۔ یہ اعداد و شمار تقریباً اتنے ہی ہیں، جتنے ریزرو ذاتوں کا فیصد بہارکی مردم شماری میں آیا ہے۔

(مصنف سینئر ادیب اور صحافی ہیں۔ )
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS