قطب اللہ
جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فلسطین جنگ اب لبنان میں منتقل ہوچکی ہے یہ ان کی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ یہ پروپگنڈہ اسرائیل نواز طاقتیں کررہی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح کی تشہیر دنیا کے سامنے اسرائیل کو نہ صرف اہم ثابت کرے گی بلکہ فسطائی طاقتوں اوراس کے حامیوں کو بڑا سکون پہنچے گا۔ اس کی قلعی اس وقت کھل جاتی ہے جب ذرائع ابلاغ پر ایسی خبریں آنے لگیں کہ بحیرۂ احمر میں حوثی انصاراللہ نے دواسرائیلی بحری جہازوں کو تباہ کردیاہے جو اس کے لئے اشیائے ضروری لے کر جارہے تھے۔ حماس کے مجاہدین نے خان یونس میں صیہونی فوجی دستوں پر حملے کے ساٹھ فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔
خبریں تو یہ بھی ہیں کہ گزشتہ ہفتہ شام میں ہزاروں کی تعداد میں سابق افغان طالبان جن کا تعلق فاطمیون بریگیڈ سے ہے وہ شام میں پہنچ چکے ہیں۔ وہاں انہوں نے بیان دیاکہ اگرحزب اللہ چاہے تو ہماری مدد لے سکتاہے۔ ہم اس کے کمانڈروں کے ہدایات کے منتظر ہیں۔ فلسطین جنگ اب مزید سنگین دورمیں داخل ہوچکی ہے۔ جہاں اب باری صیہونی افواج کے خسارے کی ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ اسرائیلی جنگی طیاروں کی اندھا دھند لبنان میں بمباری جاری ہے اور یہاں بھی اس نے ہٹلر کی پالیسی تیار کرتے ہوئے عام شہریوں کو نشانہ بنانا شروع کردیاہے۔ جہاں اب تک چودہ سو سے لے کر دوہزار تک افراد جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں ،ان میں معصوم اوربے گناہ شہریوں کی اکثریت ہے۔
اس قسم کے حملے کرنے کے بعد اسرائیل جھوٹا پروپگنڈہ کرتاہے کہ ہم نے اس جگہ بمباری کی ہے جہاں حزب اللہ کے بڑے بڑے کمانڈر چھپے بیٹھے تھے، عالمی ذرائع ابلاغ جب ان کے نام پوچھتاہے تو پتہ چلتاہے کہ وہ سب زندہ ہیں ۔ اسی طرح اس نے غزہ میں کارپٹ بمباری کرکے عام شہریوں کو شہید کیاتھا اورجن حماس کے لیڈروں کو مارنے کا دعویٰ کیاتھا وہ سب ابھی تک زندہ ہیں ۔ اسی طرح اس نے بیروت میں حزب اللہ کے ایک لیڈر قاسم صفی الدین کو شہید کرنے کااعلان کیا تھا۔اسی طرح اس نے غزہ میں یحییٰ السنوار کو کئی بار شہید کرنے کادعویٰ کرچکاہے جو آج بھی اس کیلئے موت کا پیغام بنے ہوئے ہیں۔
صیہونیوں نے اگر چہ لبنان پر بمباری کرکے اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش ضرور کی ہے ،کیونکہ مجاہدین کے پاس ایئر فورس نہیں ہے۔ البتہ زمینی سطح پر اس کی ناک میں حزب اللہ نے دم کررکھاہے اوراُس کی پیدل فوج کی صف کے صف کو کاٹ کررکھ دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ صہیونی افواج میں بدامنی بری طرح پھیل چکی ہے اوروہ پوری طرح شکست خوردہ ہوکر راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔10 اکتوبر 2024 کے اس واقعے کے بعد سے اسرائیلی فوجی بری طرح اخلاقی واعصابی شکست کے احساس سے نیم مردنی حالات سے گزررہے ہیں۔ جب جنوبی لبنان کی سرحد پر اپنے پچاس فوجیوں کی لاشوں کو حزب اللہ نے اٹھانے نہیں دیا بلکہ اس کام پر معمور صیہونی ہیلی کاپٹروں پر بھی راکٹوں سے حملہ کرکے انہیں بھاگنے پر مجبور کردیا۔ اس تصادم میں اسرائیل کے دوہیلی کاپٹربھی زمین پر مرے ہوئے پرندے کی طرح آگرے۔ جس کا اعتراف خود اسرائیلی میڈیانے باضابطہ طور پر کیاہے۔
امریکہ نے ایک بار پھر اسرائیل کو انتباہ دیاہے کہ وہ اپنے توسیع پسندانہ ارادے کو ترک کردے نیز ایران کے ایٹمی وقدرتی گیس اورتیل تنصیبات پر انتقامی حملے کو بھول جائے، ورنہ پھرہمیں اپنے ساتھ نہیں پائے گا۔ پھر ہم نیتن یاہو کی کوئی مدد نہیں کرسکیں گے۔ امریکہ بھی ایران کی اس خطرناک دھمکی سے کانپ اٹھاہے کہ ایران نے اپنے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کے اس اعلانیہ پر عمل کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسرائیل نے مغربی میں واقع ہمارے تیل اورگیس کے میدانوں میں آگ لگادی تو اس سے نہ صرف اسرائیل کا وجود خطرے میں پڑجائے گا۔ بلکہ بہت سارے ہمارے عرب دوست بھی خمیوں میں آجائیں گے اور سردیوں کی آمد آمد ہے اور پھر اس حملے کے بعد پورا یوروپ ٹھٹھرتا نظرآئے گا۔ ہماری سڑکوں پر پھر موٹرگاڑیوں کی بجائے پہلے کی طرح بگھیاں اورگدھا گاڑیاں چلنے لگیں گی۔
اس حملے کی سنگینی سے متعلق ایرانی صدر خود اوران کی کابینہ کے کئی ممبران نے نہ صرف عرب ممالک اورکئی ملکوں کے خصوصی دورے کرچکے ہیں اوروہاں کے سربراہوں کو یہ سمجھادیاہے کہ اس کے بعد ہم امریکہ کے تین بڑے حاشیہ بردار متحدہ عرب امارات،بحرین اور اردُن کا کوئی لحاظ نہیں کریں گے۔ اس کا اثر یہ ہواکہ مذکورہ تینوں ممالک نے فوری طور پر خاموشی توڑتے ہوئے اسرائیل کو باور کرایاہے کہ ایران پر کسی بھی قسم کے حملے میں ہم اپنے فضائی حدود کو ہرگز استعمال نہیں کرنے دیں گے اسی قسم کے موقف کا اظہار سعودی عرب نے بھی کیاہے۔ ایرانی صدر ڈاکٹرمسعود کے ریاض دورے کے موقع پر وہاں کے وزیر خارجہ شہزادہ فرحان نے کہاکہ اگرایسی صورت حال پیش آئی توہم اسرائیل کو اپنے فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے ،اگرکسی قسم کی کوشش کرنے کی جرأت کی گئی تو ہم اس کا سخت جواب دیں گے۔ واضح ہوکہ مغربی ایشیا میں امریکا اور دوسری طاقتوں کی اسلحہ ساز کمپنیوں نے اپنے جدید ترین اورخطرناک قسم کے مہلک ہتھیار اسرائیل سے بڑھ کر سعودی عرب کو دئے ہیں۔ سعودی عرب کی فوجی طاقت اسرائیل سے کہیں زیادہ ہے تو ایک اور بڑے مسلم ملک ترکی کے بھی تیور الگ نظرآئے۔ صدر رجب طیب اردگان یوں تو شروع سے ہی غزہ جنگ میں حماس کی کھل کر حمایت کررہے ہیں لیکن اس بار تو اسرائیل سے اپنے سارے کاروباری رشتہ توڑ کر حماس کی ہر طرح کی مدد کرتے نظرآرہے ہیں۔ انہوں نے بھی کہاکہ اگر ایران پر حملہ کرنے کی جرأت اسرائیل نے کی تو ہم کھل کر ایران کا ساتھ دیں گے ۔ظاہر بات ہے کہ ایسے میں اگر اسرائیل ترکی کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کرے گا تو نیتن یاہو کو سوبار سوچنا ہوگا کیونکہ ترکی ناٹو کا ممبر ہے اور ناٹو کے اصول اور ضوابط کی روسے کسی ناٹو ممبر کے خلاف حملہ ہوتا ہے تو یہ سارے ممبر ممالک پر حملہ سمجھا جائے گا۔
اسی اثنا غزہ کے خان یونس، بیت لائحہ اوررفح شہر میں السنوار کے جوانوں نے کئی اسرائیلی بستیوں پر حملے کرکے تیس صیہونی فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیاہے تواسرائیل نے ایک بار پھر فلسطینیوں پر دانا پانی بند کرنے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے وہاں زندگی مزید سنگین ہوگئی ہے۔ اسرائیل نے تو اب لبنان میں اقوام متحدہ کی امن فوج پر بھی حملے شروع کردئے ہیں۔ 1978ء سے لبنان اسرائیل سرحد پر تعینات عالمی امن فوج اپنی ڈیوٹی دیتی آرہی ہے۔ گزشتہ 10 اکتوبر کو حملہ کرکے صیہونیوں نے چار امن فوجیوں کو مارڈالا ،ان میں سے دو کا تعلق سری لنکا سے اوردو کا انڈونیشیا سے ہے ۔ اس پر متحدہ اقوام سمیت امریکہ نے بھی سخت احتجاج کیاہے۔ اس کے بعد نتین یاہو پر یہ اثر پڑاکہ رسمی طور پر یہ بیان دیاکہ ٹھیک ہے ہم اس کی جانچ کرائیں گے۔ واضح ہوکہ نیتن یاہو غزہ میں متحدہ اقوام کے امدادی کیمپوں پر نہ صرف بمباری کرچکاہے بلکہ اس کی امدادی گاڑیوں کو راکٹ سے اڑاکر طبی عملے کو موت کے گھاٹ اتارچکاہے ۔اب اس کی پوزیشن ان بھیڑیوں کی طرح ہوگئی ہے جن کے دانت نے انسانی خون کا مزا چکھ لیا ہے۔
[email protected]
حرم کی پاسبانی کے لیے: قطب اللہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS