عصرحاضر کی سب سے تلخ سچائی یہ ہے کہ انسان آج اپنی زندگی کو طول دینے کے بجائے لذت کام و دہن میں اس قدر محو ہے کہ وہ رفتہ رفتہ خود کو فنا کی طرف لے جا رہا ہے۔ مگر جب یہی ذائقہ حکومت کی نگاہ میں خطرہ بن جائے اور جلیبی و سموسہ بھی سگریٹ کی طرح قومی دشمن قرار دیے جائیںتو سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی صرف چینی اور تیل ہی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے؟ یا یہ کسی بڑی حقیقت سے نظریں چرانے کی دانستہ کوشش ہے؟
مودی حکومت کی حالیہ ہدایات کے مطابق، سرکاری اداروں کے کیفے ٹیریاز اور عوامی مقامات پر جلد ہی ایسے وارننگ بورڈز نصب کیے جائیں گے جن میں ہندوستانی اسنیکس جیسے سموسہ، جلیبی، گلاب جامن، وڑا پاؤ، لڈو اور سنگھاڑامیں شامل چینی اور چکنائی کی مقدار واضح طور پر درج ہوگی۔ ناگپور ایمس کے مطابق یہ فوڈ لیبلنگ کی ایک نئی سمت ہے،جس میں شوگر اور ٹرانس فیٹ کو ’نیا تمباکو‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ آئی سی ایم آر نے بھی اپنی حالیہ سفارشات میں چینی اور چکنائی کی روزانہ مقدار کو محدود رکھنے پر زور دیا ہے۔
اعدادوشمار واقعی چونکا دینے والے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 77 ملین ہندوستانی پہلے ہی ٹائپ 2 ذیابیطس میں مبتلا ہیںاور مزید 25 ملین اس بیماری کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ آئی سی ایم آر کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں 56 فیصد بیماریاں غیر صحت بخش طرزِ زندگی اور خوراک سے جڑی ہوئی ہیں۔ اندازہ ہے کہ 2050 تک 45کروڑ ہندوستانی موٹاپے کا شکار ہوں گے۔ اس وقت ہر پانچواں ہندوستانی زائد وزن کا حامل ہے۔
اس تشویش کا اظہار وزیراعظم مودی خود فروری 2024 میں ’من کی بات‘ میں کرچکے ہیں،جہاں انہوں نے موٹاپے کو ایک قومی چیلنج قرار دیا اور اسے ذاتی نہیں بلکہ ’خاندانی ذمہ داری‘ بتایا۔ مشہور شخصیات کو اس مہم کا چہرہ بنایا گیا اور تیل و چینی کے استعمال میں کمی کی تلقین کی گئی۔ تاہم یہ سارا منظر اس وقت مضحکہ خیز دکھائی دیتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ملک میں لاکھوں بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 19.5کروڑ ہندوستانی غذائی قلت کا شکار ہیں اور 79کروڑ غذائیت سے بھرپور خوراک خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان کی درجہ بندی،جنوبی ایشیا کے تمام ہمسایہ ممالک سے نیچے ہے۔
اسی پس منظر میں جب وزارت صحت کی جانب سے بورڈز اور انتباہات کی خبریں سامنے آئیں تو کئی ماہرین نے اسے ’شاہی طنز‘ قرار دیا۔ یہ وہ ملک ہے جہاں 5 سال سے کم عمر کے 60 فیصد بچے غذائی قلت سے متاثر ہیںاور وہ بھی ایسے وقت میں جب امیر طبقے کی شادیوں پر ہزاروں کروڑ روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت سنگھاڑا یا جلیبی پر وارننگ لگا دے تو یہ محض ’علامتی مداخلت‘ بن کر رہ جاتی ہے،حقیقی اصلاح نہیں۔
تاہم،اس تمام ہنگامے اور عوامی ردعمل کے تین دن بعد حکومت کی جانب سے ایک حیران کن یوٹرن سامنے آیا۔ مرکزی وزارت صحت نے وضاحت کی کہ حکومت کی طرف سے جلیبی یا سموسے پر وارننگ بورڈ لگانے کی کوئی تجویز یا حکم نامہ جاری نہیں کیا گیا ہے اور اس حوالے سے گردش کرنے والی خبریں حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ یعنی جو مہم ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا اور کچھ ادارہ جاتی ذرائع کی بنیاد پر حکومتی اقدام کے طور پر دیکھی جا رہی تھی،اب وہ سرکاری طور پر مسترد کی جاچکی ہے۔
یہ انکار بذات خود کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ کیا ابتدائی خبریں محض میڈیا کی طرف سے بڑھا چڑھا کر پیش کی گئیں؟ یا پھر حکومتی ردعمل عوامی ناراضگی کے بعد آیا؟ کیا واقعی وزارت صحت کا کوئی اندیشہ خاموشی سے واپس لے لیا گیا؟ یہ سوالات غیر معمولی نہیں،کیونکہ گزشتہ کئی برسوں میں حکومت کی بہت سی پالیسیاں ابتدا میں جارحانہ انداز میں سامنے آئیںاور پھر عوامی دبائو یا انتخابی مصلحت کے تحت پیچھے ہٹنا پڑا۔
حکومت کے کسی بھی قدم کو صرف صحت کی بہتری کیلئے مخلصانہ اقدام مان لینا بہت سادہ لوحی ہوگی۔ خصوصاً اس وقت جب فوڈ سیکورٹی،غذائی عدم مساوات اور سرمایہ دارانہ لابیاں اپنی جگہ موجود ہیں۔ ریاست کایہ کام نہیں کہ حکومت لوگوں کے ذاتی ذوق و اختیار میں زبردستی دخل دے،بلکہ اس کااصل کام یہ ہے کہ وہ ایسی فضا پیدا کرے جس میں ہر شہری کو متوازن،محفوظ اور معیاری خوراک تک رسائی حاصل ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ جلیبی اور سنگھاڑا خود مرض نہیں،بلکہ اس طرز زندگی کا حصہ ہیں جو سست روی،بے تحرکی اور غیر شعوری انتخاب پر مبنی ہے۔ اگر حکومت واقعی صحت مند معاشرے کی خواہاں ہے تو اسے شعور،تعلیم،ورزش اور معاشی مساوات پر محنت کرنی ہوگی۔ کیونکہ صحت صرف خوراک سے نہیں،طرز حیات سے بھی مشروط ہے۔ اور یہ بات نہ جلیبی سے ثابت کی جا سکتی ہے،نہ ہی اس پر وارننگ بورڈ لگا کر۔