پنکج چترویدی
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، دنیا میں کتے کے کاٹنے سے ہونے والے ریبیز سے 36 فیصد اموات ہندوستان میں ہوتی ہیں۔ یہ تعداد 18,000 سے 20,000 ہے۔ ریبیز کی وجہ سے ہونے والی اموات میں 30 سے 60 فیصد معاملات میں متاثرین کی عمر 15 سال سے کم ہوتی ہے۔ اس سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا کہ ایک بھی شخص کی جان اس طرح جائے تو یہ انسانیت پر سوالیہ نشان ہے اور اسے بچانے کے لیے حکومت اور معاشرے کو سخت اقدامات کرنے چاہئیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ہی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں ہر سال شراب نوشی سے تقریباً 2,60,000 (2 لاکھ 60 ہزار) سے زیادہ لوگوں کی موت ہوتی ہے۔ یہ اعداد 2019 کے اعداد و شمار پر مبنی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ شراب نوشی سے سب سے زیادہ متاثر 20 سے 39 سال کی عمر کے نوجوان ہیں۔ شراب نوشی سے جگر، دل، کینسر اور حادثات سے متعلق اموات شامل ہوتی ہیں۔ بھارت میں ہر سال تمباکو اور گٹکھے کے استعمال کی وجہ سے تقریباً 13.5 لاکھ (1.35 ملین) لوگوں کی موت ہوتی ہے۔ یہ اوسطاً روزانہ 3,700 سے زیادہ اموات کا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر اموات کینسر (خاص طور پر منہ کا/اورل کینسر)، امراض قلب، پھیپھڑوں کی بیماریاں اور تمباکو سے متعلق دیگر بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ 90 فیصد منہ کے کینسرکے کیسز ہندوستان میں تمباکو یا گٹکھے کے استعمال سے متعلق ہیں۔ یہ ڈیٹا اسی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا ہے۔
سوال اٹھنا لازمی ہے کہ جو ذمہ دار لوگ کبھی شراب اور گٹکھے پر مکمل پابندی کے لیے سپریم کورٹ تو کیا اپنے محلے کی گلی میں کھڑے نہیں ہوئے، انہیں کتوں سے اچانک اتنی نفرت کیوں ہوگئی؟ زمین پر پیدا ہونے کے بعد انسان نے سب سے پہلے کتا پالنا شروع کیا تھا۔ ہمیں پتھر کے زمانے (تقریباً 4000 قبل مسیح سے 2500 قبل مسیح) کے انسانی کنکال کے ساتھ کتے کی تدفین کے شواہد برزہوم (جموں و کشمیر) سے ملے ہیں۔ زمانہ قدیم میں کتا شکار میں انسان کی مدد کرتا تھا، پھر وہ گھر اور فصلوں کی حفاظت بھی کرتا تھا، سب سے اہم بات یہ ہے کہ کم خوراک کے باوجود وفادار رہنے کی اس کی خصوصیت نے آج کتے کو انسان کے ذریعے پالے جانے والے سب سے قابل اعتماد اور سب سے زیادہ تعداد والا جانور بنا دیا۔ آخر ایسا اچانک کیا ہوا؟
’’بیلوں کے گلے میں جب گھنگھرو جیون کا راگ سناتے ہیں۔۔۔‘‘ یہ گانا بہت زیادہ پرانا نہیں ہے۔ اس زمانے میں بیل گھر کے وقار اور دروازے پر بندھی گائے پاکیزگی کی علامت ہوا کرتے تھے۔ دھیرے دھیرے ٹریکٹر آیا، جب کاشت کاری ہی کم ہو گئی اور ٹریکٹر نام کا ’’ہاتھی‘‘دروازے پر باندھ دیا گیا تو کھیتی باڑی گھاٹے کا سودا بن گئی۔ بیل غائب ہوگئے اور گائے بے یارومددگار۔ جن لوگوں نے گائے کو دروازے سے ہٹا کر گئوشالہ میں لے جانے کو مقدس کام بنایا، وہی طبقہ اب سڑکوں سے کتوں کو ہٹانے کی دلیلیں دے رہا ہے۔ یہ وہی طبقہ ہے جو حکومت کی اس اسکیم کی حمایت کرتا ہے جس میں قانون فطرت کے خلاف صرف بچھیا پیدا کرنے کے سیرم گاؤں گاؤں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ صرف ریاست اترپردیش میں ہی 16 لاکھ سے زیادہ بے سہارا گائیں موجود ہیں۔ پورے ہندوستان میں بے سہارا گایوں کی صحیح تعداد کے لیے مویشیوں کی قومی مردم شماری 2025 کی رپورٹ کا انتظار کیا جا رہا ہے لیکن گزشتہ مردم شماری اور مختلف ریاستی رپورٹوں کے مطابق، یہ تعداد 50 لاکھ سے زیادہ سمجھی جاتی ہے جبکہ ہر گاؤں میں گایوں کے لیے چاراگاہ کی زمین کون ہڑپ گیا؟ اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ گئوشالاؤں کی تعداد اس کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے اور جو ہیں بھی، ان میں سے زیادہ تر ایسی بدانتظامی کا شکار ہیں کہ انہیں گایوں کا قبرستان کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگا۔
کیا کبھی اس بات پر غور کیا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی، خاص طور پر شدید گرمی اور اچانک زیادہ یا بہت زیادہ بارشوں کے راست اثرات ان بے سہارا کتوں ہی نہیں، دیگر جانوروں پر بھی پڑ رہے ہیں اور جب انسان اتنی بڑی تبدیلی کو سمجھنے سے قاصر ہے تو ظاہر ہے کہ کتوں کو اس سے ہم آہنگ ہونے میں وقت تو لگے گا ہی۔ ایسے میں جب موسم کی وجہ سے انسان بھی ان پر غصے کا اظہار کرتے ہیں تو ان کی حیوانی فطرت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی دن بہ دن بڑھتی ہوئی شہرکاری کی وجہ سے شور، ٹریفک، آلودگی، بے ترتیبی سے پڑے کچرے سے نان ویجیٹیرین کھانا اور پھر اس کا عادی ہو جانا، احاطوںمیں چمکتی روشنیوں نے کتوں کو بے چین کر دیا ہے۔ ہم آپ تو لائٹس بند کرسکتے ہیں لیکن شہروں میں رہنے والے کتوں سے لے کر پرندوں تک کو کوئی ایسی سہولت میسر نہیں!
اس سال 6 اگست کے دہلی ہائی کورٹ کے اس حکم پر بھی غور کرنا ہوگا جس میں جج صاحب نے کہا تھا کہ ’’کتے دنیا کے سب سے پیارے جانور ہیں اور انسانوں کے بہترین دوست ہیں۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کتوں کی حفاظت کی جائے اور عزت دی جائے۔ یا تو کتے گھر میں ہوں یا کسی پناہ گاہ میں۔ سڑکوں پر کچرا کھاتے ہوئے نہیں۔ انسان اور کتے، دونوں ہی پریشان ہیں۔ نہ تو انسان محفو ظ ہیں، نہ ہی کتے۔‘‘ کاش سپریم کورٹ، انسان کی کتوں کے تئیں بڑھتی ہوئی نفرت کے مدنظر اتراکھنڈ ہائی کورٹ کا جولائی 2018 میں دیا گیا حکم پڑھتا جس میں لکھا تھا- ’’جانوروں کو بھی انسان کی ہی طرح جینے کا حق ہے۔ انہیں بھی حفاظت، صحت اور ظلم کے خلاف انسانوں کے برابر حقوق حاصل ہیں۔‘‘
فی الوقت یہ لگتا ہے کہ ملک میں کوئی بڑا مسئلہ نہیں بچا ہے اور کچھ لوگ ذہنی مریض کی طرح سلوک کرتے ہوئے کتوں کو ہٹانے کے حوالے سے ایسے ایسے دلائل دے رہے ہیں- ایک نے کہا کہ کتے نہیں ہوں گے تو صفائی رہے گی- ریل ہو یا محلے کا پبلک ٹوائلٹ اس میں توڑپھوڑ، چوری اور سلیقہ سے استعمال نہ کر کے گندہ کرو گے، تو کتے ہی آئیں گے؟ گھر کے باہر پالیتھین لہرا کر کچرا پھینکنے، گاڑی چلاتے ہوئے چپس کے پیکٹ یا کیلے کے چھلکے پھینکنے والے بھی کتے ہی ہیں؟ اپنے بچوں کا پاخانے والا پوتڑا (جسے آج کل ہگی کے نام سے فروخت کیا جاتا ہے) پھینکنے والے بھی کتے ہی ہیں؟؟؟
زمین پر موجود تمام جانداروں، چاہے وہ انسان ہی کیوں نہ ہوں، کی آبادی پر کنٹرول ضروری ہے، لیکن اس کے لیے غیر انسانی طریقوں، غیر منطقی دلیلوں اور ذمہ داری سے بچ کر ظلم کا سہارا لینے کا مشورہ دینے والے ذہنی مریض ہی ہیں۔بے سہارا کتوں کی نس بندی اور ویکسی نیشن کی ذمہ داری ان سبھی کو لینی چاہیے جو سپریم کورٹ کے حکم سے متفق نہیں۔ اگر 50 کتوں کی ذمہ داری، ان کی ویکسی نیشن، نس بندی، اس کی معلومات ان کے گلے میں لٹکے پٹے میں درج کریں جیسے عام اقدامات سول سوسائٹی ذمہ داری سے کرلے تو اس مسئلے کا حل ہو سکتا ہے۔
pc7001010@gmail.com