سرینگر:صریرخالد،ایس این بی
محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کا کہنا ہے کہ گورنر انتظامیہ نے پارٹی کی ایک اہم میٹنگ کو ناکام بنانے کیلئے اسکے کئی لیڈروں کو انکے گھروں سے باہر آںے سے زبردستی روک دیا ہے۔گذشتہ سال 5اگست کے بعد یہ پی ڈٰ پی کی پہلی مجوزہ میٹنگ تھی جسے سرکاری انتظامیہ نے ناکام بنادیا ہے۔اس دوران کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اس سے جموں کشمیر میں ’’نارملسی‘‘کے حوالے سے سرکاری دعوؤں کی پول کھل جانے کی بات کی ہے۔
پی ڈی پی کے جنرل سکریٹری غلام نبی ہانجورہ نے آج کیلئے مولانا آزاد روڑ پر واقع پارٹی ہیڈکوارٹر پر ایک میٹنگ طلب کی تھی جو منعقد ہوتی تو گذشتہ سال 5 اگست کے بعد پارٹی کی پہلی میٹنگ ثابت ہوتی۔تاہم پولس نے پارٹی کے مختلف لیڈروں کو انکے گھروں سے باہر آنے کی اجازت نہ دیکر اس میٹنگ کو منعقد ہونے سے روک دیا۔حالانکہ اسکے لئے کسی بھی جانب سے کوئی باضابطہ حکم جاری نہیں ہوا تھا تاہم پی ڈی پی لیڈروں کو انکے گھروں کی سکیورٹی پر مامور سرکاری اہلکاروں نے بتایا کہ انہیں ان لوگوں کو گھر سے باہر نہ آنے دینے کا حکم ہے۔
بیوروکریٹ سے سیاستدان اور پی ڈی پی کے سینئر لیڈر بنے نعیم اختر نے ایک ٹویٹ میں نہ صرف انہیں اور انکے ساتھیوں کے روکے جانے کا اعلان کیا بلکہ انہوں نے پولس اہلکاروں کی جانب سے انکے لئے گھر کا دروازہ نہ کھولے جانے کا ویڈیو بھی جاری کیا۔انہوں نے اپنے ٹویٹ میں کہا ’’کاغذات پر اور ہائی کورٹ و سُپریم کورٹ میں سرکار کے بیانات کے مطابق آزاد دکھائے جانے کے باوجود پی ڈی پی کی قیادت کسی باضابطہ حکم کے بغیر مسلسل غیر قانونی حراست میں ہے۔مجھے پی ڈی پی کی میٹنگ میں شرکت کرنے کیلئے نہیں جانے دیا گیا اور نہ ہی میرے کسی ساتھی کو اجازت دی گئی،آج کا ویڈیو‘‘۔
نعیم اختر کے اس ٹویٹ کے فوری بعد پی ڈی پی کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل سے بھی پے درپے کئی ٹویٹ ہوئے جن میں پولس کی جانب سے پارٹی لیڈروں کو گھروں سے باہر آںے دینے کی اجازت نہ دئے جانے پر سوالات اٹھائے گئے اور ساتھ ہی کئی لیڈروں کے گھروں کے پھاٹکوں پر لی گئی ویڈیو کلپس جاری کی گئیں جن میں ان لیڈروں کو روکے جاتے دیکھا جاسکتا تھا۔پارٹی صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی ،جو اپنی سرکاری رہائش گاہ کے اندر نظربند ہیں،نے ایک ٹویٹ میں سوال پوچھا کہ انکی پارٹی کے خلاف ’’امتیازی سلوک‘‘ کیوں روا ہے اور اسے سیاسی سرگرمیاں کرنے سے روکنے کا جواز کیا ہے؟
گذشتہ سال 5 اگست کو مرکزی سرکار نے ایک حیران کُن مہم جوئی کے دوران جب جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کیلئے دفعہ 370 کی تنسیخ کرنے کے علاوہ سابق ریاست کو دو یونین ٹریٹریز میں بدلا تھا تو ہزاروں علیٰحدگی پسند قائدین و کارکنوں کے علاوہ تین سابق وزرائے اعلیٰ – فاروق عبداللہ،محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ -سمیت مین سٹریم کے درجنوں لیڈروں کو بھی گرفتار کیا گیا تھا جنہیں مہینوں کی نظربندی کے بعد رفتہ رفتہ رہا کیا گیا تھا تاہم محبوبہ مفتی اور انکے کئی ساتھی انکی سرکاری یا نجی رہائش گاہوں کے اندر مسلسل نظربند ہیں۔حالانکہ فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے سیاسی سرگرمیاں بحال کردی ہیں تاہم پی ڈٰ پی کو حیران کُن انداز میں روکا جارہا ہے جسکی غالباََ وجہ یہ ہے کہ سرکار کو پی ڈی پی کے ’’جذباتی سیاست‘‘ کرنے کا خدشہ ہے جبکہ نیشنل کانفرنس نے یہ بیانات ،کہ جموں کشمیر کے ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہونے کے انکے موقف میں کوئی فرق نہیں آیا ہے،دیکر اپنی وفاداری کا ثبوت دیکر اپنے لئے راستے کھلوادئے ہیں۔
سرکار کی جانب سے پی ڈی پی کی میٹنگ ناکام بنائے جانے کے حوالے سے دیر گئے تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا تھا تاہم اس اقدام کے تئیں سی پی آئی ایم کی جانب سے ایک مذمتی بیان آیا ہے جس میں پارٹی نے کہا ہے کہ پی ڈی پی کو میٹنگ کی اجازت نہ دیکر سرکار نے جموں کشمیر میں نارملسی بحال ہونے کی خود اپنی دعویداری کی پول کھول دی ہے۔