انسٹی ٹیوٹ آف انڈو پرشین اسٹڈیز اور مرکز تحقیقات فارسی نئی دہلی کے اشتراک سے مؤرخہ ۱۴ مئی ۲۰۲۴ کو ایران کلچر ہاؤس نئی دہلی کے سیمینار ہال میں یومِ فارسی کے موقع پر پروفیسر صبر جمشید ہوے والا سابق استاد جواہرلال نہرو یونیورسٹی کی یاد میں فردوسی پرایک ادبی جلسے کا انعقاد کیا گیا۔ پروگرام کا آغاز فردوسی کی زندگی کے حوالے سے ایک مختصر سی ویڈیو کلپ کی نمایش کے ذریعہ ہوا ۔ بعد ازاں جواہرلال نہرو یونیورسٹی کےشعبہ فارسی کی ریسرچ اسکالرمحترمہ نیتو بھاسکر نے فردوسی اور ایرانی ادب و ثقافت کے حوالے سے فارسی اشعار کی قرات کرکے حکیم سخن فردوسی اور پروفسیر صبر جمشید ہوے والا کو خراج عقیدت پیش کیا۔
انسٹی ٹیوٹ آف انڈو پرشین اسٹڈیز کے صدر اور پروگرام کے روح رواں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کے استاد پروفیسر سید اختر حسین نے استقبالیہ خطبہ پیش کیا۔ انہوں نے پروفسیر صبر جمشید ہوے والا کی فارسی زبان و ادب کے حوالے سے ان کی بیش بہا خدمات کا تذ کرہ کیا اور فرمایا کہ یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ انہوں نے پروفیسر ہوے والا جیسے مشفق استاد سے زانوئے تلمذ تہ کیا۔ آپ نے پروفیسر صبر جمشید ہوے والا کی فارسی خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہندوستان میں فارسی زبان و ادب و ثقافت کے فروغ میں کوئ دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا اور تا حیات فارسی زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لئے کوشاں رہیں۔
ایران کلچر ہاؤس، نئی دہلی کے مرکز تحقیقات کے سرپرست جناب قھرمان سلیمانی نے تعارفی کلمات پیش کئے۔ انہوں نے شاھنامۂ فردوسی پر سیر حاصل بحث کی اور اعتراف کیا کہ ہندوستان میں جو مقبولیت شاہنامہ کو حاصل ہوئی وہ اہمیت اور قدر و منزلت کسی دوسرے فارسی متن کے حصّے میں نہیں آئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاہنامہ ہند و ایران تعلقات میں ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ صرف ایران کا ہی نہیں بلکہ ہندوستان کا بھی گراں قدر ادبی سرمایہ ہے۔
ایران کلچر ہاؤس، نئی دہلی کے کاؤنسلر جناب فریدالدین فرید عصر نے بھی اس موقع پر سامعین سے خطاب کیا اور شاہنامہ کی عصری معنویت پربھرپور روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ فردوسی نے شاہنامہ میں زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے جو ہماری زندگی کے لئے مشعل راہ ہیں۔ انہوں مزید کہاکہ شاہنامہ انسانی زندگی کا منشور ہے جس میں وطنداری، طرز معاشرت، اخلاقیات، انسانی حقوق وغیرہ کے مضامین بدرجۂ اتم ملتے ہیں۔
ہندوستان میں ایران کے سفیر عالی وقار جناب ایرج الٰہی نے اس پروقار تقریب میں شرکت فرما کر اس ادبی محفل کو اعتبار بخشا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں ہندوستان اور ایران کے تعلقات پر روشنی ڈالتےہوئے کہا کہ ہند و ایران تعلقات ازمنہ قدیم سے ہی بڑے خوشگوار رہے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان ادبی اور ثقافتی تبادلے نے اس رشتے کو مزید مستحکم کیا ہے۔ انہوں نے اس جلسے میں موجود نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہند اور ایران کی فارسی کی مشترکہ وراثت کے پاسبان اور امین ہونے کے ناطے ان کا فرض ہے کہ وہ فارسی زبان و ادب کی نشر و اشاعت کے لئے کوشش کریں۔
عہد حاضر کے معروف فارسی استاد پروفسیر شریف حسین قاسمی کی پروقار موجودگی سے یہ محفل اور بھی پر رونق ہوگئی۔ مزید بر آں آپ کی پرمغز تقریر نے سامعین کو خوب محظوظ کیا۔ آپ نے فردوسی کی شاہکار کتاب شاہنامہ کے مختلف نسخوں پر گفتگو کی اور اس کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے نوجوان اسکالرز کو خطاب کرتے ہوئے انہیں چند نصیحتیں بھی کیں اور شاہنامہ کی ہندوستان میں اہمیت و معنویت پر اپنے معروضات پیش کئے۔
پورنیہ یونورسٹی کے شعبۂ فارسی کے استاذ اور جواہرلال نہرو یونیورسٹی سے فارغ التحصیل فارسی اسکالر ڈاکٹر مکیش کمار سنہا جن کی ادبی نشو و نماء میں شادروان پروفیسر صبر جمشید ہوے والا کا نمایاں رول رہا ہے اس پروگرام میں بہ نفس نفیس موجود تھے۔ انہوں نے پروفیسر ہوے والا کی انفرادی زندگی، شخصیت، اور تدریسی طریقۂ کار پر خوبصورت گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ شادروان پروفیسر صاحبہ اپنے طرزتخاطب سے بہت کم وقتوں میں اپنے طلبہ کے درمیان مقبول ہو جاتی تھیں۔ اور آپ کو یہ خداداد ملکہ حاصل تھا کہ فردوسی اور دیگر ایرانی و ہندی شعراء کے اشعار و کلام خوب یاد تھے، اور اپنی مترنم آواز میں ہمیشہ آپ خالی وقتوں میں گنگناتی رہتی تھی ۔
اس موقعہ پر ہندوستان میں تاجک سفارتخانہ کےنمایندہ مرزا زادہ حبیب اللہ بھی موجود تھے۔ انہوں نے بھی ہندوستان اور مرکزی ایشیائی ممالک کے درمیان تعلقات استوار کرنے میں فارسی کی اہمیت پر زوردیا۔
جواہر لال نہرویونیورسٹی سے وابستہ افغانستان کے استاداعزازی جناب پروفیسر عبدالخالق رشید نے بھی بطورِ خطیب پروگرام میں شرکت کی ۔ انہوں نے فردوسی کے حالات زندگی اور ان کی شاہکار کتاب شاہنامہ کو موضوعِ سخن بنایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ فارسی زبان کی قدیم کتابوں میں سے ایک اہم کتاب ہے ۔ جو دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ یہ کتاب امن و سلامتی ، حلم و بردباری ، اخوت و مساوات کے اسباق پر مشتمل ہے اور اس کے پیغامات کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
آخر میں یونسکو پارزور فاؤنڈیشن کی صدر محترمہ شہرناز کاما کے ذریعہ ارسال کردہ پیغام بھی پڑھ کر سنایا گیا جس میں انہوں نے آئی آئی پی ایس اور ایران کلچرہاؤس کو اس مشترکہ پروگرام کے لئے مبارکباد پیش کی۔
بالآخر ڈاکٹر ارشد القادری ایسوسی ایٹ پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی نے حاضرین و سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر ارشد القادری نے پروگرام کی نظامت کے فرائض بھی انجام دیے۔ اس موقع پر ڈاکٹرندیم اختر، ڈاکٹر رضا علی خان ، ڈاکٹر محسن علی، شاہ خالد مصباحی، محمد ارشاد، گیتا، پرتیما، سروج،نیتو، چیتن سمیت اردو، فارسی اور عربی کے اساتذہ اورطلبا و طالبات کثیر تعداد میں موجود تھے۔ بعلاوہ مذکورہ بالا ادبی جلسہ میں پارسی جماعت کے افراد بھی موجود تھے جن میں اقلیتی کمیشن کے نائب چیئر مین کیخسرو دیبو قابل ذکر ہیں۔