جمہوریت کی روح محض ووٹ کے حق میں نہیں، بلکہ اختیارات کی تقسیم اور ادارہ جاتی توازن میں پنہاں ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی (NEP)کے نفاذ و عمل درآمد کے سلسلے میں سپریم کورٹ کا 10 مئی 2025 کو سنایاجانے والا ایک فیصلہ نہ صرف آئینی حدود کی صیانت کی مثال ہے بلکہ وفاقی ڈھانچے کے تحفظ کا ایک جاندار اظہار بھی۔ جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس آر مہادیون کی دو رکنی بنچ نے ایڈووکیٹ جی ایس مانی کی جانب سے دائر اس رٹ پٹیشن کو مسترد کر دیا،جس میں تمل ناڈو سمیت تمام ریاستوں کو قومی تعلیمی پالیسی(2020) نافذ کرنے کی ہدایت دینے کی استدعا کی گئی تھی۔ عدالت نے دوٹوک کہا کہ وہ ریاستوں کو کسی مرکزی پالیسی کو اپنانے پر مجبور نہیں کر سکتی۔
عدالت کا یہ موقف ایک ایسی جمہوری حس کی بازگشت ہے جو گزشتہ ایک دہائی سے مرکز کی بڑھتی ہوئی اختیارات پسندی کے سائے میں مدھم پڑگئی تھی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آئین کا آرٹیکل 32 شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے نہ کہ ریاستوں کو مرکز کی پالیسیوں کے نفاذ پر مجبور کرنے کا آلہ؟ عدالت نے بالکل درست طور پر کہا کہ اگر کوئی ریاست قومی تعلیمی پالیسی کو نافذ نہیں کرتی تو یہ اس کی آئینی خودمختاری کا اظہار ہے جب تک کہ اس عمل یا عدم عمل سے کسی شہری کے بنیادی حقوق متاثر نہ ہوں۔
1986 میں منظور کی گئی قومی تعلیمی پالیسی کے بعد 2020 کی قومی تعلیمی پالیسی ایک طویل عرصے کے بعد تعلیمی سمت میں اصلاح کا وعدہ لے کر آئی، لیکن جس طرح اسے ریاستوں پر نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ خود اس وعدے کو متنازع بنا دیتی ہے۔ تعلیم چونکہ آئین کے ساتویں جدول میں درج Concurrent List(ہم آہنگی کی فہرست) کا حصہ ہے، اس لیے ریاستوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مقامی حالات، لسانی ترجیحات اور ثقافتی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی نصاب تشکیل دیں۔ تمل ناڈو نے 1968 سے ’دولسانی فارمولے‘ پر عمل کیا ہے،جس میں مادری زبان اور انگریزی شامل ہیں اور یہ ایک ثقافتی و لسانی خودداری کا مظہر ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی کا تین زبانوں کا فارمولہ، بظاہر تعلیمی اصلاح ہے مگر اس کے پس منظر میں ہندی کو غالب زبان بنانے کا جو شبہ ہے، وہ اسے وفاقی توازن کیلئے خطرہ بناتا ہے۔
سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ اگر کسی پالیسی سے شہری کے بنیادی حقوق متاثر نہ ہوں تو عدالت کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ یہ اصول اس وقت بھی برقرار رہا جب 2000 میں ’’نرمدا بچاؤ آندولن‘‘ کے تحت بڑے ڈیم کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا۔ عدالت نے تب بھی انتظامی پالیسی کے دائرۂ کار کو عدالت کے دائرۂ کار سے جدا قرار دیا تھا۔ یہی فکری استقلال ہمیں حالیہ فیصلے میں بھی دکھائی دیتا ہے۔
عرضی گزار جو نئی دہلی میں مقیم ہے،اس بات پر زور دے رہا تھا کہ تمل ناڈو میں قومی تعلیمی پالیسی نافذ کی جائے جبکہ خود وہ ریاست کا نمائندہ بھی نہ تھا۔ عدالت نے نہایت نفاست سے اس تضاد کو نشان زد کرتے ہوئے کہا کہ یہ عرضداشت آئینی مداخلت کے قابل ہی نہیں۔ اس فیصلے کی معنویت محض قانونی تکنیک تک محدود نہیں بلکہ اس کے دور رس سیاسی اور آئینی اثرات ہیں۔ اس نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا کہ پالیسی سازی ماہرین اور منتخب حکومتوں کا شعبہ ہے اور عدالتیں اس وقت تک اس میں مداخلت نہیں کریں گی جب تک کہ وہ بنیادی حقوق کی پامالی کے دائرے میں نہ آ جائے۔
اگر مرکزی حکومت نے آغاز ہی سے قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ میں ریاستوں کی خودمختاری، ان کے لسانی و ثقافتی تشخص اور تعلیمی ترجیحات کو تسلیم کیا ہوتا تو نہ صرف اس پالیسی کو قبولیت ملتی بلکہ ریاستوں میں مرکز کے خلاف مزاحمت کی فضا بھی پیدا نہ ہوتی۔ اس وقت کیرالہ، مغربی بنگال اور تمل ناڈو جیسے صوبے کھل کرقومی تعلیمی پالیسی کی مخالفت کر رہے ہیں اور یہ محض لسانی تعصب یا سیاسی اختلاف نہیں بلکہ اپنے آئینی اختیارات کی حفاظت کی جدوجہد ہے۔
تعلیم کی مرکزیت، زبان کی یکسانیت اور پالیسیوں کی یک رخیت،‘ درحقیقت اس تنوع کی نفی ہے جو ہندوستان کی شناخت ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جمہوریت کی اصل طاقت تنوع کے احترام اور اختیارات کی تقسیم میں مضمر ہے۔ جب عدالت اپنے اختیار کی حد پہچانتی ہے تب وہ صرف انصاف نہیں کرتی بلکہ جمہوریت کی جڑوں کوبھی مضبوط کرتی ہے۔
یہ بھی غور طلب ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی کا نفاذ صرف تعلیمی ڈھانچے کو نہیں بدلتا بلکہ سماجی، ثقافتی اور لسانی شناختوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر ان شناختوں کو دبایا جائے گا تو نہ صرف آئینی توازن بگڑے گا بلکہ ملک کی وحدت پر بھی سوالیہ نشان لگے گا۔ وفاقی تانے بانے کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ مرکز اپنی طاقت کو توازن، مشاورت اور شراکت داری کے اصولوں کے تحت استعمال کرے۔
مرکزی حکومت کو اس عدالتی تدبر سے سبق لینا چاہیے کہ آئینی وفاقیت کوئی رکاوٹ نہیں بلکہ ایک اصول ہے جس کا احترام ہی جمہوری ہم آہنگی کی ضمانت ہے۔ عدالت نے یہ پیغام دیا ہے کہ طاقت کا مظاہرہ جبر سے نہیں بلکہ اعتدال سے ہوتا ہے۔ ایک مہذب اور بالغ جمہوریت وہی ہے جو اختلافات کے درمیان ہم آہنگی تلاش کرے اور یہی وہ روح ہے جسے یہ فیصلہ دوبارہ زندہ کرتا ہے۔