زیر زمین پانی میں کمی سے پنجاب کے ریگستان بننے کا اندیشہ: پنکج چترویدی

0

پنکج چترویدی

کاشتکاری کی وجہ سے ملک کی سب سے خوشحال ریاستوں میں سے ایک پنجاب کے ریگستان بننے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اگر ملک کے نقشے کو غور سے دیکھیں تو راجستھان کے ریتیلے ٹیلے، سرسبز پنجاب سے زیادہ دور نہیں رہے ہیں۔ وہ تو یہاں بہنے والی پانچ ندیوں نے اسے ہر وقت پانی سے لبریز اور اناج سے بھرا رکھا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران کھیتوں میں دھان اگانے سے یہاں کا پانی ختم ہو گیا اور زمین زہریلی ہوتی گئی۔ پنجاب کے کھیتوں کی سالانہ پانی کی طلب 43.7 لاکھ ہیکٹیئر میٹر ہے اور اس کا 73 فیصد زمینی پانی سے حاصل کیا جا رہا ہے۔ یہی نہیں، ریاست کی ندیوں میں پانی کی دستیابی بھی 17 ملین یعنی ایک کروڑ70 لاکھ ایکڑ فٹ سے کم ہو کر13 ملین یعنی ایک کروڑ 30 لاکھ ایکڑ فٹ رہ گئی ہے۔ جب حکومت نے زیادہ پانی پینے والی فصلوں اور زمین کا سینہ چیر کر پانی نکالنے والی اسکیموں کی خوب حوصلہ افزائی کی تو پانی کے استعمال کے حوالے سے عام لوگوں میں لاپروائی میں اضافہ ہوا اور ملک میں پانی کا اوسط استعمال 150 لیٹر فی شخص، روزانہ کی حد یہاں دوگنی سے بھی زیادہ 380 لیٹر ہو گئی۔

ایک پی آئی ایل کی سماعت کے دوران پنجاب-ہریانہ ہائی کورٹ کے سامنے یہ خوفناک تصویر آئی کہ ریاست میں زیر زمین پانی 2039 تک 300 میٹر سے نیچے چلا جائے گا۔ 2020 میں ہر بلاک میں سینٹرل گراؤنڈ واٹر بورڈ کے ذریعے کیے گئے سروے کے یہ نتائج سامنے آئے ہیں۔ نہ تو ریاست میں فیکٹریوں سے صاف کیے ہوئے پانی کو کھیتوں تک پہنچانے کے پرانے عدالتی حکم پر کوئی کارروائی ہوئی اور نہ ہی زیر زمین پانی کے استعمال کو کم کرنے کا زمینی سطح پر کوئی منصوبہ شروع کیا جا سکا۔ اعداد و شمار اس بات کے گواہ ہیں کہ گزشتہ پانچ برسوں میں ریاست میں دھان کی کاشت کا رقبہ برائے نام بھی کم نہیں ہوا۔

گزشتہ دنوں بھاکڑا بیاس مینجمنٹ بورڈ (بی بی ایم بی) نے کم بارش اور برف باری کی وجہ سے ڈیم میں پانی کی سطح کم ہونے کی وارننگ جاری کر دی ہے۔ اس سال 20 نومبر کو بھاکڑا میں پانی کی سطح 16.33 فٹ درج کی گئی تھی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 15 فٹ کم ہے۔ بھاکڑا ڈیم میں اس وقت اس کی کل صلاحیت کا صرف 63 فیصد ہی موجود ہے۔ دوسرے بڑے ڈیم پونگ میں تو صلاحیت کا صرف 50 فیصد پانی بھرا ہوا ہے۔ اس وقت یہاں پانی کی سطح 1343 فٹ ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 18 فٹ کم بتائی جارہی ہے۔ ڈیموں میں پانی کم ہونے کا مطلب ہے زراعت اور گھریلو استعمال کے لیے اور زیادہ زیر زمین پانی کا استعمال جبکہ ریاست کے ہر ایک بلاک میں زیر زمین پانی پہلے ہی ڈارک زون میں چلا گیا ہے۔
پنجاب سوائل کنزرویشن اور سینٹرل گراؤنڈ واٹر لیول بورڈ کے ایک مشترکہ سیٹیلائٹ سروے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ اگر ریاست نے اسی رفتار سے زیر زمین پانی کا استعمال جاری رکھا تو آنے والے 18 برسوں میں صرف پانچ فیصد رقبے میں ہی زیر زمین پانی بچ پائے گا۔ زیر زمین پانی کے تمام ذرائع پوری طرح خشک ہو جائیں گے اور آج کے بچے جب جوان ہوں گے تو انہیں نہ صرف پانی کے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ زمین کے تیزی سے ریت میں تبدیل ہونے کے خطرے کا بھی سامنا ہوگا۔ اِسرو کی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ صحرائے تھار اب راجستھان سے باہر نکل کر کئی ریاستوں میں جڑ پکڑ رہا ہے۔ ہماری 32 فیصد زمین کی زرخیزی کم ہو رہی ہے جس میں سے صرف 24 فیصد ہی تھار کے آس پاس کے ہیں۔ 1996 میں تھار کا رقبہ ایک لاکھ 96 ہزار 150 مربع کلومیٹر تھا جو آج 2 لاکھ 8 ہزار 110 مربع کلومیٹر ہو گیا ہے۔ ہندوستان کی کل 328.73 ملین ہیکٹیئر اراضی میں سے 105.19 ملین ہیکٹیئر اراضی بنجر ہو چکی ہے جبکہ 82.18 ملین ہیکٹیئر اراضی صحرا میں تبدیل ہو رہی ہے۔ یہ ہمارے لیے تشویش کی بات ہے کہ ملک کے ایک چوتھائی حصے پر اگلے سو برسوں میں صحرا بننے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ہمارے یہاں سب سے زیادہ ریگستان راجستھان میں ہیں، تقریباً 23 ملین ہیکٹیئر۔ گجرات، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور جموں و کشمیر میں 13 ملین ایکڑ اراضی پر ریگستان ہے تو اب اوڈیشہ اور آندھرا پردیش میں ریتیلی زمین کی توسیع نظر آرہی ہے۔ اندھا دھند آبپاشی اور زیادہ فصل پیدا کرنے کے برے نتائج کی مثال پنجاب ہے جہاں 2 لاکھ ہیکٹیئر اراضی دیکھتے ہی دیکھتے بنجر ہوگئی۔ بھٹنڈا، مانسا، موگا، فیروز پور، مکتسر، فرید کوٹ وغیرہ میں زمین میں ریڈیوایکٹیو عناصر کی مقدار حد سے تجاوز کر گئی ہے اور یہی صحرا کی آمد کی علامت ہے۔

1985 میں پنجاب کے 85 فیصد حصے میں لبالب پانی تھا۔ 2018 تک اس کے 45 فیصد میں بہت کم اور 6 فیصد میں پانی کے تقریباً ختم ہو جانے کے حالات پیدا ہو گئے۔ آج وہاں 300 سے 1000 فٹ کی گہرائی میں ٹیوب ویل کھودے جا رہے ہیں۔ ریاست میں 14 لاکھ سے زیادہ ٹیوب ویل لگا دیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر سال اوسطاً 50 سینٹی میٹر زیرزمین پانی کی سطح نیچے جا رہی ہے۔ پورے ملک کا پیٹ بھرنے کے لیے مشہور پنجاب میں 1960 میں صرف 2.27 ہیکٹیئر میں دھان کی کاشت کی جاتی تھی جبکہ دھان پنجاب کے لوگوں کی خوراک کا حصہ تھا ہی نہیں۔ وہ موٹا اناج، گندم، چنے وغیرہ اگاتے تھے- پہلے اپنے لیے رکھتے تھے اور پھر پورے ملک میں تقسیم کرتے تھے۔ اس کے بعد یہاں دھان لگانے کا ایسا چسکا لگا کہ اس کا رقبہ بڑھ کر 30 لاکھ ہیکٹیئر سے تجاوز کر گیا۔ 2019 میں جب حکومت کو اس بحران کا احساس ہوا تو اس نے دھان کی بوائی کے لیے ایک قانون بنا دیا اور بوائی کا مہینہ شدید گرمی کے مئی سے کھسک کر جون کر دیا گیا۔ اس امید میں کہ کچھ دنوں میں بارش ہوگی اور کسانوں کی پانی کی ضرورت قدرتی طور پر پوری ہو جائے گی۔ اس سے پرالی جلانے کا مسئلہ بڑھ گیا۔ براہ راست بوائی کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے لیکن پالیسی ساز موسمیاتی تبدیلی کے بحران کا اندازہ نہیں لگا سکے۔ اسی کا برا اثر ہے کہ بارش ہونے کے دن بھی نہ صرف کھسک رہے ہیں بلکہ بے قاعدہ بھی ہو رہے ہیں، تاہم گزشتہ سال دھان کی کاشت سے پیدا ہونے والے پانی کے بحران کے بارے میں لوگوں کو بیدار کرنے کے لیے ریاستی حکومت کی پریس ریلیززیادہ کامیاب نہیں رہی۔
یہ جاننا ضروری ہے کہ جس جگہ پر طویل عرصے تک پانی بھرا رہتا ہے، اس پر کیڑے مار دوا-کھاد کی ایک نمکین تہہ بن جاتی ہے۔ اگراس کے اگلے کچھ برسوں میں اتنا پانی نہ ملے تو اس کی وجہ سے وہ زمین بنجر ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ضرورت سے زیادہ چرائی، کھیتی باڑی اور نقل و حمل بھی مٹی کی زرخیزی کو کمزور کرتے ہیں۔ مٹی بھی انسانوں کی طرح کچھ آرام مانگتی ہے۔

پنجاب کھیتی سے خوراک تو فراہم کرتا ہی ہے، تقریباً 6 لاکھ مہاجر مزدوروں کو روزگار بھی فراہم کرتا ہے۔ پنجاب کی زمین پر پیدا ہونے والا بحران خود پنجاب کی ہی نہیں، بہار اور اتر پردیش کی معیشت کو بھی متاثر کرے گا۔ آج ضرورت ہے کہ ریاست کے گندم اور دھان کی فصل کے چکر کو توڑا جائے اور زیر زمین پانی کے ری چارج پروجیکٹوں کو ہر گاؤں تک سختی سے نافذ کیا جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاست کی پانچوں ندیوں میں کم ہو رہے پانی کے بہاؤ اور آلودگی کے خلاف فوری اور دور رس کارروائی کی جائے۔ ندیوں سے تجاوزات ہٹائی جائیں، ریت کی کان کنی پر پابندی لگائی جائے، اس میں زہر بہارہے کارخانوں اور مقامی بلدیاتی اداروں پر سختی ہو۔ یاد رکھیں کہ ایک بار صحرامیں توسیع ہو گئی تو زمین کو پہلے والی حالت میں واپس لانے میں صدیاں لگ جائیں گی۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS