ایم اے کنولؔ جعفری
مشرق وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل ایک دوسرے کے ایئر بیسوں، جوہری تنصیبات اور عسکری ٹھکانوں پر آگ برساکر جہنم بنانے کی جس تیزی سے پلاننگ کر رہے ہیں، اس سے اس علاقے کی تباہی تویقینی ہے ہی، امن و سکون کے خواہاں ممالک پر بھی جنگ کے اثرات مرتب ہوں گے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اﷲ خامنہ ای ایک دوسرے کو ایک آنکھ نہیں بھا رہے ہیں۔ دونوں ہی پیچھے ہٹنے کی بجائے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی ضد پر اڑے ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان2000 کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ ہونے کے باوجود سرحدوں پر لمبی دوری تک مار کرنے والی میزائلیں نصب کی جا رہی ہیں۔ کئی بڑی طاقتیں دونوں کی حمایت میں آکھڑی ہوئی ہیں۔ اگر ایک دوسرے کے خلاف صف بند اسرائیل اور ایران کو قبل از وقت نہیں روکا گیا تو پھر عالمی جنگ ناگزیر ہو جائے گی۔
حماس کے جنگجوؤں اور صہیونی افواج کے درمیان جنگ ایک سال گزر جانے کے بعد بھی جاری ہے۔ امریکہ، فرانس اور برطانیہ سمیت کئی ممالک کی حمایت اورجنگی امدادکی فراہمی سے اسرائیل نے غزہ کی عمارتوں، مدرسوں، اسکولوں، اسپتالوں اور عبادت گاہوں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔ غزہ میں 7 اکتوبر، 2023 سے اب تک 42 ہزار سے زیادہ افراد شہید اورتقریباً ایک لاکھ افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد لاغر بزرگوں، بے بس خواتین اور معصوم بچوں کی ہے۔ دوا اور طبی آلات نہیں ہونے کی وجہ سے ہزاروں زخمیوں کی جان پر بن آئی ہے۔ موت اور زندگی کی جنگ سے نبردآزما زخمیوں تک دوائیں اور طبی سہولتوں کو اسپتالوں تک پہنچنے سے روکنے کے لیے ٹینک اور فضائی بموں کی بارش کی جا رہی ہے۔طبی امداد نہیں پہنچنے سے مریض دم توڑ رہے ہیں۔ بے سروسامانی کی حالت میں گھروں سے نکل کر محفوظ ٹھکانوں کی سمت دوڑتے فلسطینیوں کو جلتے بارود کا کفن پہنایا جا رہا ہے ۔ بڑی جوہری طاقتیں اور دیگر ممالک اسرائیلی جارحیت، ظلم و ستم، جبروتشدد اور تباہی و بربادی کے نظارے دیکھ رہے ہیں، غیروں کے ساتھ کئی اپنے بھی تماشبین بنے ہوئے ہیں۔
امریکہ،برطانیہ، فرانس اور آسٹریلیا کے عوام سڑکوں پر اترکر تشدد اور جنگ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے لوگ بھی قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی کی فریاد کر چکے ہیں لیکن کئی خلیجی مسلم ممالک آنکھوں پر مفادات کا کالا چشمہ لگائے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ غزہ کی تباہی اور بربادی کے بعد بھی ان کے اندر کاسویا ایمان جاگنے کو تیار نہیں ہے۔ کیا غزہ میں نسل کشی کے خلاف آواز اٹھانے کی ذمہ داری صرف ترکیہ اور ایران کی ہے؟ کیا کل قیامت میں مسلم لیڈروں سے سوال نہیں ہو گا؟ اسرائیلی فوج کی بربریت کا تازہ واقعہ خان یونس میں پیش آیا،جہاں بیمار والدہ رانیہ کے لیے پانی لینے گئے 13سالہ لڑکے شامل برکتہ کو ناصر اسپتال کے گیٹ کے باہر بمباری میں ہلاک کر دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد سے ماں اور جڑواں بھائی جبرائیل صدمے میں ہیں۔ جنگ میں پورے پورے کنبے گنوانے والی خواتین پوچھ رہی ہیں، ’آخر ہمارا قصورکیاہے ؟‘ کیا کسی خاموش تماشائی کے پاس دل کو گہرائی تک جھنجوڑنے والے ایسے سوالوں کے جواب ہیں؟
جنگ بندی اور فلسطینی عوام کی حمایت میں حزب اﷲ کی جانب سے اسرائیل کے فوجی ٹھکانوں اور تنصیبات پر میزائل اور ڈرونز حملے جاری ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور کئی مغربی ممالک کے عسکری تعاون سے اسرائیل کے حوصلے کافی بلندتو ہیں لیکن اسے حماس، حوثی اور حزب اﷲ کے حملوں کا بھی سامنا ہے۔ اسرائیل حزب اﷲ کی تباہی کے لیے لبنان پر فضائی حملے کر رہا ہے۔ حزب اﷲ بھی اسے فضائی حملوں سے جواب دے رہا ہے۔ اسرائیل، ایران پر حزب اﷲ کی مدد کرنے کا الزام عائد کرتا آیاہے۔ ایک تقریب میںایران آئے حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو حملہ کرکے شہید کرنے کے بعد سے ایران،اسرائیل سے بے حد خفا ہے۔ آیت اﷲ خامنہ ای نے ایران میں گھس کر اپنے مہمان کے قتل پر اسرائیل کو سبق سکھانے کا اعلان کیا اور یکم اکتوبرکو اسرائیل پر تقریباً 200 کے بیلسٹک میزائلوں سے ایسا زبردست حملہ کیا کہ اس کی دھمک پورے عالم میں محسوس کی گئی۔ اسی کے ساتھ پاسداران انقلاب نے دھمکی دی کہ اگر اسرائیل نے جوابی کارروائی کی تو ایران مزید حملے کرے گا۔ پورے عالم میں خوف کا مترادف بنے ایئر ڈوم کے اوپر سے گزرتے ہوئے اسرائیل میں گرے ایرانی بیلسٹک میزائلوں نے زبردست تباہی مچائی۔ اس نے نہ صرف ایئروڈوم کے غبارے کی ہوا نکال دی بلکہ عالمی طاقتوں کو بھی انگشت بدنداں کر دیا۔ ایرانی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیل نے اپنے تمام میزائل اور دفاعی نظام کے علاوہ آئرن ڈوم سسٹم سے لے کر ایئرو سسٹم کو استعمال کیا۔ امریکہ نے بھی اپنے بحری جنگی جہازوں سے حملے روکنے میں اسرائیل کی مدد کا دعویٰ کیا۔ اسرائیل کے خاموش رہنے کی گنجائش اس لیے بھی نہیں ہے کہ اس سے دنیا میں اس کی ساکھ خراب ہو جائے گی۔ نیتن یاہو جنگ کے ایک سال بعد بھی نہ تواسرائیلیوں کو حماس کی قید سے آزاد کراپائے اور نہ ہی حماس کا خاتمہ کر پائے۔ اہداف کی تکمیل کی آڑ میںنیتن یاہو لوگوں کوگمراہ کر رہے ہیں۔ حماس کا نام و نشان مٹانے اور صہیونیوں کو قید سے نکال لانے کے جنون میں اسرائیل کے غزہ پر حملوں میں لوگ مر اور زخمی ہو رہے ہیں۔ اسرائیل نے علاج کے لیے نہ تو اسپتال باقی چھوڑے اور نہ ضروری دوائیاں اور طبی آلات مریضوں تک پہنچنے دیے جا رہے ہیں۔ بھوک، پیاس اور غذائی قلت کے شکار لاکھوں افراد طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ عمارتوں کے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہونے کے بعد غزہ میں سر چھپانے کی جگہ نہیں ہے۔ فلسطینیوں تک خوردونوش کا سامان آنے سے روکا جا رہا ہے۔
حالیہ حملے سے قبل ایران نے دمشق میں اپنی فوج کے کمانڈر کی ہلاکت کے بعد اپریل میں اسرائیل کے اوپر310 ڈرونز اور میزائل داغے تھے۔ عسکری کارروائیوںسے دونوں ممالک یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ مضبوط پوزیشن میں ہیں۔ مضبوط کون ہے؟ فوجی طاقت کے اعتبار سے برتری کسے حاصل ہے؟ اسرائیل کے پاس ایڈوانس ٹیکنا لوجی ہے اور اس کی فضائیہ بہترین جدید طیاروں سے لیس ہے۔اس کے پاس 241 لڑاکا طیارے اورتیزی سے حملہ کرنے والے48 ہیلی کاپٹر ہیں۔ ایران کے پاس جنگی طیاروں کی تعداد 186 ہے اور تیزی سے حملہ کرنے والے ہیلی کاپٹروں کی تعداد 13 ہے۔ اسرائیل کے پاس 67 بحری جنگی جہاز اور ایران کے پاس 101 بحری جنگی جہاز ہیں۔ سی ایس آئی ایس میزائل ڈیفنس پروجیکٹ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے جدید ترین میزائلوں میں ڈیلائلا، جبرئیل، ہارپون، جریکو1-، جریکو2-، جریکو3- اور پوپیئی میزایل ہیں۔ ایران کے پاس 300 کلومیٹر رینج کے شہاب1-، 500 کلومیٹر رینج کے شہاب2-،2,000 کلومیٹر رینج کے شہاب3-، 700 کلومیٹر رینج کے ذولفقار، 750کلومیٹر رینج کے قائم1-،ہیں۔ ایران کے پاس 300سے500 کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت والے فتح110- ہائپرسونک میزائلوں کے علاوہ 3,000 سے زیادہ بیلسٹک میزائلیں بھی ہیں۔ اسرائیل کے پاس فوجیوں کی تعداد 1,70,000 ہے جبکہ ایران کے پاس 6,10,000 فوجی ہیں۔ حالانکہ اسرائیل کے دفاع کی سب سے مضبوط طاقت اس کا آئرن ڈوم سسٹم ہے جو کسی بھی قسم کے میزائل یا ڈروم حملے روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس نے کئی مرتبہ غزہ سے حماس اور لبنان سے حزب اﷲ کے داغے راکٹوں کو فضا میں تباہ کیا ہے۔ اسے دنیا کا واحد ’شارٹ رینج میزائل ڈیفنس سسٹم‘ ہونے کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے لیکن عرف عام میں ہتھیار وہی ہے جو وقت پر کام آئے۔ حال کے حملوں میں حزب اﷲ اور ایران نے ان دعووں کوکھوکھلا ثابت کیا ہے۔
اسرائیل ، ایران سے یکم اکتوبر کے حملے کا بدلہ لینے کی فراق میںتو ہے لیکن اس کے پاس انٹر سیپٹر میزائلوں کی قلت اور دیگر جنگی سازوسامان کا سنگین مسئلہ ہے۔ اس نے امریکہ سے مدد مانگی ہے۔ سپلائی کی رکاوٹوں اور جنگ کے تقاضوں نے اسرائیل کو اپنے دفاعی نظام میں پیدا ہوئی قلت کو دور کرنے کے لیے امریکہ کے انحصارپر مجبور کر دیا ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کو اپنا میزائل شکن نظام تھاڈ اور اسے آپریٹ کرنے والا عملہ بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکہ، ایران کے تیل یا جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے سے جنگ کے خطے میں پھیلنے کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے اسرائیل کوتحمل سے کام لینے کا مشورہ دے رہا ہے۔ 15 اکتوبر کی ’واشنگٹن پوسٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے امریکی صدر جو بائیڈن کو اعتماد میں لینے کے لیے واضح کیا کہ وہ ایران کے تیل یا جوہری تنصیبات پر حملے کی بجائے اس کے فوجی اڈوں پر حملے کے لیے تیار ہے۔ بالفرض اگر اسرائیل وعدے پر قائم نہیں رہتا یا اس کی حماقت سے علاقے میں جنگ پھیلتی ہے تو پھر تیسری عالمی جنگ شروع ہونے کے اندیشے کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔n
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]