فیاض احمدبرکاتی مصباحی: یوم جمہوریہ! بڑی مشکل سے پایا ہے تجھے ہم نے

0

فیاض احمدبرکاتی مصباحی

بات اٹھارہ سو ستاون کی ہے، بات بھی دلی کی ہے جو کائنات میں ایک شہر تھا انتخاب۔ لاجواب۔ تعمیر وترقی میں آج کے پیرس کو منہ چڑھاتا ہوا۔ خوش حال وخو ش خصال۔ علم میں بے مثال۔ دہلی کے فلاسفر ہوں اور کوئی عقلی گتھی نہ سلجھے یہ ہونہیں سکتا۔ علماء کی آپسی چشمک، ادبا کی گرہ بندیاں، تجار کی لائنیں۔ ہر طرف گہما گہمی۔ کیا ٹھاٹ باٹ ہیں ۔ ایسا لگتا ہے وقت کی رفتار تھم گئی ہے۔ جس گلی محلے میں چلے جائیں ایک الگ جہاں آباد ہے۔ چاندنی چوک، قطب مینار، نظام الدین اولیاء کی بستی، غیاث پور، مٹیا محل خود لال قلعے کا وسیع وعریض، خوبصورت جمناکی موجوں سے سرسبز وشاداب رہنے والا خطہ، گلزار ارم کا نمونہ۔ فقیروں درویشوں کی الگ بستیاں ہیں تو تجار کے الگ ٹھاٹ ہیں۔ علماء کا اپنا ہی منفرد مزاج ہے۔ حکما ہیں کہ لگتا ہے زمین کا سینہ چیر دیں گے۔ دیس پردیس سے آنے والا ایک نظر دیکھتا ہے اور دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔ مغلیہ شاہوں کے کروفر۔ سونے چاندی کی ریل پیل۔ مشروبات وماکولات کے الگ الگ سونے سے مرصع، قلعی کیا ہوا۔ خالص سونے کا ہیرے جڑا ہوا برتن جو دیکھتا مبہوت ہوکر رہ جاتا ہے۔۔ ظل الٰہی کا نمونہ۔ باغات ہیں جو دیکھنے لائق ہیں۔ کہیں خوبانی لگا ہے تو کسی علاقے میں کھجور کے درخت سلیقے سے لگائے گئے ہیں۔ اچانک دیکھنے والا صحراء عرب کا گماں کربیٹھتا ہے۔ قسم قسم کے آم، جامن، کٹہل، کشمیری پھل، افغانستانی پھل کی الگ کیاری لگی ہے۔۔ زمین کے سینے پر نہایت بلندیوں پر بسایا گیا عالی شان قلعہ۔ یہ دہلی جسے ایک کمزور انسان دیکھ کر یقین کرلیتا ہے دنیا کے اس خطے پر اب زوال نہیں آنے والا۔ لیکن یہ کیا۔
ایک جاسوس جو تاجر بن کر ملک ملک گھوم رہا ہے، دہلی بھی پہونچتا ہے۔ اس کی قوم نے اپنی قوم کے لیے ایک خوبصورت ملک بنانے کے لیے، زمین پر جنت تعمیر کرنے کے لیے، خدا کی زمین پر کوئی خطہ متعین کرنے کے لیے کہا ہے۔ وہ پوری دنیا گھوم گیا ہے۔ ہر طرف مسلم حکمرانوں کا جاہ وجلال ہے۔ کچھ ممالک میں اندرونی سازشیں ہورہی ہیں۔ لیکن دنیا کی دو سلطنت بڑی اہم ہیں۔ جاسوس کو زمین بھی انہی دونوں میں سے کہیں چاہیے۔
اپنے بڑے دماغ کے لیے ساری صورت حال لکھ بھیجتا ہے کہ ہمارے منصوبے کی زمین صرف دوجگہ ہے لیکن ان دونوں جگہوں پر طاقت ور مسلم حکمران قابض ہیں۔ جب تک دونوں کو اندرسے گھن کی طرح نہیں کھایا جائے گا اپنی قوم کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ پھر کیا تھا چاروں طرف سے تجار کی باڑھ آجاتی ہے۔ تحفہ وتحائف اور خوبصورت دوشیزہ کے حسن کی بالیدگی میں مملکت کے گرفتار ہونے کا زمانہ شروع ہوتا ہے۔ وہ دہلی جس کی سلطنت کا رقبہ اتنا وسیع تھاکہ ایک حصے سے دوسرے حصے پر جانے کے لیے مہینوں نہیں بلکہ سالوں لگ جاتے تھے۔ اس کے حکماء اور امراء خریدے جانے لگے۔ تاجروں کی بھیس میں آئے بھیڑیے دھیرے دھیرے ملک کا ایک ایک خطہ الگ الگ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ دہلی کی سلطنت کونہ صرف دہلی میں سمیٹ دیا بلکہ لال قلعے تک، اس سے بھی کم زمین تک یعنی صرف بادشاہ وقت کے کمرے اور پایہ تخت کے نیچے تک وہ بھی اس صورت حال میں کہ تخت پر بیٹھا ہوا شاہ ہند ایک مریض، اپاہج اور ادنی سپاہی سے بھی کم درجے کا سکندر ہے۔
صدیوں کی خاموش دلی اچانک چیخ اٹھتی ہے۔ ہر طرف ہرکارے دورائے جارہے ہیں۔ شاہ دہلی بے دست و پا ہے۔ کہیں کوئی تیلی حکم دے رہا ہے تو کہیں کوئی بنیا اپنی من مانی کررہا ہے۔ لوگ سمجھ رہے ہیں بغاوت ہوگئی ہے صحیح کہتے ہیں بغاوت ہوئی ہے لیکن انگریزی حکومت کے خاتمے کیلئے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے دہلی سے مغلوں کا نام مٹانے کیلئے۔ جوق در جوق لوگ فوج میں شامل ہورہے ہیں۔ ہر طرف انسانی سر اور گھوڑے دکھائی دے رہے ہیں۔
جنگ ہوگئی۔ شاہان دہلی اپنی بڑی فوج کے ساتھ جنگ ہار گئے۔ جنگ کا بگل بجانے والے علماء اب گرفتار ہورہے ہیں۔ اب دہلی، دہلی نہیں ہے۔ اب وہی دہلی جو بر صغیر ہندوستان کے مسلمانوں کی آبرو تھی مسلمانوں کا قبرستان ہے۔ ہر طرف لاشیں، لٹے ہوئے گھر ہیں۔ بے گھر ہوچکی بیگمات ہیں۔ شاہ زادیاں ہیں۔ پرسکون دہلی ایسی اجڑی کہ پھر دوبارہ اپنی آن آن بان کے لیے ترس گئی۔ درختوں پر علماء کی لاشیں ، کنوئیں میں مسلمانوں کی میتیں، بے آب وگیاہ میدان میں شہزادیوں اور مسلم بچیوں کی بے گوروکفن لاشیں ہیں۔ گدھوں کا غول کا غول انسانی جسم بلکہ مسلمانی جسموں سے مہمان نوازی کے لطف اٹھارہاہے۔ ہر طرف ہوکا عالم ہے۔ خوف ودہشت نے پورے ملک کے خطے خطے اور چپے چپے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ نظر اپنی نظر کو نہیں پہچان سکتی ہے۔ اپنوں کے چہرے ہی اجنبی ہوگئے ہیں۔ ہائے دلی لٹ گئی ہے۔ ان بے زبان، بھاگنے والوں کے بیچ اونچی اونچی پگڑی والے، سینہ تانے، آنکھوں میں رعب ودبدبہ لیے گورے گورے نورانی چہرے والے لوگ بھی ہیں، ان کو علماء کہا جاتا ہے جن پر مقدمہ چلایا جارہا ہے اور وہ فخریہ اپنا جرم قبول کررہے ہیں کہ ہاں ہم نے انگریزوں کی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی کوشش کی ہے۔ کسی کو یہ سوال یاد نہیں ہیں کہ حکومت کے خاتمے کی کوشش ہم لوگوں نے نہیں کی بلکہ بر صغیر سے امن وسکون والی سونے کی چڑیا کہلانے والی سلطنت کا خاتمہ تم لوگوں نے کیا ہے۔ بتاؤ تمہیں کیا سزا دی جائے؟
اب ظلم سہنے کی عادت سی ہوتی جارہی ہے۔۔ ظلم سہنا ہمارے ملک کی عوام کے لیے کوئی بری بات نہیں ہے یہ تو ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے البتہ اب دل میں حکومت کرنے کی خواہش جنم لے رہی ہے۔ایک طاقت ور دشمن کو کیسے بھگایا جائے؟ تحریکیں چل پڑی ہیں۔ اخبارات لکھ رہے ہیں۔ انگریز جو چند ہزار تھے لیکن ان کے ذہنی غلام اسی ملک کے باشندے تھے جو چند گوروں کی خوشیاں حاصل کرنے کے لیے اپنے بھائیوں کا بے دریغ قتل کرتے تھے۔ ہر طرف ہنگامہ ہوگیا۔ ادھر برٹش حکومت بھی ناکام ہونے لگی، اس کے سورج کو گہن لگ گیا تھا ۔ بس کیا تھا لوگوں نے فایدہ اٹھایا۔ تحریک زور پکڑتی چلی گئی اور ملک سے تجارت کے ذریعہ داخل ہونے والے جاسو کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ یہ الگ بات ہے کہ جس وقت اس حکومت کا خاتمہ ہورہا تھا بالکل اس کے قریب ہی مشرق وسطی میں ایک الگ ملک تعمیر ہوچکا تھا۔ 15؍ اگست 1947کا وہ بڑا دن بھی خوشیوں کے سوغات کے ساتھ ملک ہندوستان کے افق پر طلوع ہوا جب اس ملک کو گوروں کی کالی غلامی سے آزادی نصیب ہوئی۔ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم نے لال قلعے سے آزادی کے ساتھ ترنگا لہرایا۔ 29؍ اگست 1947 کو ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی قیادت میں سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی، جن کے کاندھے پر ملک کا نیا دستور مرتب کرنے کی ذمہ داری تھی ۔ دوسال، گیارہ ماہ، اٹھارہ دن کی مدت میں ڈاکٹر صاحب نے پوری محنت وجاں فشانی کے ساتھ نیا دستور مرتب کرکے پارلیمنٹ میں پیش کردیا۔ دستور ساز اسمبلی نے کھلے اجلاس میں دستور کے ہر شق پر بحث کی۔ پھر نومبر 1949 میں اسے قبول کرلیا گیا۔ 24؍ جنوری 1949 کا دن تھا، جس دن تمام ارکان نے نئے دستور پر دستخط کر دیئے۔ البتہ ایک مرد درویش جس کی دور بین نگاہ نے بہت کچھ دیکھ لیا تھا۔ اس قانون کی مخالفت کی اور اس کے ڈرافٹ پر ایک مختصر سا لیکن تاریخی نوٹ لکھا۔ ان کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں۔ ” یہ دستور برطانوی دستور کا ہی اجرا اور توسیع ہے، جس سے آزاد ہندوستانیوں اور آزاد ہند کا مقصد پورا نہیں ہوتا ” یہ الفاظ مولانا حسرت موہانی کے تھے۔ بالآخر 26؍ جنوری، 1950 کو پورے ملک میں نیا قانون نافذ کرکے ” یوم جمہوریہ منایا گیا۔ t

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS