خواجہ عبدالمنتقم
برگد کے سایہ جیسا ہوتا ہے باپ کا ساتھ‘ یہ پیغام رساں و چشم کشا سرخی ہے شاہجہاں پور( میرٹھ) میں نام نہاد فادرس ڈے رسماً منائے جانے سے متعلق اس خبر کی جو روزنامہ راشٹریہ سہارا مورخہ 16 جون،2025 میں شائع ہوئی تھی۔یاد رہے کہ جس طرح کبیرالاشجار برگد کا گھنا اور ٹھنڈا سایہ ہمیں سکون بخشتا ہے، اسی طرح جب تک والد کا سایہ ہمارے سر پر رہتا ہے ہم خود کو مضبوط و محفوظ محسوس کرتے ہیں اور گھر میں ان کی موجودگی ہمیں صرف کسی مخصوص دن ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت سکون بخشتی ہے۔مذکورہ سرخی سے ہمیں بھی یہ ترغیب ملی کہ ہم ملکی قانون(جس کی اہم دفعات سے ہم قارئین کو وقتاً فوقتاً باور کراتے رہے ہیں) اور اقوام متحدہ کی ان دستاویزات کے اہم نکات سے قارئین کو باور کرائیں جن میں بزرگوں اوروالدین کے حقوق کے تحفظ سے متعلق اقدامات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جہاں تک بزرگوں کے احترام اور قدر و قیمت کی بات ہے، اس کے کچھ تو مذہبی اور اخلاقی پیمانے ہیں مگر کچھ قانونی و آفاقی پیمانے بھی ہیں۔
اقوام متحدہ نے 1991 میں بزرگ افراد کے لیے اصول منظور کیے تھے تاکہ دنیا بھر میں بزرگ شہریوں، جن میں والدین کو کلیدی حیثیت حاصل ہے، کے حقوق، وقار اور بہبود کو فروغ دیا جا سکے۔ ان اصولوں میں شامل ہیں انہیں ممکنہ حد تک خودمختار زندگی گزارنے کا حق، معقول خوراک، صاف پانی،آرام دہ رہائش و مناسب لباس کی دستیابی اور تعلیمی، ثقافتی، روحانی، معاشرتی اور اقتصادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے مواقع، ان کی دیکھ بھال، طبی و فلاحی سہولیات اوربزرگ دوست اداروں کی خدمات کی دستیابی اور ان تک رسائی،ان کی عزت و وقار اورانسانی حقوق کا تحفظ،ان کے ساتھ کسی بھی طرح کی زیادتی اور امتیازی سلوک نہ کیا جانا، اپنی کمیونٹی کے متعلقہ امور کی بابت فیصلوں میں شرکت اور اپنے تجربات اور علم کی روشنی میں نوجوان نسل کی رہنمائی وغیرہ۔
ان امور کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہمارے ملک میں بھی 2007میںوالدین اور بزرگ شہریوںکے لیے نان ونفقہ اوربہبود ایکٹ(The Maintenance of Senior citizens and Welfare of Parents Act) وضع کیا گیاتھا۔
اس قانون کی خاص باتیں درج ذیل ہیں:
اس قانون کے مطابق کوئی بزرگ شہری جس میں باپ یا ماں شامل ہے، جو اپنی کمائی سے یا اپنی زیر ملکیت جائیداد میں سے اپنے لیے نان ونفقہ کا انتظام کرنے کے قابل نہیں ہے وہ حسب ذیل سے نان ونفقہ طلب کرنے کے لیے درخواست دینے کا حقدار ہوگا—
٭ باپ یا ماں یا دادا دادی کی صورت میں،اپنے ایک یا ایک سے زیادہ بچوں سے جو نابالغ نہ ہوں۔
٭ بزرگ شہری، بچوں یا رشتہ دار سے
٭بے اولاد بزرگ شہری، رشتہ دار سے
٭ والدین،بچوں سے تا کہ وہ معمول کی زندگی گزار سکیں۔
٭ کسی بزرگ شہری کا ایسے کسی رشتہ دار سے،جس کے پاس معقول وسائل ہوں،بشرطیکہ ایسے بزرگ شہری کی جائیداد اس کے قبضے میں ہو یا وہ ایسے بزرگ شہری کی جائیداد وراثتاً پانے والا ہو۔ اگر ایک یا ایک سے زیادہ رشتہ دار ہوں تو اس تناسب میں جس میں ایسے رشتے دار اس کی جائیداد وراثتاً پائیںگے۔
٭اس قانون کے تحت نان ونفقہ کے لیے درخواست کوئی بزرگ شہری یا ماں یا باپ دے سکتا ہے یا اگر وہ نااہل ہو تو ا س کے ذریعے مجاز کوئی دیگر شخص یا تنظیم۔ ایکٹ کے تحت قائم اپیلی ٹربیونل بھی ازخودسماعت کر سکتا ہے اور عبوری نان ونفقہ کے لیے ماہوار الاؤنس دینے کا حکم بھی جاری کرسکتا ہے۔
٭ جب کوئی بزرگ شہری یا والدین بھارتیہ ناگرک سرکشا سنہتا،2023(مجموعہ ضابطہ فوجداری کی جگہ لایا گیا نیاقانون)کی دفعہ 144کے تحت نان ونفقہ کے لیے اہل ہوںاور اس ایکٹ کے تحت بھی، تو وہ ا ن دونوں قوانین میں سے صرف کسی ایک قانون کے تحت ہی نان ونفقہ کے لیے دعویٰ کرسکیں گے۔
٭اس قانون کے نفاذ کے بعد اگر بزرگ شہریوں نے اپنی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد اس امید پر کسی کو منتقل کردی ہے کہ وہ ان کی ہرطرح کی ضروریات کا خیال رکھیں گے لیکن اگر وہ افراد ایسا کرنے سے انکار کرتے ہیں تو اس صورت میں یہ کہا جائے گا کہ منتقلی دھوکہ دہی اور کسی دباؤ کے تحت کرائی گئی تھی اور اس منتقلی کو باطل قرار دیا جا سکتا ہے۔ (دستاویز انتقال سے وابستہ شرائط کے لیے ملاحظہ فرمائیے سدیش چھکارا بنام رامتی دیوی والا معاملہ (2022LiveLaw (SC) 1011)
٭اس قانون میں اطفال یعنی بچوں کی تعریف میں بیٹا، بیٹی، پوتا اور پوتی کے علاوہ بہو اور داماد کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ کوئی نابالغ بھی اپنے ولی کے توسط سے یابے اولاد والے بزرگ کاکوئی رشتہ دار بھی ان کی نگہداشت کے لیے ذمہ دار ہوگا۔
٭ اگر وہ شخص جسے کفالت کی رقم ادا کرنے کاحکم دیا گیا ہے وارنٹ ملنے کے بعدبھی رقم جمع نہیں کرتاہے تو اسے سزا بھی دی جاسکتی ہے۔ اس قانون میں یہ التزام بھی ہے کہ جو کوئی بزرگ شہری کی نگہداشت یا تحفظ کرنے والا، ایسے بزرگ شہری کو حتمی طور پر دستبرداری کے ارادے سے کسی جگہ پر چھوڑ دے تو وہ بھی مستوجب سزا ہوگا اور اس پر جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔
٭ ’’نان ونفقہ‘‘ میں شامل ہیں پروقار زندگی گزارنے کے لیے خوراک، کپڑے، رہائش، طبی خدمات، علاج و تحفظ۔ والدین و بزرگ شہریوں کی بہبود میں شامل ہیں خوراک، کپڑے،طبی نگہداشت، تحفظ،تفریحی مراکزاور دیگر سہولیات جو بزرگ شہریوں کی جسمانی و نفسیاتی صحت کے لیے ضروری ہوں۔ ’’والدین‘‘ سے باپ یا ماں مراد ہے چاہے حیاتیاتی، متبنت یا سوتیلا باپ یا سوتیلی ماں، چاہے باپ یا ماں کوئی بزرگ شہری ہو یا بزرگ شہری نہ ہو۔’’رشتہ دار‘‘ سے بے اولاد بزرگ شہری کا کوئی قانونی وارث مراد ہے جو نابالغ نہیںہے اور جس کے قبضے میں اس کی جائیداد ہو یا جو وفات کے بعد اس کی جائیداد وراثتاً پائے گا۔ ’’بزرگ شہری‘‘ سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو بھارت کا شہری ہو اور جس نے ساٹھ سال یا اس سے زیادہ عمر مکمل کی ہو۔
٭اس قانون میںبزرگوں کے لیے گھروں کے قیام، ان کی طبی نگہداشت،ان کی جان ومال کے تحفظ، فلاح و بہبود کے لیے تشہیر، بیداری وغیرہ کے لیے سرکاری اقدامات کی بابت التزامات بھی شامل کیے گئے ہیں۔
سچن بنام جھبو مل( آر ایس اے136/2016) والے معاملے میںدہلی ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ والدین کی خود حاصل کردہ جائیداد ہو تو اس میں بیٹے کا کوئی قانونی حق نہیں ہے اور وہ اس مکان میں محض ان کے ر حم و کرم پر اور وہ بھی اتنی مدت تک رہ سکتا ہے جب تک وہ (والدین) اسے وہاں رہنے کی اجازت دیں۔
جسٹس شانتی سروپ دیوان بنام یونین علاقہ چنڈی گڑھ (ایل پی اے تعدادی2013/1007) والے معاملے میں یہ فیصلہ دیا گیا ہے کہ عدلیہ اتنی بے سہارا نہیں کہ وہ ایسے بزرگ شہری کو، جس کے ساتھ اس کے بیٹے کا رویہ ہٹ دھرمی کا اور غیر معقول ہو اور وہ بھی ایسی صورت میں جب باپ نے بیٹے کو الگ مکان تحفے میں دیا ہو اور تجارت کرنے کے لیے مالی امداد بھی فراہم کی ہو، اس ایکٹ کے تحت راحت نہ دے سکے۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]