کسانوں کی تحریک ایک بار پھر شدت اختیار کر چکی ہے اور وہ اپنے دیرینہ مطالبات کیلئے احتجاج کے راستے پر ہیں۔ یہ تحریک نہ صرف حکومت اور مظاہرین کے درمیان ایک چیلنج بن چکی ہے بلکہ عوام کیلئے بھی مشکلات کا سبب بن رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں کسان رہنماؤں کی گرفتاری اور رہائی نے اس تحریک کو مزید توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ علی گڑھ میں بھارتیہ کسان یونین کے رہنما راکیش ٹکیت اوردیگر کسانوںکو گریٹر نوئیڈا جاتے ہوئے حراست میں لیا گیا۔بعدازاں آج انہیں رہا کردیاگیا۔ان کی رہائی کو کسان تنظیموں نے جمہوریت کی جیت قرار دیا۔ ان گرفتاریوں اور رہائیوں نے کسانوں کے عزم اور ان کے حقوق کیلئے جدوجہد کو ایک نئی توانائی دی ہے۔
کسانوں کے اس احتجاج کا پس منظر سمجھنے کے لیے ہمیں گزشتہ کئی برسوں کے دوران ہونے والے واقعات پر نظر ڈالنی ہوگی۔ دو سال قبل مرکزی حکومت کو تین زرعی قوانین کو واپس لینا پڑا تھا،جو کہ کسانوں کی طویل اور شدید تحریک کا نتیجہ تھا۔ اس وقت حکومت نے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) پر قانونی ضمانت دینے کا وعدہ کیا تھا،لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ یہ وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ ان کے دیگر مطالبات میں سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد، زرعی قرضوں کی معافی، کسانوں اور مزدوروں کیلئے پنشن اور حصول اراضی ایکٹ 2013 کی بحالی شامل ہیں۔
حالیہ احتجاج اس وقت شروع ہوا جب کسانوں نے گوتم بدھ نگر اور دیگر علاقوں میں زمین کے حصول سے متعلق غیر مساوی معاوضے کے خلاف آواز اٹھائی۔ کسانوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ڈیولپڈزمین کا دس فیصد الاٹ کیا جائے اور ملازمت کے خصوصی انتظامات کیے جائیں۔ ان مطالبات کے ساتھ ساتھ کسانوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ اگر ایک ہفتے میں ان کے مطالبات پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو وہ دوبارہ دہلی کا رخ کریں گے۔ کسان تنظیموں نے حکومت کو ایک ہفتے کا وقت دیا،لیکن اس دوران دہلی میں ٹریفک جام اور عوام کو درپیش مشکلات نے اس تحریک کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ شہری زندگی متاثر ہوئی اور لوگوں کو روزمرہ کے کاموں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،جس سے عوام کی حمایت بھی متاثر ہوئی۔
حکومت کی طرف سے کسانوں کو دہلی میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے دفعہ 187 نافذ کی گئی اور دہلی پولیس نے احتجاج کیلئے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ یہ قدم اس خوف سے اٹھایا گیا کہ کسانوں کی تحریک پرتشدد ہو سکتی ہے یا دہلی میں امن و امان کی صورتحال بگڑ سکتی ہے۔ تاہم،کسان رہنماؤں نے احتجاج کو پرامن رکھنے کی یقین دہانی کرائی اور مطالبہ کیا کہ انہیں جنتر منتر یا رام لیلا میدان میں احتجاج کرنے دیا جائے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی صورت بھی عوام کو تکلیف میں نہیں ڈالنا چاہتے،لیکن ان کے حقوق کے لیے یہ احتجاج ضروری ہے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے ان کے مسائل پر سنجیدگی سے غور نہ کیا تو وہ دوبارہ دہلی کا رخ کریں گے۔ ان کے مطالبات بنیادی طور پر کسانوں کے حقوق اور زندگی کے معیار کو بہتر بنانے سے متعلق ہیں۔ کسانوں نے ہمیشہ پرامن مذاکرات کا راستہ اپنانے کی کوشش کی ہے،لیکن حکومتی بے حسی اور سختی نے حالات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ یہ تحریک اب صرف کسانوں کی نہیں،بلکہ ان تمام افراد کی ہے جو عوامی مسائل اور جمہوریت کے حق میں کھڑے ہیں۔
کسان رہنماؤں کی گرفتاریوں اور رہائیوں نے اس بات کو مزید اجاگر کیا کہ جمہوری نظام میں احتجاج اور اختلاف رائے کا حق کتنا اہم ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی کسانوں کو پرامن رہنے اور عوام کو تکلیف نہ دینے کی تلقین کی،جو کہ جمہوریت کے اصولوں کے تحفظ کا ایک واضح اشارہ ہے۔ کسانوں کا یہ مطالبہ ہے کہ ان کے حقوق اور مسائل پر سنجیدہ گفتگو ہو تاکہ وہ اپنی زندگی بہتر بنا سکیں۔ تاہم،حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ کسانوں کے حقیقی مسائل کو سنجیدگی سے لے اور ان کے مطالبات کو جلد از جلد پورا کرے تاکہ یہ تحریک طول نہ پکڑے اور ملک کو مزید معاشی اور سماجی نقصان نہ اٹھانا پڑے۔
کسانوں کی تحریک اس بات کا ثبوت ہے کہ عوامی مسائل کو نظر انداز کرنے سے نہ تو حکومت مضبوط ہوسکتی ہے اور نہ ہی جمہوریت۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکالے اور ان کی شکایات کا ازالہ کرے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ کسانوں کے مطالبات کو منطقی اور قابل عمل طریقے سے پورا کیا جائے تاکہ ملک کے ترقیاتی عمل میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ اگر حکومت نے کسانوں کے مطالبات پر جلد از جلد توجہ نہ دی تو ملک کی معیشت کو مزید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس وقت یہ ضروری ہے کہ کسانوں اور حکومت کے درمیان ایک مضبوط مکالمہ ہو تاکہ مسائل کا حل نکالا جا سکے اور کسانوں کی محنت کا صلہ انہیں صحیح طریقے سے مل سکے۔
edit2sahara@gmail.com