عفو اور درگزر کے مومنانہ اوصاف : عبدالعزیز

0

عبدالعزیز
حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے، ا س کے بعد شوال کے 6روزے رکھے، وہ سارا زمانہ روزہ رکھنے والے کی مثل ہوگیا‘‘۔ (مسلم)
رمضان کے روزے 10 ماہ کے برابر اور شوال کے روزے دو ماہ کے برابر ہوگئے ہیں، اس طرح 12 مہینے بن گئے۔ نیکی ایک ہو تو دس لکھی جاتی ہیں اور یہ تو کم سے کم ثواب ہے۔ زیادہ کی تو کوئی حد نہیں، 700 گنا اور اس سے زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔ جتنا کسی کا جذبہ اور اخلاص ہوگا اسی قدر اجر و ثواب زیادہ ہوگا۔
’دنیا‘ میں کسی ملک، علاقے اور حاکم کے یہاں اگر اس حساب سے اجرت ملتی ہو کہ ایک مہینہ چھ دن کام کیا جائے اور اجرت بارہ مہینے کی ملے، تو ہر شخص ایسی ملازمت کیلئے بے قرار ہوگا، سفارشیں ڈھونڈ رہا ہوگا۔ شاید ہی ملک کا کوئی باشندہ پیچھے رہ جائے ، لیکن یہ آخرت کا گھر ایسا ہے، جو نظروں سے اوجھل ہے، اس لئے یہاں کروڑوں، لاکھوں، ہزاروں کی جگہ چند سو ہی اپنا نام لکھوانے آتے ہیں اور اپنے آپ کو اس خدمت کیلئے پیش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کے دور میں جنت کی محبت اور دوزخ کے خوف کے جذبات مرجھاگئے ہیں۔ ان کو تازگی اور زندگی دینے کیلئے اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت جام شیریں سے ایمان کو مضبوط کرنا ہوگا۔ دورِ صحابہؓ اس نوع کے مناظر پیش کرتا ہے۔ وہاں انھیں سات دن، تین دن، ایک دن روزہ اور ایک دن افطار پر مشکل سے آمادہ کیا گیا۔ اس محبت کا ایک مظہر نفل روزے کا شوق ہوتا ہے۔ 6دنوں کے روزے پر خواہ مسلسل رکھے جائیں یا غیر مسلسل، صائم الدہر ہونے کی بشارت ہے، اور کیا چاہئے!
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ وہ پودے لگا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے پاس سے گزر ہوا۔ آپؐ نے فرمایا: ابوہریرہؓ! کیا کر رہے ہو؟ عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! اپنے لئے پودے لگا رہا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: میں تمھیں اس سے بہترپودے نہ بتلاؤں؟ میں نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ ! ضرور بتلادیجئے۔ آپؐ نے فرمایا: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّاا للّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ۔ ہر ایک کے بدلے میں تمہارے لئے ایک درخت جنت میں لگے گا۔ (ابن ماجہ)
اس کا استحضار ہو کہ جب ہم ذکر الٰہی سے اپنی زبان تر کرتے ہیںتو سچی خبر دینے والے رسولؐ کے فرمان کے مطابق جنت میں درخت لگا رہے ہوتے ہیں (جن کے پھل آکر کھائیں گے، انشاء اللہ) تو مسنون دعا کو یاد کرنے اور دن رات کے متعین اوقات میں ان کے ورد کرنے کے ہمارے شوق کا کیا عالم ہوگا۔ یہ ہماری ترجیحات میں شامل ہوگا اور ہم دوسروں کو بھی تلقین کر رہے ہوں گے۔
حضرت انس بن مالکؓسے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! کون سی دعا افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اپنے رب سے دنیا اور آخرت میں عفو اور عافیت مانگو۔ اگلے دن وہ پھر آیا اور پوچھا:یا رسولؐ اللہ! کون سی دعا افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا:اپنے رب سے دنیا اور آخرت میں عفو اور عافیت مانگو۔(جواب پاکر چلا گیا)۔ اگلے دن پھر آیا اور پھر پوچھا: یا رسولؐ اللہ! کون سی دعا افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا:اپنے رب سے دنیا اور آخرت میں عفو اور عافیت کا سوال کرو۔ جب تجھے دنیا و آخرت میں عفو اور عافیت مل گئی تو، تو فلاح پاگیا۔ (ابن ماجہ)
گناہوں کی معافی اور آفات و مصائب سے حفاظت ایسی نعمتیں ہیں جو تمام نعمتوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ دنیا وآخرت میں گناہوں کی معافی دنیا میں ایمان اور علم و عمل کی شاہراہ پر بلا روک ٹوک رواں دواں ہونے کی ضامن ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ آدمی کو امن بھی میسر ہو۔ بیماری، معاشی تنگی، طاغوتی قوتوں کے ظلم و جبر، قتل و غارت گری، چوروں، ڈاکوؤں، دہشت گردوں اور تخریب کاروں سے تحفظ حاصل ہو۔ جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہو۔ اہل و عیال، عزیز و اقارب، مسلمان بھائی اور بستی کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں اطمینان کی زندگی بسر کر رہے ہوں، دن کو کام کرتے ہوں اور رات کو بستر استراحت پر بے فکر ہوکر سوتے ہوں۔ اس صورت میں اللہ کی بندگی اور تقویٰ کی زندگی کے سامان میں کوئی کسر نہیں رہ جاتی۔ تب ہی فلاح بھی کامل ہوگی۔
عفو اور عافیت ہر دور میں انسان کا مطلوب رہے ہیں۔ انہی سے انسانوں کو نوازنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہم السلام مبعوث فرمائے اور کتابیں نازل کیں۔ انبیاء علیہم السلام اور اللہ تعالیٰ کے دین کی بدولت انسانوں کو بندگی اور امن نصیب ہوا ہے۔ آج دنیا جس بدامنی سے دوچار ہے، اس کی وجہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے۔ ان حالات میں اللہ کے سامنے عفو و عافیت کیلئے دست سوال دراز کرنے کی ضرورت ہے۔ گناہوں سے معافی مانگنے اور اجتماعی زندگی میں اللہ کے دین کونافذ کرنے سے عافیت اور امن میسر آسکتے ہیں۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! سفر پر جانا چاہتا ہوں۔ مجھے ایسی دعا دیجئے جو میرا زادِ راہ بنے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تجھے تقویٰ کا زادِ راہ عنایت فرمائے۔ اس نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! مزید دعا کیجئے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تیرے گناہ معاف فرمائے۔ اس نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں، مزید دعا دیجئے۔ آپؐ نے فرمایا: تو جہاں کہیں جائے، اللہ تعالیٰ تجھے آسانی سے بھلائی عطا فرمائے۔ (ترمذی)
آج مسلمان اور ان کے معاشروں کو اسی زادِ راہ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے لیکن اسی کی سب سے زیادہ کمی ہے۔ آج ہمارے جملہ مصائب اور محرومیوں کا علاج تقویٰ اور گناہوں سے معافی اور بھلائی کے کام ہیں۔ یہی وہ نسخۂ کیمیا ہے جس نے امت مسلمہ کو دنیا کی امامت و قیادت کے مقام پر فائز کیا تھا اور یہی نسخہ آج پھر اسے قوموں کا امام بنا سکتا ہے۔ ہے کوئی جو اس نسخے کو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی شفقت اور پیارے سے اپنے صحابی کو زادہِ راہ کے تحفے کے طور پر دیا ، اختیار کرے۔ کاش امت مسلمہ بیدار ہوکر اپنے محبوب کی محبت میں تقویٰ کی راہ پر گامزن ہوجائے۔
پھر دعا کروانے کا انداز بھی تو دیکھئے !
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے، تین آدمیوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ خوشی سے ہنستے ہیں: ایک اس آدمی پر جو نماز کی صف میں کھڑا ہے، دوسرا وہ آدمی جو آدھی رات کو نماز پڑھے اور تیسرا وہ آدمی جو لشکر کے میدان سے پیچھے ہٹنے کے بعد بھی میدان معرکہ میں لڑ رہا ہو۔ (ابن ماجہ)
اللہ تعالیٰ اس آدمی سے زیادہ خوش ہوتے ہیں جو بندگی میں زیادہ اونچا ہو۔ یہ تینوں آدمی بندگی میں بلند مقام پر ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ ان کو دیکھ کر انتہائی خوش ہوتے ہیں۔ کتنا خوش قسمت ہے وہ انسان جو باجماعت نماز میں شرکت کرے اور کوشش کرے کہ پہلی صف میں ہو، رات کو تہجد کیلئے نیند اور آرام قربان کرکے اللہ تعالیٰ کے مقربین میں شامل ہوجائے اور جہاد و اقامت دین کے کام میں اپنے مورچے پر ڈٹ جائے۔ دوسرے لوگ بھاگ بھی جائیں تو وہ کھڑا رہے۔ آج کا ایک جہاد اقامت دین اور احیائے دین کا جہاد ہے جو دعوت کے ذریعے ہورہا ہے۔ دوسرا جہادِ آزادی ایسے ممالک میں جاری ہے جن پر طاغوتی طاقتوںنے غاصبانہ قبضے کر رکھا ہے۔ ان دونوں میدانوں میں جو لوگ کام کر رہے ہیں، ان میں وہ شخص اللہ کو زیادہ محبوب ہے جو استقامت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ وہ اللہ کا محبوب نظر ہے۔
حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیت حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ اور دوسروں کو بلایا تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں بھی آپؐ کے اہل بیت میں شامل ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: اس وقت جب تک کسی حکمران کے دروازے پرنہ جاؤ یا کسی امیر کے پاس سوال لے کر نہ جاؤ۔ (الترغیب و الترہیب بحوالہ طبرانی اوسط)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں شامل ہونے کیلئے ضروری ہے کہ حکمرانوں کی خوشامد نہ کی جائے، دین فروشی سے احتراز کیا جائے، ان کے سامنے دست سوال دراز نہ کیا جائے۔ آج اگر اہل دین نبیؐ سے تعلق کے اس تقاضے کو پورا کریں تو انقلاب آسکتا ہے۔ تمام علماء و مشائخ ، تمام مدارس اپنے ذاتی مفادات اور مصالح سے بالاتر ہوجائیں تو پوری امت مسلمہ ان کے ساتھ کھڑی ہوگی اور کفار کے آلۂ کاروں کا اقتدار زمیں بوس ہوجائے گا۔ اہل دین امت مسلمہ کشتی کو بھنور سے نکال لیں گے اور اپنی خود مختاری کا تحفظ کریں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن آدمی کے پاس اس کا کھلا ہوا نامۂ اعمال لایا جائے گا، (وہ اس کو پڑھے گا)، پھر کہے گا: اے میرے رب! میں نے دنیا میں فلاں فلاں نیک کام کئے تھے۔ وہ تو اس میں نہیں ہیں؟
اللہ تعالیٰ جواب دے گا: ’’لوگوں کی غیبت کرنے کی وجہ سے وہ نیکیاں تمہارے نامۂ اعمال سے مٹادی گئی ہیں‘‘۔ (ترغیب و ترہیب)
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS