سروج کمار
چھوٹی اور درمیانی صنعتیں کسی بھی ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہیں۔ ہندوستان میں مائیکرو، چھوٹی اور درمیانی صنعتیں(ایم ایس ایم ای)ملک کی جی ڈی پی میں 30فیصد اور برآمد میں 48فیصد کا تعاون کرتی ہیں۔ ایم ایس ایم ای سیکٹر (Micro Small and Medium Enterprises Sector) سے تقریباً15کروڑ لوگوں کو روزگار ملتا ہے جو کل لیبرفورس کا 40فیصد سے زیادہ ہی ہوگا۔ ایم ایس ایم ای سیکٹر کے بارے میں یہ اعدادوشمار سچ ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس سچ کے پیچھے اندھیرا اتنا گھنا ہے کہ سبھی اعدادوشمار اس میں دھندلے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ معیشت کا یہ سیکٹر اس وقت سنگین بحران سے نبردآزما ہے۔ ملک جب آزادی کا ’امرت مہوتسو‘ منا رہا ہے، تب ایم ایس ایم ای سیکٹر میں ماتم پسرا ہوا ہے۔ تقریباً 59فیصد ایم ایس ایم ای بند ہونے کے دہانے پر ہیں۔ حکومت، صنعت کار اور مزدور، ہر کسی کی امیدیں ٹوٹتی نظر آرہی ہیں۔
کچھ ماہ قبل تک ایم ایس ایم ای کے بحران میں مبتلا ہونے کے اندازے لگائے جاتے رہے ہیں۔ لیکن اب اندازوں کے کچھ اعدادوشمار آنے کے بعد اس سیکٹر کی تصویر صاف ہونے لگی ہے۔ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ایم ایس ایم ای سے قرض کی قسط کی عدم ادائیگی کے معاملات میں تیزی سے اچھال آیا ہے۔ یعنی اس سیکٹر کے صنعت کاروں کو پہلی سہ ماہی کے دوران جو رقم بینکوں کو واپس کرنی تھی، وہ نہیں واپس کرپائے۔ یہ بات پبلک سیکٹر کے بینکوں کی پہلی سہ ماہی کے بہی کھاتے(حساب کتاب) سے سامنے آئی ہے۔ حالاں کہ اس کی ایک وجہ زیادہ قرض کی تقسیم بھی رہی۔ لیکن اس سے بھی بڑی وجہ ہے کاروبار اور بازار کی خستہ حالت۔ یعنی جس کام میں قرض کا پیسہ خرچ کیا گیا، وہاں سے یا تو وہ وقت پر واپس نہیں آیا، یا خرچ کرنے اور واپس آنے کے عمل میں پیسہ برباد ہوگیا۔ یہ دونوں صورت حال کسی صنعت کے لیے اچھی نہیں کہی جاسکتیں۔ ایم ایس ایم ای کی حالت پہلے ہی سے ٹھیک نہیں تھی اور پھر وبا نے تو اس کا بھٹہ ہی بیٹھا دیا۔
پالیسی کی حد(Policy Limits)کی وجہ سے ایم ایس ایم ای سیکٹر کو وہ سہولتیں نہیں مل پاتیں جو بڑے کاروباری اداکاروں کو حاصل ہیں۔ سرمایہ کی کمی اس سیکٹر کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ آسان قرض مل پانا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے۔ وبا کے دوران حکومت نے اس سیکٹر کو راحت دینے کے لیے آسان قرض کے کچھ التزامات کیے۔ ایمرجنسی کریڈٹ لائن گارنٹی اسکیم(ای سی ایل جی ایس) کے سبب مالی سال2020-21میں ایم ایس ایم ای کو کل ساڑھے 9لاکھ کروڑ روپے کے قرض دیے گئے جو 2019-20کے 6.8لاکھ کروڑ سے کافی زیادہ ہے۔لیکن لگتا ہے کہ اس قرض کو واپس کرنے کا ایک نیا چیلنج اس سیکٹر کے سامنے آکھڑا ہوا ہے۔ اس سیکٹر کے کاروباری ادارے اپنی دین داری نہیں ادا کرپارہے ہیں۔ مالی سال 2021-22کی پہلی سہ ماہی میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا(ایس بی آئی) کے نئے بقائے کا سائز چار گنا بڑھ کر 15,666کروڑ روپے ہوگیا، جو سال بھر پہلے کی طرح سہ ماہی میں 3637 کروڑ روپے تھا، یعنی پانچ گنا کے آس پاس۔ اور اس بقایہ کا 40فیصد سے زیادہ حصہ یا 6416کروڑ روپے اکیلے ایم ایس ایم ای سیکٹر سے ہے۔ اسی طرح انڈین بینک کے نئے بقایہ کا 59فیصد حصہ یا 4204کروڑ روپے اور کینرا بینک کے نئے بقایہ کا 58فیصد یا 4253کروڑ روپے ایم ایس ایم ای سیکٹر سے ہے۔ ان اعدادوشمار سے واضح ہے کہ بینکوں کا ہزاروں کروڑ روپیہ ایم ایس ایم ای سیکٹر کے قرض میں پھنس گیا ہے۔ اگر یہ صنعتیں قرض کی ادائیگی کے قابل نہیں ہوں گی تو اس کا راست اثر بینکوں کی صحت پر نظر آئے گا جو پہلے ہی سے این پی اے کے بوجھ تلے دبے پڑے ہیں۔
حکومتیں شیئر بازار میں تیزی اور پہلی سہ ماہی کے جی ڈی پی کے اعدادوشمار(20.1فیصد) سے پرجوش ہیں اور اس کی بنیاد پر مان رہی ہیں کہ سب کچھ صحیح راستہ پر ہے۔ لیکن صحیح بات تو یہ ہے کہ ایم ایس ایم ای شیئر بازار سے باہر ہیں اور جی ڈی پی کے اعدادوشمار میں بھی ایم ایس ایم ای کا غیرمنظم شعبہ شامل نہیں ہے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ حکومت یا سرکاری بینکوں کو ایم ایس ایم ای سیکٹر کی حالت کے بارے میں معلوم نہیں ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے حالاں کہ جولائی کے اپنے مالی استحکام کی رپورٹ (Financial Stability Report)میں کہا تھا کہ بینکوں کے این پی اے کا سائز بڑھ سکتا ہے، خاص طور پر ایم ایس ایم ای اور ریٹیل سیکٹر کی مد میں۔ جب کہ بینکوں اور غیر بینکنگ فائنانس کمپنیوں کے ایم ایس ایم ای مد کا بحران حل کرنے کے لیے آر بی آئی کئی تنظیم نو کے منصوبے(Restructuring Plans)پہلے ہی پیش کرچکا ہے۔ آر بی آئی نے 2019سے لے کر 3ایسے منصوبے پیش کیے، جس کے تحت ایم ایس ایم ای سیکٹر کے 25کروڑ روپے تک کے بحران میں مبتلا قرض کے ری اسٹرکچرنگ کی اجازت دی گئی۔ اس کی بنیاد پر بینکوں نے جنوری 2019، فروری 2020اور اگست 2020کے ری اسٹرکچرنگ پلانس کے تحت کل 56,866کروڑ روپے کے قرض کو ری اسٹرکچرکیا۔ لیکن یہ راحت اونٹ کے منھ میں زیرے جیسی تھی، جس کے سبب یہ سیکٹر مالی بحران سے باہر نہیں نکل پایا۔
ایم ایس ایم ای کی بدتر حالت کا اندازہ زرعی شعبہ میں بڑھ رہی مزدوروں کی تعداد سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ مزدوروں کی کارخانوں سے زرعی شعبہ میں مسلسل ہجرت ہورہی ہے۔ سی ایم آئی ای کے اعدادوشمار کہتے ہیں کہ مالی سال 2017-18میں زراعت کے شعبہ میں کام کررہے مزدوروں کی حصہ داری 35.3فیصد تھی جو 2019-20میں بڑھ کر 36.1فیصد، 2019-20میں 38فیصد اور 2020-21 میں 39.4 فیصد ہوگئی۔ ڈیمانڈ نہ ہونے کی وجہ سے مینوفیکچرنگ سیکٹر بری طرح متاثر ہوا ہے، جس کے سبب اس سیکٹر میں مزدوروں کی حصہ داری 2020-21 میں 9.4فیصد سے کم ہوکر 7.3فیصد پر آگئی۔ مینوفیکچرنگ کے شعبہ کے 60فیصد مزدور ایم ایس ایم ای کے غیرمنظم شعبہ میں کام کررہے ہیں اور یہیں سے مزدوروں کی زرعی شعبہ میں ہجرت ہورہی ہے۔
حکومت نے جولائی 2019میں اعلان کیا تھا کہ اگلے پانچ برسوں میں ایم ایس ایم ای سیکٹر کا جی ڈی پی میں تعاون بڑھا کر 50فیصد کیا جائے گا اور پانچ کروڑ نئی نوکریاں پیدا کی جائیں گی۔ ممکنہ اسی سلسلہ میں اس سال جولائی ریٹیل کاروبار کو بھی ایم ایس ایم ای میں شامل کیے جانے کا اعلان کیا گیا۔ لیکن اس کے پہلے مئی، 2021میں آئی لوکل سرکلس کی ایک سروے رپورٹ میں کہا گیا کہ ملک میں تقریباً 59فیصد چھوٹے نئے کاروبار(اسٹارٹ اپ) اور ایم ایس ایم ای سال کے آخر تک اپنے کاروبار کم کردیں گے، بند کردیں گے یا فروخت کردیں گے۔ زیادہ تشویشناک بات تو یہ ہے کہ صرف 22فیصد ایم ایس ایم ای کے پاس ہی تین ماہ سے زیادہ تک چلانے کے لیے وسائل باقی ہیں۔ جب کہ تقریباً 41فیصد کے پاس یا تو سرمایہ ختم ہوچکا ہے یا ایک ماہ سے بھی کم مدت بچی ہے۔ سروے میں 88فیصد کاروباری اداروں نے اپنے کاروبار بچانے کے لیے حکومت سے ان اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کا مطالبہ کیا تھا، جنہیں بنانے میں اسٹیل اور تانبہ استعمال ہوتاہے اور پی ایس یو کو اس کی سپلائی معاہدہ کے تحت کی جاتی ہے۔ تقریباً 92 فیصد صنعتی اداروں نے کہا تھا کہ حکومت پی ایس یو کے ساتھ ہوئے سبھی معاہدوں کو پورا کرنے کے لیے 3سے 6ماہ کا وقت بڑھائے، تاکہ انہیں لیکویڈیٹی سے وابستہ کوئی نقصان نہ ہو۔
حکومتیں شیئر بازار میں تیزی اور پہلی سہ ماہی کے جی ڈی پی کے اعدادوشمار(20.1فیصد) سے پرجوش ہیں اور اس کی بنیاد پر مان رہی ہیں کہ سب کچھ صحیح راستہ پر ہے۔ لیکن صحیح بات تو یہ ہے کہ ایم ایس ایم ای شیئر بازار سے باہر ہیں اور جی ڈی پی کے اعدادوشمار میں بھی ایم ایس ایم ای کا غیرمنظم شعبہ شامل نہیں ہے۔ دوسری جانب پہلی سہ ماہی کے بے روزگاری کے اعدادوشمار (9.68فیصد) آئینہ دکھاتے ہیں۔ اعدادوشمار کا مقصد سچ کو جاننا اور اس کے مطابق کارروائی کرنا ہونا چاہیے۔ لیکن اعدادوشمار جب چہرہ بچانے کا ذریعہ بن جائیں تو زمین پر جو بچتا ہے، وہ ناامیدی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ یہی ناامیدی ایم ایس ایم ای سیکٹر میں پسری پڑی ہے۔
(بشکریہ: جن ستّا)