عبدالغفار صدیقی
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔کائنات کی ازلی سچائیاں بار بار آشکارا ہوتی ہیں تاکہ انسان ان سے نصیحت لے اور راہ راست پر لوٹ آئے ۔کائنات کی کچھ ازلی صداقتیں ہیں ،بعض قوانین فطرت ہیں جو بار بار انسان کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ان صداقتوں میں سے ایک یہ ہے کہ ’’ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں‘‘۔پوری انسانی تاریخ اس امر پر گواہ ہے ۔جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے اور فرعون وقت کا سر تکبر و غرور سے اکڑتا ہے تو فطرت موسیٰ کو پیدا کردیتی ہے جو عصائے الٰہی سے فرعون کا سر کچل دیتا ہے۔ اہل ایمان کے لیے قرآن مجید میں درجنوں قوموں کے واقعات پیش کیے گئے ہیں ۔جو لوگ قرآن کو تسلیم نہیں کرتے ان کے لیے معلوم انسانی تاریخ میں بے شمار واقعات ہیں۔اگر کسی کے پاس چشم بصیرت ہوتو وہ اپنے آس پاس کے ماحول اور اعزہ واحباب کے درمیان سے بھی ایسے حادثات دیکھ سکتا ہے ۔مظلوم کی آہ سیدھے عرش سے ٹکراتی ہے ،لفظ اللہ میں اس آہ کا اثر دوتہائی ہوتا ہے ۔بقول شاعر:
جب ظلم گزرتا ہے حد سے قدرت کو جلال آجاتا ہے
فرعون کا سر جب اٹھتا ہے موسیٰ کوئی پیدا ہوتا ہے
ماضی قریب میں سب سے بڑے فرعون کا نام ہٹلر تھا ۔اس کے مظالم کی داستانیں سب کی زبانوں پر ہیں ۔مگر اس کا انجام کیا ہوا؟اسے عزت کی موت بھی نصیب نہیں ہوئی ۔کہتے ہیں کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی لاش کے ساتھ بے حرمتی کی گئی۔آج تمام جارح طاقتوں نے منہ کی کھائی ہے۔عراق ، افغانستان اور اس سے قبل ویتنام میں کیا ہوا سب کو پتہ ہے۔ امریکہ نے ویتنام میں منھ کی کھائی ،آج وہ خود عراق میں محفوظ نہیں ہے اور افغانستان سے جس طرح وہ پسپا ہوا ہے اس کو سب نے دیکھا ہے ۔اسی طرح سویت روس نے کمیونزم کی اشاعت کے لیے جنگیں کیں اس نے بھی افغانستان پر حملہ کیا اور مسلسل جد وجہد کے بعد آخر کار پسپا ہوا اور سویت روس ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر قصۂ پارینہ بن گیا۔یہ تو وہ مثالیں ہیں جن میں ایک ملک نے دوسرے ملک کو شکست دی اور اسے بھاگنے پر مجبور کردیا ۔تاریخ میں وہ مثالیں بھی ہیں جب مظلوم عوام نے اپنے ہی ملک کے حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور انھیں اقتدار سے بے دخل کردیا بلکہ انھیں اپنے ملک سے جلاوطن ہونا پڑا ۔اس ضمن میں ایران کے رضا شاہ پہلوی کو جلا وطن ہونا پڑا۔افغانستان میں نجیب کو عوام نے سولی پر لٹکا دیا اوران کی لاش کے ساتھ کیا ہوا وہ تاریخ کی کتابوںمیںدرج ہے۔ گزشتہ دس مہینوں سے ایک اور فرعون نیتن یاہو سے قوم موسیٰ کی جنگ جاری ہے ۔مظلوم فلسطینیوں کے خلاف وقت کی عظیم طاقتیں متحد ہیں ۔یہ وہی طاقتیں ہیں جو امن کے نوبل انعام تقسیم کرتی ہیں ،جن کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا میں انسانی حقوق کی پاس دار ہیں ۔وہ ضمیر کی آزادی کی ضامن ہیں ۔مگر دنیا ان کا کردار دیکھ رہی ہے ۔عراق ،افغانستان ،میانمار اور فلسطین کے لیے ان کے پیمانے بدل گئے ہیں کیوں کہ وہاں مظلومین کا تعلق اسلام سے ہے ۔اسلام کے خلاف الکفر ملۃ واحدہ کا نظارہ ہے ۔میرا یقین ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو یہاں بھی دہرائے گی اور ظالموں کو منہ کی کھانی پڑے گی اورایک دن دم دبا کر بھاگنا پڑے گا۔
سب سے تازہ واقعہ شیخ حسینہ کے ملک چھوڑنے کا ہے ۔انھیں بنگلہ دیش، اپنے وطن سے جان بچا کر بھاگنا پڑا ۔اس حال میں کہ فوج کی کمان ان کے قریبی عزیز کے ہاتھوں میں تھی ۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر فوجی جنرل ان کا رشتہ دار نہ ہوتا تو شاید وہ زندہ نہ رہ پاتیں۔ ان کے ملک سے فرار ہونے کے بعد مختلف آراء سامنے آرہی ہیں ۔کوئی کہتا ہے کہ چین سے ناراضگی مہنگی پڑی ،کوئی کہتا ہے کہ پاکستان نے ایسا کیا اور کوئی کہتا ہے کہ اس میں ملک کی اسلامی جماعتوں کا ہاتھ ہے ۔ہمارے ملک کا میڈیا جو باتیں نمایاں طور پر پیش کررہا ہے ان میں ایک یہ ہے کہ شیخ حسینہ کے تختہ پلٹ میں وہاں کی جماعت اسلامی کا ہاتھ ہے ۔تختہ پلٹنے کے بعد غیرمسلموں کے گھر جلانے ،غیر مسلموں کو جان سے مارنے اور ان کی بہو بیٹیوں کے اغوا کرنے نیز مندروں میں آگ لگانے کے واقعات بھی جماعت اسلامی ہی سے منسوب کیے جارہے ہیں ۔جن کے ردعمل میں غازی آبادسمیت ملک کے کئی حصوں میں ہندو رکشک دل نے مسلمانوں کی جھگی جھونپڑی پر حملہ کردیا ۔انھیں مارا پیٹا اور ان کی جھگیوں میں آگ لگادی ۔ان حالات میں مسلمانوں نے بہت صبروضبط کا ثبوت دیا ہے۔ ملک کے مسلمانوں نے طے کرلیا ہے کہ وہ آپے سے باہر کبھی نہیں آئیں گے۔ وہ ملکی قانون کو اپنے ہاتھوں میں نہیں لیں گے۔ ورنہ میڈیا کا بیانیہ تو پورے ملک میں آگ لگانا چاہتا ہے۔بار بار جلتے مندروں کی تصویر دکھائی جارہی ہے لیکن گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے ذرا تصویر بدل دی ہے ۔ہمارے ملک کا میڈیا شیخ حسینہ کو مظلوم ثابت کرنے پر پورا زور صرف کررہا ہے ۔اسے یہ یاد نہیں رہا کہ شیخ حسینہ نے حالیہ الیکشن دھونس دھاندلی اور اپوزیشن جماعتوں کی عدم موجودگی میں جیتا تھا ۔میڈیا نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ وہ الیکشن ایک فریب تھا ۔اسے یہ بھی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ جائزہ لیتا کہ آخر مکمل اکثریت کے ساتھ جیتنے والی حکومت چند مہینوں میں ہی کیسے ان حالات تک پہنچ گئی ؟اس کا مطلب ہے کہ انتخاب کے وقت بھی اس کو عوام کی اکثریت حاصل نہیں تھی ۔نہ ہی ہماری میڈیا کو اپوزیشن جماعتوں پر کیے گئے مظالم یاد رہے ۔خالدہ ضیا اور ان کے کارکنوں کو جھوٹے مقدمات میں جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ۔کئی لیڈروں کو غداری کے فرضی مقدمات قائم کرکے انھیں پھانسی پر لٹکا دیا گیا ۔میڈیا نے کرکٹ کھلاڑی لٹل داس کے گھر کے بارے میں کہا کہ وہ جلا دیا گیا ہے جب کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
جب کسی ملک میں اظہار رائے کی آزادی سلب کرلی جاتی ہے ۔جب میڈیا کی آزادی چھین لی جاتی ہے اور میڈیا خوف و لالچ میں حکومت کی زبان بولنے لگتا ہے اور جب عدلیہ کی کرسیوں پر اپنی پسند کے قاضی مقرر کردیے جاتے ہیں تو ظلم کی انتہا ہوجاتی ہے۔ کیا یہی سب کچھ بنگلہ دیش میں نہیں ہوا ؟جس طرح ہر دین اور مذہب کو پھلنے پھولنے کا حق ہے ،اسی طرح کمیونزم ،سیکولرزم اور نیشنلزم کو اپنی بات کہنے ،اپنی تنظیم سازی کرنے اور حکومت و اقتدار کے ایوان تک پہنچنے کی آزادی ہے اسی طرح یہ آزادی دیگر مکاتب فکر کے لوگوں کو بھی ہونی چاہئے۔
بنگلہ دیش میں ان بے روزگار نوجوانوں نے تختہ پلٹا ہے جو ہاتھوں میں ڈگریاں لے کر روزگار کے لیے دھکے کھارہے ہیں ۔اس عوام نے پلٹا ہے جو اپنے رہنمائوں پر حکومت کے مظالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ،جب عوام کے اندر بے چینی اور ہیجان پیدا ہوتا ہے تو وہ اسی طرح سڑکوں پر آجاتی ہے جس طرح بنگلہ دیش میں آئی ہے ۔بنگلہ دیش کی اپوزیشن جماعتیں چاہے وہ خالدہ ضیا کی جماعت بی این پی ہو یا جماعت اسلامی ان کے ساتھ بھی عوام کی بڑی تعداد ہے ،وہ بھی وہاں کی عوامی جماعتیں ہیں ۔یہ جماعتیں جنرل ارشاد کے خلاف ایک ساتھ تھیں ۔وہ بھی وقت تھا جب جماعت اسلامی نے شیخ حسینہ کا ساتھ دیا تھا ۔ اس لیے ہمیں کسی تنظیم یا جماعت سے نہ اس قدر دشمنی ہونی چاہئے کہ اس کے خلاف ماحول بنائیں اور نہ اس قدر محبت کہ ہم عدل و انصاف بھول جائیں بلکہ ہمیں ملک کی عوام کی منشاء ، ان کے مفاد اور ان کی خیر خواہی کو مد نظر رکھنا چاہئے ۔شیخ حسینہ کو اپنے ملک کی نبض سمجھنا چاہئے تھی ۔انھیں ڈکٹیٹر نہیں بننا چاہئے تھا ۔ ان کے والد نے یہ ملک اس لیے نہیں بنایا تھا کہ اس کے حکمراں اپنی عوام پر مظالم ڈھائیں اور انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کرکے حکومت کریں ،وہ جمہوریت کے علم بردار تھے ۔جمہوریت کی صحت و سلامتی کے لیے ایک مضبوط اپوزیشن لازمی ہے ۔عدلیہ اور میڈیا کی آزادی اس کی روح ہیں ۔
بنگلہ دیش کے حادثہ سے دوسرے ممالک کے حکمرانوں کو سبق لینا چاہئے ۔جمہوریت میں تمام مذاہب کا یکساں احترام کیا جاتا ہے ۔حکومت کو چاہئے کہ وہ کسی بھی مذہب میں دخل اندازی نہ کرے بلکہ شہریوں کے درمیان اخوت و بھائی چارہ پیدا کرے ۔حکومتیں آتی اور جاتی رہتی ہیں ۔اپنے کو خدا ماننے والے حکمران بھی پیوند خاک ہوگئے ہیں ۔بہرکیف اس بات کی خوشی ہے کہ بنگلہ دیش کی نئی حکومت کو ہمارے وزیر اعظم نے مبارک باد دی ہے ۔اب یہ نئی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتقام کے بجائے عدل و انصاف سے کام لے اور عوام کی عزت و آبرو کے تحفظ کو یقینی بنائے ۔نیز وقت مقررہ کے اندر آزادانہ ومنصفانہ انتخابات کرائے ۔
٭٭٭