مراق مرزا
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ظلم و استبداد کا سورج اس کرئہ ارض کے کسی بھی خطے میں ہو، انسانیت کے لیے شدید اذیت ناک ہوتا ہے، تاہم ایک سچ یہ بھی ہے کہ ایک نہ ایک دن یہ سورج وقت کے دورخ میں ضرور دم توڑتا ہے اور اس کے وجود کے فنا ہونے کی داستان آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کا باعث بنتی ہے۔ بشارالاسد بھی معزول ہوگئے اور ہمیں ان کی معزولی کے اسباب کو سمجھنا ہے۔ ان کے دور اقتدار کو آمریت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسد شام چھوڑ کر روس میں سیاسی پناہ لے چکے ہیں۔ روسی سربراہ پوتن نے دوستی کا فرض نبھاتے ہوئے انہیں ماسکو میں رہنے کی جگہ دے دی ہے اور یہ جگہ اسد کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ ہے۔ 1971 میں بشارالاسد کے والدحافظ الاسد نے شام میں حکومت قائم کی تھی۔ ان کی رحلت کے بعد حکومت کی باگ ڈور بشاالاسد کے ہاتھوں میں آئی۔ قریب 54 سال بعد اسد خاندان کے آمرانہ دور اقتدار کی کہانی کا بے حد ڈرامائی انداز میں کلائمکس ہو چکا ہے۔ بشارالاسد حکومت کے تختہ پلٹ کے اس حیرت انگیز واقعے پر عالمی سیاست سے واقف بہت سے دانشوروں کے اذہان میں کئی سوال اٹھ رہے ہیں۔ کیا یہ سارا کھیل کسی عالمی سازش کا حصہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کھیل میں اہم کھلاڑی یا کردار کون ہیں؟ کئی سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران نے شام کو بیچ دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ایران نے یہ سودا کس ملک کے ساتھ کیا اور اس سے ایران کا فائدہ کیا ہے؟ کچھ احمق قسم کے لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ روس نے ایران کا ساتھ مضبوطی سے نہیں دیا۔ سوال پھر وہی اٹھے گا کہ ایسا کرنے سے روس کا کیا فائدہ ہونے والا ہے؟ اگر پوتن، بشارالاسد کا ساتھ نہ دیتے تو وہ اہل خانہ کے ہمراہ زندہ ماسکو نہیں پہنچ پاتے اور شام میں پکڑے جانے پر ان کا وہی انجام ہوتا جو ماضی میں صدام حسین اور کرنل معمر قذافی کا ہوا تھا۔ آج سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ ہر روز خبروں کا انبارانٹرنیٹ پرنظرآتاہے، اس لیے راز کتنے ہی پردے میں کیوں نہ ہوں، بہت جلد کھل جاتے ہیں۔ معتبر میڈیا رپورٹوں کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بشارالاسد سرکار کو گرانے کے پیچھے امریکہ، اسرائیل اور ترکیہ کاہاتھ ہے۔ کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ شامی فوج کے کئی بڑے افسران اس سازش میں شامل تھے۔ تختہ پلٹ کا کھیل اسی طرح کھیلا جاتا ہے۔ تاریخ میں ایسے کھیل کی بہت سی مثالیں موجودہیں۔
2017 میں شام کی متعدد جنگجو تنظیمیں آزادی کی لڑائی کے لیے متحد ہوئی تھیں اور اس اتحاد کے نتیجے میںحیات تحریر الشام یعنی ایچ ٹی ایس نام کا ایک گروپ وجود میں آیا جس کا مقصد بشارالاسد کی آمرانہ حکومت سے شام کے عوام کو نجات دلانا تھا۔ گزشتہ 7 برسوں کے دوران یہ گروپ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں کرپایا تھا۔ پھر اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ 27 نومبر کو یہ باغی ابو محمد الجولانی کی قیادت میں سرگرم ہو اٹھے اور انہوں نے اسد حکومت کے خلاف زوردار حملے شروع کر دیے اور محض 11 دنوں لڑائی میں یہ باغی لڑاکے برق رفتاری سے حلب، ادلب اور دوسرے بڑے شہروں میں پرچم لہراتے ہوئے دارالحکومت دمشق کوبھی قبضے میں لے لیا۔ بشارالاسد کو مع افرادخانہ راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ یہ واقعہ کوئی معجزہ نہیں بلکہ ایک بڑی سازش کا نتیجہ ہے۔
ایسا کہا جاتا ہے کہ گزشتہ 7 برسوں کے دوران اسد اپنے خلاف رک روک کر اٹھنے والی بغاوت کے شور کو روس اور ایران کی مدد سے کچلتے رہے۔ اس کے باوجود شام کے پورے علاقے میں ان کی حکومت قائم نہ ہوسکی تھی۔ شام 3 حصوں میں بٹ گیا تھا۔ اسد حکومت کے کنٹرول میں صرف 63 فیصد حصہ تھا۔ 26 فیصد زمین پر باغی جنگجوؤں سیرین ڈیموکریٹک فورسز کا قبضہ تھا جبکہ 11 فیصد پر فری سیرین آرمی کا کنٹرول تھا۔ سیرین ڈیموکریٹک فورسز کردوں کی فوج ہے۔ مڈل ایسٹ کی سیاست کو سمجھنے والے یہ جانتے ہیں کہ سیرین ڈیموکریٹک فورسیز ترکیہ کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ترکیہ نہیں چاہتا کہ شام میں سیرین ڈیموکریٹک فورسیز مضبوط ہو۔ اس سے اس کے سرحدی علاقوں میں جہاں کردوں کی بڑی آبادی ہے، مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سیرین ڈیموکریٹک فورسیز کو امریکہ سپورٹ کرتا ہے جبکہ ترکیہ فری سیرین آرمی کا حمایتی ہے۔ یہ عالمی سیاست کا کھیل ہے۔ عالمی سیاست ملکوں کے مفادات کے محور پر گھومتی ہے۔ لاشیں کس کی گر رہی ہیں، کتنی گر رہی ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہر ملک کے لیے اس کے اپنے مفادات اہم ہوتے ہیں۔
شام کو بشارالاسد کے ظالمانہ نظام سے آزادی مل گئی ہے۔ اس کا جشن ان مسلم ممالک میں بھی منایا جا رہا ہے جہاں جمہوریت نہیں ہے مگرپریشان کن سوال یہ ہے کہ ملک کی باگ ڈور جن لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے، وہ کون ہیں؟ ایچ ٹی ایس کے لیڈر ابو محمد الجولانی دہشت گردی کے الزام میں پانچ برس امریکہ کی جیل میں گزارچکے ہیں۔ عراق کی ایک عدالت انہیں سزائے موت سناچکی ہے۔ کیا ایسے لوگوں سے یہ امید جاسکتی ہے کہ یہ شام کو سیاسی استحکام اورشامی عوام کو امن وامان دے پائیں گے؟ ہر چند کہ مثبت شبیہ پیش کرنے کے لیے جولانی نے دمشق کو قبضے میں لینے کے بعد اعلان کیا ہے کہ وہ فوج جوبشارالاسد کے لیے مجبوراً خدمات انجام دے رہی تھی، اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی، شخصی آزادی کے حقوق کی حفاظت ہوگی، خواتین کے پہناوے پر کوئی سختی نہیں کی جائے گی مگر شام کے حالات اس اعلان کے برعکس ہیں۔ آمریت کے ستائے ہوئے شامی جب مختلف شہروں، قصبوں اورسڑکوں پر جھوم جھوم کر جشن آزادی منارہے تھے تو اسی وقت آسمان سے میزائلوں کی بارش شروع ہوگئی۔ میزائل کی یہ بارش اسرائیلی فوج نے کی تھی جس کا جواب دینا عبوری حکومت کے بس کی بات نہیں۔ گولان پہاڑی کے ساتھ ساتھ شام کے کئی سرحدی علاقوں پراسرائیلی فوج قبضہ جماچکی ہے۔ شام کے مختلف فوجی ٹھکانوں پر حملہ کرکے قریب 85 فیصد جنگی اسلحہ جات اسرائیلی فوجیں تباہ کرچکی ہیں۔ حال ہی میں جولانی نے کہاہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ جنگ نہیں، اچھے رشتے قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس بیان کے پردے میں سمجھا جا سکتا ہے کہ شام کے سارے کھیل کا ماسٹر مائنڈ کون ہے اور یہ کھیل کیوں کھیلاگیا ہے۔ تختہ پلٹ شام میں ہوا ہے مگر نشانے پر روس اور ایران ہیں۔
دنیا اس بات سے باخبرہے کہ نیتن یاہو اسرائیل کو گریٹر اسرائیل بنانے کے ایجنڈے پرکام کر رہے ہیں، چنانچہ عرب ملکوں کو خواب غفلت میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ محفوظ ہیں۔ اسرائیل کا یہ خواب اگر شرمندئہ تعبیر ہو گیا تو نہ صرف عرب ممالک بلکہ اس خطے کے کئی دیگر ممالک بھی گریٹراسرائیل کے نقشے پر نظر ّآ جائیں گے۔ بظاہر امریکہ شام کے باغی گروپ کو استعمال کرکے اپنے مقصد میں کامیاب ہوتادکھائی دے رہاہے اور دنیا کو لگ رہاہے کہ شام میں تختہ پلٹ کے سبب روس اورایران شکست کھاچکے ہیں مگر یہ تصویر کاایک رخ ہے۔ سیاسی شطرنج کی بساط پر بازی کب پلٹ جائے، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ شام پر پہلے تین گروہوں کا کنٹرول تھا، اب اسرائیل بھی آگیا ہے، چنانچہ وہاں خانہ جنگی کے شعلے پھر سے بھڑک سکتے ہیں۔ دنیا کی بڑی طاقتیں دو حصوں میں منقسم ہیں۔ گوکہ اس کا اعلان نہیںکیاگیاہے، تاہم ایسا کہا جا رہا ہے کہ ایران نیوکلیئر بم بنا چکا ہے۔ ماہرین جنگ مانتے ہیں کہ اسرائیل نے شام کی زمین کو اگرایران پرحملے کے لیے استعمال کیاتو دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی آگ سے بچانا مشکل ہوجائے گا۔ ایسی صورت میں روس، چین اور دیگر کئی ممالک میں ایران کے ہمراہ نظرآئیں گے اور شام کی زمین سے جو جنگ کا طوفان اٹھے گا، دنیا کی بڑی آبادی کو نگل جائے گا۔ بلغاریائی خاتون بہت پہلے ہی یہ پیش گوئی کرچکی ہے کہ تیسری جنگ عظیم میں امریکہ اور بہت سے یوروپی ممالک پوری طرح تباہ ہو جائیں گے اور ان کی کہانی تاریخ بن جائے گی۔ تیسری جنگ میں رول اور ایران کا کوئی رول نہ ہو، یہ بات مانی نہیں جا سکتی۔ یہ امریکہ اور یوروپی ممالک بھی سمجھتے ہیں۔ اسی لیے روس کے دائرۂ اثر کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔