ایم اے کنول جعفری
سیاست کا اُونٹ کب اور کس کروٹ بیٹھ جائے، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔اَب بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہی دیکھ لیجیے۔ کل تک ریل گاڑی کی پٹریوں کی طرح مسلمانوں سے برابر کی دوری بنائے رکھنے میں یقین رکھنے والی اس زعفرانی تنظیم کو کہیں دُور پٹریاں ملتی نظر آرہی ہیں۔ اگلے برس ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اپنی فتح یقینی بنانے کے لیے اب اُسے نہ تو مسلمانوںکے دروازے پرجاکر دستک دینے سے گریز ہے اور نہ ہی ان ٹوپی اوڑھنے وا لوں سے انتہائی گرم جوشی کے ساتھ ہاتھ ملانے میں کوئی اعتراض ہے۔بی جے پی نے نئی حکمت عملی کے ساتھ نئی ٹیم کھڑی کرکے تیسری بار ملک کے اقتدار پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے کوششیں تیز کردی ہیں۔ اِس مرتبہ اُس کی نگاہیںحزب اختلاف کے پاس رہنے والے مضبوط مسلم ووٹ بینک پر ٹکی ہیں۔ مسلم ووٹوں میں نقب زنی کے ارادے سے خاص پلاننگ کی گئی ہے۔2024 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل مسلمانوں کے دلوں میں جگہ بنانے کی قواعد میں مسلم اکثریت والے پارلیمانی حلقوں میں مسلمانوں کو ’مودی متر‘ بنایا جائے گا۔ عید الفطر کے بعد25اپریل سے بی جے پی کا اقلیتی مورچہ مہم کا آغاز کرے گا۔اس عمل کے لیے اُن علاقوں اور حلقوں کی پہچان کر لی گئی ہے،جہاں مسلموں کی آبادی 30فیصد سے زیادہ ہے۔
بی جے پی اقلیتی مورچہ کے دہلی صوبے کے انچارج عاطف رشید کے مطابق مسلمانوں کو بی جے پی سے جوڑنے کے لیے ملک بھر میں رابطہ مہم شروع کی جائے گی۔ ’گاؤں گاؤں گھرگھر چلو‘ نعرے کے ساتھ شروع مہم کے تحت پسماندہ مسلموں کے گھر گھر جاکر انہیں مودی حکومت کی پالیسیوں ، منصوبوں اور کیے گئے کاموں سے آگاہ کیا جائے گا۔ مسلمانوں کو ’مودی متر‘ بنانے کی حکمت عملی بھی بنائی گئی ہے۔ اس میں پسماندہ سمیت سبھی سطح کے مسلمانوں کو شامل کیا جائے گا۔ مسلم اکثریت والے اسمبلی اور پارلیمانی حلقے میں پانچ ہزار سے 10ہزار تک ایسے لوگ تلاش کیے جائیں گے،جن کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے۔ وہ نہ تو بی جے پی سے منسلک ہیں اور نہ ہی کانگریس یا دیگر کسی پارٹی کے ساتھ ہیں،لیکن کسی نہ کسی حد تک وزیراعظم نریندر مودی کی پالیسیوں سے ضرور متاثر ہیں۔ یہ لوگ ڈاکٹر، انجینئر، سماجی کارکن، صحافی، پروفیسر وغیرہ کوئی بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ لوگ سیاست میں سرگرم نہیں ہیں، لیکن معاشرے میں گہرے اثر ورسوخ کی بنا پر اسے متاثر کرنے کی قوت ضرور رکھتے ہیں ۔ بی جے پی کو اُمید ہے کہ ’مودی متر‘ بنائے گئے ان مسلمانوں کے ذریعہ مودی سرکار کے پیغامات اور پالیسیوں کو عام مسلمانوں کے درمیان بہتر طریقے سے پہنچایا جا سکے گا۔ 25اپریل 2023 سے شروع یہ پروگرام ایک برس تک چلے گا۔ اس کے علاوہ صوفی طبقے کے لوگوں کو پارٹی سے جوڑنے کے مقصد سے بی جے پی15مارچ سے ’صوفی سنواد ابھیان‘ شروع کرچکی ہے۔ مسلم اکثریت والے 65 اضلاع میں اقلیتی طبقے کے ’مودی متر‘ بنانے ہیں۔اِنہیں پہلے ضلع اور پھر بلاک سطح پر بنایا جائے گا۔ اسی کے تحت عید اور دیگر مسلم تہواروں پر مسلمانوں کے درمیان جگہ بنانے کی کوشش کے ساتھ انہیں بھی ہولی اور دیوالی کے مواقع پر مدعو کیا جا رہا ہے۔ دیوبند میں بی جے پی رہنما کرنل راجیو کمار کے مکان پر منعقد ہولی ملن پروگرام میں جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا ارشد مدنی کو مدعوکرنے کو بھی اسی سمت میں دیکھا جاسکتاہے۔ کیرالہ میںبی جے پی کارکنان کو مسلمانوں کے علاوہ عیسائی خاندانوں تک بھی رسائی حاصل کرنے کے احکام دیے گئے ہیں۔
ہندوستان میں موجود14فیصد مسلم آبادی کو سیاسی طور پر کافی اہم مانا جاتا ہے۔ بی جے پی کی حکمت عملی کے تحت کافی مسلمان بی جے پی سے جڑ بھی رہے ہیں۔ اَب مسلم اکثریت والی رام پور سیٹ کو ہی دیکھ لیں، اس سیٹ سے سماج وادی پارٹی کے قدآور رہنما اعظم خاں پارلیمانی رُکن تھے۔ پارٹی ہائی کمان نے انہیں رام پور اسمبلی حلقے سے الیکشن لڑایا۔ان کے ایم ایل اے منتخب ہونے کے بعد پارلیمانی حلقے سے استعفیٰ دینے سے سیٹ خالی ہوگئی۔ ضمنی انتخاب میں بی جے پی نے سماج وادی پارٹی کے امیدوار کو شکست دے کرپارلیمانی سیٹ پر قبضہ کرلیا۔اتنا ہی نہیں اعظم خاں کو ایک مقدمے میں ایم پی -ایم ایل اے کورٹ سے سزا کے بعد ان کی اسمبلی کی رکنیت ختم ہوگئی۔ رکنیت ختم ہونے سے سیٹ خالی ہوگئی۔اس خالی ہوئی سیٹ پر ہوئے ضمنی الیکشن میں بھی بی جے پی نے فتح حاصل کر تاریخ رقم کی۔ مسلم اکثریت والی اس بے حد اہم سیٹ پربی جے پی کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں کا رجحان بی جے پی کی طرف ہو رہا ہے۔حالانکہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمان بابری مسجد اور گجرات فسادات جیسے معاملات سے دل برداشتہ ہیں۔وہ بی جے پی، آر ایس ایس اور زعفرانی تنظیموں کی پالیسیوں کو مسلم مخالف مان کر ان سے دُوری بنانے کو ترجیح دیتے آئے ہیں۔ بی جے پی بھی اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ مسلمانوں کے دلوں میں اپنے لیے نرم گوشہ بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر اسے مستقبل قریب میں کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہے۔ بی جے پی اقلیتی مورچہ کے قومی صدر جمال صدیقی کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے لیے مسلمانوں کی سوچ بدل رہی ہے۔مودی کے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے سماج کے ہر طبقے میں ان کی گرفت مضبوط ہوئی ہے۔ اس سب کے باوجود وزیراعظم کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتے۔اسی کے مدنظر وہ یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ جو شخص بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتا،اس کے گھرپہنچنے سے بھی گریز نہ کیاجائے۔ ضلع اور بلاک سطح کے کارکنان کو صرف 10رائے دہندگان کو بی جے پی سے جوڑنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس کے تحت بی جے پی اپنے پرانے اور پکے ووٹوں کے علاوہ ہر مسلم اکثریت والی سیٹ سے50ہزار مسلم ووٹ حاصل کرکے اپنی جیت یقینی بنانے کی جستجومیں ہے۔دوسری جانب بی جے پی نے کئی مسلم چہروں کو نئی ذمہ داریاں دے کر یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ سب کا ساتھ،سب کا وکاس اور سب کا وشواس میں یقین رکھنے اور مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنے والی سیاسی جماعت ہے۔ عارف محمد خان کے بعد سپریم کورٹ کے سابق جسٹس سیدعبدا لنظیر کو گورنر،غلام علی کھٹانہ کو ایوان بالا میں ایم پی ،شہزاد پونا والا کو پارٹی ترجمان ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کو یو پی قانون ساز کونسل کا رکن اور یوگی حکومت میں محمددانش انصاری کو وزیر بنانے کو مسلم ووٹوں کو رجھانے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو یہ بھی بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ان کے ووٹ حاصل کر نے والی سماج وادی پارٹی کے اتر پردیش میں نو میں سے صرف دو ایم ایل سی شاہنواز خان اور جسمیر انصاری ہیں،جبکہ بی جے پی نے یوپی میں اس سے زیادہ ایم ایل سی بنائے ہیں۔ سابق کانگریسی رہنما غلام نبی آزاد اور پدم شری سے نوازے گئے کرناٹک کے رشید احمد قادری کے ذریعہ نریندر مودی کی تعریف کو بھی بی جے پی کے لیے فائدے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ’مودی متر‘ کے بہانے بی جے پی 2024کے پارلیمانی انتخابات میں مسلمانوں کے درمیان اپنی پکڑ بنا پانے میں کتنی کامیاب ہو تی ہے،یہ آنے والا وقت بتائے گا،لیکن اتنا طے ہے کہ بی جے پی کی یہ پالیسی منتشر مسلمانوں میں نقب لگانے میں ضرور کامیاب ہو جائے گی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]