جزیرہ امن دوحہ پر اسرائیلی جارحیت کے متوقع نتائج: ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

قطر کی راجدھانی دوحہ کو مشرق کا جنیوا کہا جاتا ہے اور اس کی خاص وجہ ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں قطر نے جس مہارت کے ساتھ دنیا کے نہایت پیچیدہ بین الاقوامی مسائل کو پرامن طریقے سے سلجھائے ہیں اور ان کو کامیابی کے ساتھ منطقی نتائج تک پہنچائے ہیں وہ قابل تعریف ہیں۔ افغانستان کے مسئلہ میں بطور خاص قطر کا کلیدی کردار رہا اور امریکہ کی بے نتیجہ جنگ کے خاتمہ کے لئے بات چیت کا راستہ تلاش کرکے ہی اس کو حل کیا گیا تھا، جس سے امریکہ کی ساکھ بچی رہ گئی اور افغانستان کو بھی اپنے بہتر مستقبل کے لئے کام کرنے کا موقع فراہم ہوسکا۔ روس،یوکرین جنگ میں بھی قطر مسلسل اپنا موثر کردار ادا کرتا رہا ہے اور دونوں ملکوں کے ان بچوں کی رہائی کے لئے کوشاں رہا ہے، جو ایک دوسرے کے قبضہ میں چلے گئے تھے۔ اس کی بدولت کئی لوگوں کی رہائیاں عمل میں آئیں۔ جہاں تک فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کا مسئلہ ہے تو اس معاملہ میں ابتدا سے ہی قطر کی سنجیدہ کوششیں جاری ہیں اور اس کی بدولت ہی اسرائیل کو بھی اپنے بعض یرغمال شدہ لوگوں کو فلسطینی مزاحمت کاروں کی قید سے آزاد کروانے میں کامیابی مل پائی تھی۔ اس کے باوجود اسرائیل نے دوحہ کی سیادت ووساطت کا قطعاً کوئی احترام نہیں کیا اور اس کی سرزمین پر موجود حماس کے ان قائدین کے گھروں پر حملہ کردیا جو غزہ میں جنگ بندی سے متعلق امریکی تجویز پر غور و خوض کے لئے جمع ہوئے تھے۔ اگرچہ اسرائیل اپنے اس حملہ میں ناکام رہا اور حماس کے قائدین کو دھوکہ سے شہید نہیں کر پایا، لیکن ایسی جرأت خود ہی دنیا کی قوموں کو مبہوت کرنے کے لئے کافی تھی۔ حماس کی یہ ٹیم جس کو اسرائیل نے نشانہ بنایا تھا دراصل بات چیت کے ذریعہ مسئلہ کے حل کے لئے تشکیل دی گئی ہے۔ مہذب دنیا میں اس کا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ ایسی ذمہ داریاں ادا کرنے والوں کو کوئی گزند نہ پہنچایا جائے، لیکن عرصہ ہوا کہ اسرائیل نے ان بنیادی سفارتی اصولوں پر عمل پیرا ہونا چھوڑ دیا ہے اور مسلسل اپنی من مانی کرکے امن عالم کے لئے خطرہ بنا ہوا ہے۔ قطر پر حملہ کرکے اس نے پورے خطہ کے امن و سلامتی کو ہی نہیں بلکہ عالمی امن کو سخت چیلنج سے دوچار کر دیا ہے۔

اس غیر متوقع حملہ سے صرف قطر اور خلیجی ممالک ہی سکتے میں نہیں ہیں، بلکہ پوری عالمی برادری اسرائیل کی جرأت پر متحیر ہے اور اسی لئے اسرائیل کے حلیفوں نے بھی اس کی شدید مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں فوری میٹنگ بلا کر اسرائیل کو سخت لعن طعن کیا گیا ہے۔ سیکورٹی کونسل میں امریکہ کو بھی اسرائیل کے غیر ذمہ دارانہ اقدام اور دوحہ پر حملہ کی مذمت کرنی پڑی۔ بس اس کا ایک پہلو سب کی نظروں میں کھٹکتا رہا کہ آخر اسرائیل کا نام لے کر اس کی مذمت کی زحمت امریکہ نے کیوں گوارہ نہیں کی؟ باوجوداس کے خلیجی ممالک اور بطور خاص قطر امریکہ کا نہایت مضبوط حلیف ہے۔ امریکہ کی اسرائیل کے ساتھ اس غیر اخلاقی قربت و حمایت کے نتیجہ میں ہی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ ایک قابل اعتماد حلیف ہوسکتا ہے؟ یا اگر امریکہ کے تاریخی حلیفوں کو بھی تحفظ حاصل نہیں ہے تو پھر اس رشتہ کا مستقبل کیا ہونا چاہئے؟ ان تمام پہلوؤں پر غور و خوض کرنے کے لئے دوحہ میں عرب اسلامی چوٹی کانفرنس کا انعقاد 14 اور 15 ستمبر کو ہو رہا ہے۔ اس موقع سے کیا فیصلے لئے جاتے ہیں ان کو دیکھنا دلچسپ ہوگا، کیونکہ دوحہ پر اسرائیل کا حملہ اس پورے خطہ کیلئے ایک فیصلہ کن تاریخی لمحہ ہے۔ جزیرۂ العرب کے ارد گرد عدم استحکام کا طوفان برسوں سے چل رہا تھا، لیکن اس کے باوجود خلیجی ممالک کو محفوظ اور پرامن سمجھا جاتا رہا ہے۔ اسی وجہ سے اس کو Island of Peace یا جزیرہ امن کا خطاب دیا جاتا تھا۔ اب امن کا یہ جزیرہ بھی اسرائیل کی زد میں آچکا ہے تو اس کے نتائج بھی برآمد ہوں گے اور اسی لئے دوحہ پر اسرائیلی جارحیت کو تمام عرب اور اسلامی ممالک نے سنجیدگی سے لیا ہے۔

یہ حملہ اس اعتبار سے بھی خطرہ کی گھنٹی ہے کہ گریٹر اسرائیل کا خواب دیکھنے والے اسماٹریچ، بن گویر اور نیتن یاہو جیسے انتہا پسند صہیونی قائدین کو لگتا ہے کہ یہی وہ موقع ہے، جب اس خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایران ، یمن ،شام اور لبنان سمیت اب تک اس خطہ کے تقریبا آٹھ ملکوں کو اسرائیل اپنی جارحیت کا نشانہ بنا چکا ہے، لیکن دوحہ کو نشانہ بنانا مستقبل کے متوقع نتائج کے اعتبار سے اب تک کا سب سے سنگین قدم ہے ،جو اسرائیل نے اٹھایا ہے۔ اس تناظر میں دوحہ میں منعقد ہونے والی چوٹی کانفرنس کی اہمیت کافی بڑھ جاتی ہے۔ اس مناسبت سے امریکہ کے کردار پر بطور خاص بات ہوگی، کیونکہ دنیا بھر میں امریکی حلیفوں کے دل و دماغ میں یہ شک پیدا ہوچکا ہے کہ آخر امریکہ اپنے حلیفوں کی حفاظت میں بار بار ناکام کیوں رہتا ہے؟ اس شک کے نتیجہ میں اس پر انحصار کو کم کرنے کا سلسلہ یقیناشروع ہوگا، لیکن کیا اس پر انحصار کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا ہے؟ اس کا امکان مستقبل قریب میں بہت کم نظر آ رہا ہے۔ اس لئے پوری حقیقت پسندی کے ساتھ اس کا جائزہ لیا جانا چاہئے کہ اصل میں کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ توقع کی جا رہی ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو منقطع کر لیں گے یا جن ملکوں میں امریکی عسکری ٹھکانے اور بیس موجود ہیں ان کو بند کر دیا جائے گا یا مصر اسرائیل سے گیس خریدنا بند کرکے اس کا متبادل تلاش کرے گا یا محمود عباس فلسطینی اتھارٹی سے علیحد گی اختیار کرکے نئی قیادت تشکیل دیں گے، جس سے فلسطین کے مسائل کے حل کی راہ ہموار ہوگی تو ایسا کچھ بھی ہونے کا امکان بہت کم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اتنی بھاری سیاسی قیمت چکانے کے باوجود بھی ان ملکوں کو کچھ فائدہ ہوگا، اس کا کوئی امکان افق پر نظر نہیں آتا ہے۔

فلسطین کا مسئلہ بھی جوں کا توں ہی برقرار رہ جائے گا اور اس کے پرامن حل کی راہیں مسدود رہیں گے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خلیجی اور دیگر عرب و اسلامی ممالک کو اپنے لئے قابل عمل متبادل پر غور نہیں کرنا چاہئے۔ اگر ان ممالک کی صورت حال بہتر اور مثالی ہوتی تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ امریکہ سے تعلقات کی نوعیت تبدیل کر لی جائے۔ یا ابراہیمی معاہدہ سے ان عرب ملکوں کو باہر آ جانا چاہئے جنہوں نے امریکہ کی قیادت بلکہ دباؤ میں اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کیا تھا۔ لیکن چونکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ جب غزہ میں جاری قتل عام سے ان عرب ملکوں پر کوئی فرق نہیں پڑا تو حال کے واقعہ کو اتنی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ مان لینا محض سادگی کہلائے گی۔ عرب اور مسلم دنیا کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس میں وہ اسلامی غیرت و حمیت باقی نہیں رہی جس کی وجہ سے کبھی اس کے پرچم یوروپ سے لے کر حدود چین تک پوری قوت کے ساتھ لہراتے تھے۔ علمی دنیا میں ان کا مقام نہایت پست ہے، کیونکہ اپنے دست و بازو پر بھروسہ کرکے اپنا مستقبل سنوار نے کا تصور ان میں مفقود ہے۔ باہم اتنے بے سود تنازعات میں پھنسے ہوئے ہیں کہ ان سے نکل پانا ان کے لئے قطعاً آسان نہیں ہے۔ اگر امریکہ کی آغوش میں نہیں رہیں گے تو انہیں چین و روس کے خیمہ میں جگہ تلاش کرنی پڑے گی۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی مثالی کیفیت ان کے لئے نہیں ہوگی۔ لہٰذا جن خطوط پر انہیں عمل کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ تمام عرب اور مسلم ممالک اپنے اندرونی خلفشار کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کریں اور اپنے تحفظ کے لئے ایک طویل مدتی پلان تیار کرکے اس کے نفاذ کو یقینی بنائیں۔ اس پلان کا بنیادی عنصر یہ ہو کہ وہ کسی خارجی قوت پر انحصار کو بتدریج ختم کریں۔ خلیجی ممالک کو بطور خاص یہ سمجھنا ہوگا کہ اس خطہ میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے ایران کے بجائے اسرائیل ذمہ دار ہے۔ اس نقطہ نظر سے انہیں ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت پیش آئے گی۔ جب تک اس خطہ کے تمام ممالک باہم تعاون نہیں کریں گے تب تک امریکہ کے بھروسہ تحفظ کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔

جہاں تک مسئلہ فلسطین کے حل کا معاملہ ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ سفارتی کوششوں کو بنیاد بنا کر کام کیا جائے۔ اگلے ہفتہ اقوام متحدہ میں ’دو ریاست‘ کے حل پر طوفانی اجلاس منعقد ہوں گے اور اس کے بعد وسیع پیمانہ پر اس پروجیکٹ کے لئے عالمی برادری کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس پروجیکٹ کا آغاز سعودی عرب نے کیا ہے۔ اگرچہ اس کو اسرائیل قبول نہیں کرے گا، لیکن اقوام متحدہ کے اقدام کو بنیاد بناکر مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جانا از حد ضروری ہے کیونکہ اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کو سب سے زیادہ خطرہ پرامن سیاسی کوششوں سے لگتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جنگی مشینوں کی سطح پر اس کا مقابلہ کرنا اس خطہ کے ممالک کے لئے ممکن نہیں ہے۔ اس لئے ایک آزاد ریاست فلسطین کو یقینی بنانے کے لئے سنجیدہ سیاسی کوشش کی جائے تاکہ عالمی برادری بشمول اسرائیلی حلیف مجبور ہوجائیں کہ اس حل کے لئے اپنا تعاون پیش کریں جیسا کہ فرانس، برطانیہ اور جرمنی نے وعدہ کیا ہے۔ اسرائیل کی ساکھ اس وقت پوری دنیا میں گر چکی ہے اس لئے مسئلہ فلسطین کے سیاسی اور سفارتی حل کے لئے راستہ ہموار کرنا زیادہ قابل عمل ہوسکتا ہے۔ دوحہ پر اسرائیلی حملہ کی وجہ سے بھی اسرائیل کی معنویات میں سخت کمی آئی ہے۔ وہ پوری دنیا میں الگ تھلگ پڑ چکا ہے۔ اس کا استعمال کرکے غزہ میں جنگ بندی کی سبیل پیدا کی جا سکتی ہے۔ امریکہ نے بھی اس کا اشارہ دیا ہے اس لئے اس کو بھی مجبور کرنا آسان ہوگا۔ اس کا پورا امکان ہے کہ دوحہ پر حملہ سے امریکی ساکھ کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اس کی تلافی کے لئے ٹرمپ اس مطالبہ پر غور کرنے کے لئے مجبور ہوں گے۔ اسرائیل کی اتنی حیثیت نہیں ہے کہ وہ امریکہ کے دائرہ اثر سے باہر چلا جائے اور ٹرمپ کے دباؤ کو نظر انداز کر دے۔ غزہ میں جنگ بندی کی ضرورت اس وقت سب سے زیادہ ہے کیونکہ وہاں زندگیاں ہر روز تباہ ہو رہی ہیں اور لوگ کسی معجزہ کے منتظر ہیں۔ اگر دوحہ حملہ کے بعد اسرائیل کو لگام لگانے میں امریکہ کامیاب ہوجاتا ہے اور اپنے خلیجی حلیفوں میں یہ اعتماد پیدا کرپاتا ہے کہ مستقبل میں ایسا دوبارہ نہیں ہوگا اور اس کے لئے وہ انہیں قابل یقین اور لائق عمل ضمانتیں پیش کرتا ہے تو اس رشتہ کو مزید خراب ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو اس خطہ میں مزید انارکی اور بے امنی کے خطرات میں اضافہ کا پورا امکان موجود ہے۔

(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS